جوگیشوری(ممبئی) کے بکھرے ہوئے کاروبارکا جائزہ

انصاری حافظ حنّان احمد
انصاری حافظ حنّان احمد
 جوگیشوری مارکیٹ
جوگیشوری مارکیٹ

بقلم: انصاری حافظ حنّان احمدبرائے معیشت ڈاٹ اِن

عروس البلاد یعنی ممبئی کیلئے یہ بات مشہور ہے کہ یہ شہر کبھی نہیں سوتاکیوں کہ اس شہر میں ایسے بہت سے علاقے ہیں جو اسے جگمگائے رکھتے ہیں انہیں میں سے ایک علاقہ جوگیشوری بھی ہے ،جوگیشوری پر اگر ہم نظر ڈالیں تو یہاں کے لوگوں کا میل ملاپ ہمیں گنگا جمنی تہذیب کا درس دیتا ہے۔لوگ جوگیشوری کو کبھی بھنڈی بازار کا نام دیتے ہیں تو کبھی چھوٹا پاکستان کہہ کر اس کا ذکر کرتے ہیں۔یہ القاب جوگیشوری کو اس کی گھنی مسلم آبادی کے لئے دیاجاتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہاں پر تمام مذاہب کے باشندے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہتے ہیں،ویسے تو جوگیشوری میں تمام ہی مذاہب اور عقیدہ کے لوگ پائے جاتے ہیں لیکن اگر ہم کچھ دیر کے لئے جوگیشوری کو الگ الگ محلوں میں تقسیم کردیں تو جوگیشوری مغرب کا اکثر علاقہ مسلمانوں سے آبادنظر آتا ہے، جسمیں ریلوے اسٹیشن کے قریب میں واقع مومن نگر کالونی، ایس۔وی۔روڈ ،بس اڈے کے قریب میں واقع میمن کالونی، سہاکار روڈ،کیپٹن ساونت روڈ کا کچھ حصہ،بندے والی ہل روڈ،گلشن نگر،راج نگر، ویشالی نگر،امرت نگر،بہرام باغ روڈ،قریشی کمپاؤنڈ، اقصیٰ مسجد روڈ وغیرہ۔ یہ علاقے مسلمانوں کی گھنی آبادی والے علاقے ہیں۔ ان کے علاوہ جوگیشوری بس اڈہ کے سامنے بسی ملکم باغ کالونی، بہرام باغ پارسی کالونی میں صرف پارسی مذہب کے ماننے والے بستے ہیں۔ اگر ہم بات کریں ہمارے ہندو بھائیوں کی تو سہاکار روڈ ، رام مندر روڈ اور اگر وال اسٹیٹ کے کچھ حصہ کے علاوہ یادو نگر، آنند نگر،پرتکشا نگر،آدرش نگر وغیرہ علاقوں میںان کی خاصی تعداد پائی جاتی ہے ۔ان کے علاوہ عیسائی مذہب کے ماننے والے میمن کالونی کے بغل میں ایک جھوٹی سی بستی میں کچھ تھوڑے بہت اور کچھ خاندان بہرام باغ اور گلشن نگر کے درمیان میںایک چھوٹے سے محلہ میں بستے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ سہاکار روڈ پر ہی دوتین عمارتیںجین سماج نے بھی بسا رکھی ہیں۔
یہ تو رہی جوگیشوری مغرب کی اکثریت، اب ہم رخ کرتے ہیں جوگیشوری مشرق کا، تو یہاں آبادی کچھ اس طرح سے ہے کہ جوگیشوری مشرق میں ریلوے اسٹیشن کے قریب روڈ نمبر ۵اور سبزی منڈی سے لیکر ویسٹرن ایکسپریس ہائیوے تک اکثریت ہندومذہب کے ماننے والوں کی بستی ہے جس میں معمولی سا حصہ جین سماج کا بھی ہے۔ اس کے علاوہ مجاس بس اڈے اور میگھواڑی میں گھنی آبادی ہمارے ہندو بھائیوں کی ہے۔ اسی کے قریب میں واقع رام گڑھ اور مارکیٹ نامی علاقے ، پریم نگر،اور عید گاہ میدان مسلمانوں کی گھنی آبادی والے علاقے ہیں،واضح رہے کہ جوگیشوری میں ان تمام مذاہب کے علاوہ اور دیگر کسی مذہب کے لوگ جیسے بدھ، سکھ نہیں پائے جاتے ہیں ،انہیں کے ساتھ ساتھ ناستک بھی نہ کے برا بر ہیں،یوں تو ان تمام علاقوں کی کل آبادی اورالگ الگ مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد معلوم کرنا بہت ہی مشکل کام ہے لیکن علاقہ کی میونسپل وارڈ آفس کے مطابق جوگیشوری کے مشرق و مغرب کی کل آبادی ۲لاکھ کے قریب ہے جسمیںمسلمانوں کی کل آبادی ۵۰فیصد، ہندوؤں کی ۳۵ فیصد،جین ۵فیصد، پارسیوںکی ۵ فیصد اورعیسائیوں کی کل آبادی۵ فیصد ہے۔ اب اگر غور اس بات پر کہ کونسے سماج کا کیا کاروبار ہے تو ہم یہ گفتگو چائے سے شروع کرتے ہیں۔ چائے سے میری مراد چائے کے کاروبار سے جڑے ناگوری برادری سے ہے۔ جی ہاں! آپ نے بالکل صحیح اندازہ لگایا، یہاں پر چائے کی اکثر دکانیں ہمیں ناگوریوں کے ذریعہ ہی چلتی نظر آتی ہیں۔ اس میں کوئی بعید نہیںکہ اس پیشہ سے جڑے کچھ گجرات کے مارواڑی بھٹ برادری کے لوگ بھی ہیں اور دھیان رہے کہ مارواڑیوں کے جوگیشوری میں اس کہ علاوہ اور بھی کاروبار ہیں، جس میں ان کی خاصی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے جیسے بھنگار یعنی کباڑی کا کاروبار اور سناریعنی جواہرات کا کاروبار جبکہ تھوڑی بہت تعداد جنرل اسٹور اور برتن وغیرہ کی دکان کے ذریعہ اپنا روزگار چلاتی ہے، ویسے ناگوری کی قریبی برادری جنہیں راجستھانی کے نام سے یہاں کے لوگ جانتے ہیں کی ایک بڑی تعداد سول کانٹریکٹریعنی تعمیراتی کام کے ٹھیکیدار بھی ہیں۔
ناگوری برادری کا ایک اور کاروبار ہے جو کہ جوگیشوری کی دودھ کی ضرورت کو پورا کرتا ہے میرا مطلب اس برادری میں جو خاندان پیسے والے ہیں ان کا اصل کاروبارطبیلہ چلانا ہےطبیلہ سے یہ لوگ دودھ، پنیر،دیسی گھی، ماوا اور لسی وغیرہ فروخت کرتے ہیں ایساہی کچھ معاملہ یہاں کے چلیا برادری میں بھی ہے۔ یہ حضرات بھی طبیلے سے وابستہ ہیں لیکن ان میں طبیلہ انہیں خاندان کے پاس ہے جوکہ جوگیشوری کے پیسے والے چلیا کہلاتے ہیں اور اس خاندان کی خاص بات یہ ہے کہ ان میںخاندان کے ایک ایک فرد کے نام پر کئی کئی بھینسیں ہوا کرتی ہیں، انہیں میں ایک اور کاروبار پایا جاتا ہے جو کہ ہوٹل وغیرہ کا کاروبار ہے یعنی ان میں کچھ پیسے والے خاندان ہوٹل اور سرائے مالکان ہیں اور بہت سے تو ایسے بھی چلیا حضرات جوگیشوری میں موجود ہیں جنکے پاس ہوٹل اور طبیلہ دونوں ہی موجود ہے۔ جو چلیا حضرات بہت پیسے والے نہیں ہیں وہ اپنی روزی روٹی ایک چھوٹی سی پان کی دکان یا پھر ٹیکسی چلاکر پوری کرتے ہیں، چلیا اصل میں گجرات کے پالنپور،بھلوڑ، دمن، سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو کہا جاتا ہے اور ان کی عام بول چال میں چ اور ش کا استعمال بہت زیادہ پایا جاتا ہے اور کچھ چلیا حضرات کا تو سرنیم شیلیا ہے اسی لئے انکا نام چلیا پڑ گیا ہے،چلیوں میں اکثر ایک بات دیکھی جاتی ہے کہ ان کے کاروبار میں پارٹنر صرف چلیا ہی ہواکرتے ہیںیہ لوگ اور کسی دیگر برادری کے ساتھ کام کرنا گواراہ نہیں کرتے یا یوں کہا جائے کہ ان میں آپسی میل ملاؤ بہت زیادہ ہے لیکن اگر یہ برادری چلیا کہ علاوہ کسی کو اپنے کاروبار میں حصہ دار بناتی ہے تو وہ صرف شیعہ حضرات کو ہی ایسا موقع فراہم کرتے ہیں اسی وجہ سے جوگیشوری میں ایسی بہت سی ہوٹل ہیں جسمیں یہ دونو سماج کے لوگ برابر کے حصہ دار ہیں، کہا جاتا ہے کہ آج کے چلیا اصل میں کسی زمانہ میں خود بھی شیعہ ہوا کرتے تھے لیکن اب انہوں نے اپنا عقیدہ تبدیل کرلیا ہے ویسے اس بات کے کوئی پختہ ثبوت تو نہیں ملتے مگر ہاں ایک بات ضرورپائی جاتی ہے وہ یہ کہ چلیا گجرات کے جن علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں وہاں آج بھی اکثریت چلیا اور شیعہ حضرات کی ہی ہے انہیں سے قربت رکھنے والے کھوجہ برادری کے لوگ اکثر تعلیم یافتہ ہیں اور اسی وجہ سے یہ کسی ناکسی دفتر میں ملازمت یا پھر اپنے خود کی دکان لئے بیٹھے ہیں جس میں الگ الگ چیزوںکی دکانیں شامل ہیں ۔دوسری پیسہ والی برادری میمن برادری ہے۔ اس میں ان کا پیشہ وارانہ کاروبار ایکسپورٹ امپورٹ اور لکڑ ے کی بکھار ہے علاوہ اس کے یہ برادری کے لوگ جوگیشوری میں کپڑوں کے کاروبار اور موبائیل وغیرہ کی دکان مالکوں سے بھی جانے جاتے ہیں۔جوگیشوری میں اس برادری کے کچھ خاندان تعمیراتی کاروبار یعنی بلڈر لائن سے بھی جڑے ہوئے ہیں تو کچھ طبیلہ کے مالک ہیں، پٹیل برادری کے لوگ یوں تو اکثر لندن اور افریقہ وغیرہ میں کسی نا کسی کام سے لگے ہوئے ہیں اور جو کچھ خاندان اس سماج کے جوگیشوری میں ہی رہائش پذیر ہیں ان میں کچھ کا کاروبار چلیا، میمن اور ناگوریوں جیسا یعنی طبیلہ کے کاروبار سے ہی ہے تو کچھ یہاں بلڈر اور کچھ ٹیلر کی دکان چلاتے ہیں۔جوگیشوری کے مسلمانوں میں ایک بڑی تعداد کرناٹک سے تعلق رکھتی ہے جن میں اکثر خاندان مارکیٹ علاقہ میں سبزی ترکاری کی دکانیں اور جنرل اسٹور تو کچھ کرانہ اسٹور چلا رہے ہیں ، جوگیشوری کے کچھ مسلمان جو شمالی ہند سے تعلق رکھتے ہیں الگ الگ پیشہ سے جڑے ہوئے ہیںاوران میں جو تعلیم یافتہ ہیںوہ کہیں ملازمت کرتے ہیں اورجو تعلیم سے پرے ہیں وہ آئوٹو رکشہ چلا کر اپنے خاندان کو پالتے ہیں جبکہ بہت سے شمالی ہند کے باشندے محنت مزدوری کرکے اپنا گزر بسر کرتے ہیں جن میں مسلم اور ہندو دونو ہی شامل ہیں یہاں پر ایک آئوٹو رکشہ کئی خاندان کو روزی مہیا کرتا ہے وہ ایسے کہ رکشہ مالکان اپنے رکشے کو ۲۴ گھنٹوں میں سے تین حصوں میںتقسیم کرتے ہیں جسے الگ الگ تین رکشہ ڈرائیور اپنے اپنے مقررہ وقتوں میں چلاتے ہیں۔ ان میں مسلم اور غیر مسلم دونو شامل ہیں جن میںاکثر یت شمالی ہند ،کرناٹک اور دکن سے تعلق رکھتے ہیں، یہاں پر شمالی ہند کے ہندوباشندے بھی سبزی ترکاری کے کاروبار میں خود کو مصروف رکھتے ہیں جبکہ اترپردیش کے بجنو ر اور دہلی کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے بیکری لائن سے وابستہ ہیںجس میں نان اور پاؤ کا کاروبار قابلِ ذکر ہے۔
اب ہم بات کرتے ہیں ہندوؤں میں سب سے بڑی تعداد یعنی مراٹھیوں کی تو ان میں چھوٹے طبقہ کے لوگ اور غیر تعلیم یافتہ مراٹھی باشندے محنت مزدوری کرکے اپنا گھر چلاتے ہیں، تو کچھ ناشتے کے طور پر استعمال میں آنے والا یہاں کا روایتی پکوان وڑا پاؤ بنا کر بیچتے ہیں ۔واضح رہے کہ مہاراشٹرا میں وڑا پاؤ کافی اہمیت کا حامل ہے جو کم داموں میں تھکے ہارے ملازم اور غریب افراد کو بھوک پٹانے کے کام آتا ہے، اگر یوں کہا جائے تو کچھ مبالغہ نہ ہوگا کہ یہاں پر شمالی ہند کے ہندوئوں اور مسلم باشندوں کے ذریعہ حاصل کی گئی سبزی سے چٹنی بنتی ہے اور کچھ سبزی وڑاپاؤمیں ڈلتی ہے جیسے آلو اور ہرا دھنیا، اوبجنوری بھائیوں سے پاؤ حاصل کرکے ہمارے مراٹھی بھائی وڑا بناکراس پاؤ میں وڑا رکھ کر دیتے ہیں اور اس طرح ہندوستان کے الگ الگ علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کے ذریعہ کم داموں میں ایک بھوکے راہگیر اور شہری کا پیٹ بھرتا ہیں ۔ اس کے علاوہ مراٹھیوں میں جو حضرات کچھ پڑھے لکھے ہوئے ہیں وہ اپنی تعلیمی لیاقت اور مراٹھی زبان سے واقفیت کی بناء پر سرکاری ملازمت کر تے ہیں اور اس میں جو طبقہ دلت سماج سے تعلق رکھتاہے وہ یہاں بلدیہ کے صفائی ملازمین ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *