شمالی بہارمیں مسلمانوں کی مجموعی اقتصادی حالت:رپورٹ

فوٹو معیشت ڈاٹ اِن
فوٹو معیشت ڈاٹ اِن

محمد وجہ القمربرائے معیشت ڈاٹ اِن

ریاست بہار ہندوستان کی بڑی ریاستوں میں سے ایک ہے۔لیکن دوسری بڑی ریاستوں کے مقابلے بہار کی اقتصادی حالت دگر گوں ہے ۔خصوصاً شمالی بہار جس میں سیمانچل بھی شامل ہے، بہار کے جنوبی حصے سے زیادہ دردناک اور تشویشناک صورتحال سے دوچار ہے۔مجموعی طور سے بہار کی اقتصادی حالت بہت مضبوط نہیں کہی جا سکتی خصوصاً جھارکھنڈ کی تقسیم کے بعد، کیوں کہ بہار کے جنوبی حصے میں معدنیات اور کل کارخانے موجود تھے اور وہ سارے کے سارے جھارکھنڈ کے حصے میں چلے گئے۔ یہ تو مجموعی طور پر بہار کے اقتصادی حالت میں مزید ابتری کا سبب ہوئیں لیکن شمالی بہار کی اقتصادی حالت جو پہلے سے ہی ابتر تھی مزید دگر گوں ہو گئی۔ بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں پستی کا سبب ہوئی اور لوگوں نے ہجوم در ہجوم بڑے شہروں کا رخ کیا اور اپنی اقتصادی حالت کو مضبوط کرنے کے لئے کمر بستہ ہو گئے۔ پچھلے ایک دہائی سے حکومت نے ترقی کو رفتار دینے کا عزم کیا اور لوگوں کو کانٹریکٹ پر تعلیم، طب اور دیگر شعبہ جات میں نوکریاں دیں جس سے لوگوں کی معاشی حالت میں کچھ فیصد بہتری تو آئی لیکن محض ان چند شعبہ جات میں اونٹ کے منہ میں زیرا کی مانند نوکریاں بہر حال اقتصادی حالت میں بہتری کے لئے ناکافی ہیں ۔کیوں کہ جہاں معاش کا دارومدار نوے فیصد ی زراعت پر ہو وہاں ۳سے ۴ فیصد نوکریوں کی کیا بساط ہے۔

فوٹو معیشت ڈاٹ اِن
فوٹو معیشت ڈاٹ اِن

معاشی طور پر شمالی بہار کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے تقریباً نوے فیصد آبادی کا دارومدار زراعت پر ہے جو حکومتوں کی بے توجہی اور عدم وسائل نیز زراعتی لا علمی کی وجہ سے اتنی مفید ثابت نہیں ہوتیں جتنی کہ زمینوں کی زرخیزی سے عیاں ہو تا ہے ۔ موجودہ زمانے میں زیادہ تر وہ کسان جن کے پاس زمینیں ہیں وہ خود کھیتی نہیں کر تے بلکہ وہ ان کسانوں پر منحصر ہوتے ہیں جن کے پاس زمینیں نہیں ،لہذا زراعت پہلے ہی دو حصوںن میں تقسیم ہوجاتی ہے۔پھر یہ کہ انھیں زراعت کے وہ تمام وسائل جن سے زراعت میں دوگنی ترقی کی امید کی جاتی ہے وہ کسان ان تمام وسائل سے محروم ہوتے ہیں خواہ وہ بجلی ہو، پانی ہو، نہریں ہوں ،تالاب ہو، کھاد ہو یا بیج ہو۔ حکومت کی طرف سے کھاد یا بیج کا بر وقت مہیا نہ ہو نا بھی زراعت کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو تا ہے اور خاص طور پر کسانوں کو اس وقت ہاتھ ملنا پڑتا ہے جب بیج اور کھاد زیادہ قیمت ادا کر کے خریدنے کے بعد نقلی ثابت ہو جاتے ہیں اور کھیتوں میں صرف ہریالی نظر آتی ہے ۔وہ بالیاں یا پودے صرف گھاس ثابت ہوتے ہیں ۔ ان پودوں میں بالکل بھی دانہ کا نام و نشان نہیں ہوتا۔ معیشت ڈاٹ اِن کی تفتیش کے مطابق امسال کی گیہوں اور دلہن کی کھیتی اس کی تازہ مثال ہے۔زراعت میں ایک مسئلہ کیڑا مار دواؤں کا بھی ہے جن کا فقدان بہر صورت بہار کے ہر حصے میں ہے لیکن شمالی بہار کے کسانوں میں زراعت کے پیش نظر بیداری نہ پائی جانے کی وجہ سے انھیں کامیابی نہیں مل پاتی حالانکہ پوسا ایگریکلچر (PUSA AGRICULTURE ) جو شمالی بہار میں ہی واقع ہے بے سود ثابت ہو تا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ ادارہ بہار کے ہر حصے سے کسانوں کی نمائندگی کرتا ہے لیکن سب بے سود کیوں کہ ان کی طرف سے کسانوں میں بیداری یا تربیتی کیمپ کا نظم نہیں کیا جا تا اس وجہ سے بھی کسانوں کی کھیتی متاثر ہوتی ہے ۔

SEEMANCHALKE KHET

شمالی بہار نیپال کی سرحد سے نزدیک ہونے کی بنا پر ندیوں کا علاقہ بھی ہے۔ اس وجہ سے بھی شمالی بہار کا کثیر علاقہ سیلاب کی زد میں اکثر تباہ وبرباد ہو جاتا ہے اور حکومتیں سوائے دو چند مراعات کے کچھ نہیں کر پاتیں۔معیشت ڈاٹ اِن کو یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ بسا اوقات حکومتوں کی مراعات صر ف اعلانات تک ہی محدود ہوا کرتی ہیں۔ ان علاقوں میں اکثر سیلاب اور خشک سالی کا قحط زراعت کی تباہی کا سبب ہو تا ہے اسی بنا پر بڑا اور زرخیز علاقہ ہونے کے باوجود زراعت کی شرح میں اضافہ برائے نام ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔اگر کسی سال کسانوں کو زراعت میں کامیابی بھی ملتی ہے تو ان کسانوں کو غلہ کا صحیح معاوضہ نہیں مل پا تا بلکہ جو بڑے سرمایہ دار ہیں وہ اونے پونے ان کسانوں سے غلہ خرید لیتے ہیں اور خود چوگنی قیمت پر بازاروں میں فروخت کرتے ہیں ۔بعد میں بے چارے انھیں کسانوں کو جنھوں نے بڑی محنت و مشقت سے غلہ اگایا تھا مہنگے دام میں خرید نا پڑتا ہے۔زراعت میں سبزی فروشوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی محنتوں اور کاوشوں سے ہی سبزی وغیرہ کی اپج کر لیتے ہیں ورنہ انھیں حکومت کی طرف سے کوئی ٹریننگ یا سہولیات مہیا نہیں ہو پاتیں اسی وجہ سے جیسے تیسے بغیر کسی تکنیک کے سبزیاں اگا لیتے ہیں۔ حالانکہ پوسا ایگریکلچر حکومتی تعاون سے صوبائی سطح پر زراعت میں مناسب حصہ داری کر سکتا ہے اور ملک کی شرح نمو میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے لیکن ایسا ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
معیشت ڈاٹ اِن کی اطلاعات کے مطابق سیتا مڑھی، مظفر پور اور چمپارن میں دھان ،گیہوں اور دلہن کی کھیتی کے ساتھ ساتھ گنوں کی کھیتی پر بھی کسانوں کا بڑا زور ہو تا ہے اور خاصی مقدار میں گنا کی اپج ہوتی ہے لیکن چونکہ شمالی بہار میں ایک یا دو ہی چینی ملیں یا کل کارخانے ہو نے کی وجہ سے کسانوں کا دھیان اس طرف سے ہٹ رہا ہے اور وہ کسان دوسری کھیتی کی طرف دھیان دے رہے ہیں۔ دربھنگہ، مدھوبنی، سپول، سہرسہ، مدھے پورہ، ارریہ، کشن گنج، پورنیہ اور کٹیہار میں عمومی طور پر تین فصلیں ہی ہو پاتی ہیں جن میں دھان سیلاب کی نذر، گیہوں خشک سالی کی نذر اور دلہن کیڑے مکوڑوں کی نذر،مجموعی طور پر اگر کہا جائے تو شمالی بہار کی کھیتی خود یہاں کے باشندوں کے لئے ناکافی ہوتی ہیں لہذا 40 سے 50 فیصد کسان فصلوں کی بوائی اور کٹائی کے وقت پنجاب اور ہریانہ کا رخ کرتے ہیں جہاں سے وہ دو چار مہینوں میں بیس سے تیس ہزار روپے بچا کر لا پاتے ہیں جو خود ان کے لئے ناکافی ہوتا ہے۔اور وہ کسان جو یہاں رہ کر زراعت میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں وہ سالانہ دس سے بارہ ہزار ہی کما پاتے ہیں جو کسی بھی خاندان یا فرد کے لئے ناکافی ہے۔
معیشت ڈاٹ اِ ن کی اطلاعات کے مطابق سیمانچل میں زراعت کا ایک حصہ جوٹ کی کھیتی بھی رہی ہے لیکن حکومتی سطح پر کسانوں کو مراعات نہ ملنے اور صحیح معاوضہ نہ ملنے نیز کل کارخانوں کی عدم موجودگی انھیں جوٹ کی کھیتی سے منحرف کر رہی ہے اور اب وہ چائے کی کھیتی کی طرف اپنی قسمت آزمائی کر رہے ہیں لیکن اس میں بھی بڑے سرمایہ داروں کا قبضہ ہے اور چھوٹے کسانوں کو اپنی زمینیں اور چائے کے کھیت سستے داموں میں فروخت کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ اس علاقے میں حکومتی سطح پر کئی کارخانے بھی قائم ہوئے لیکن بد قسمتی یہ کہ کبھی کھل نہیں سکے۔اسی بنا پر کسانوں کو اپنے کھیت ارزاں قیمت پر اور پیداوار کی لاگت سے بھی کم قیمت پر فروخت کرناپڑ رہا ہے۔ سیمانچل بلکہ شمالی بہار میں کسانوں کے ساتھ اس مسلسل نا انصافیوں اور ترقی کے منصوبوں سے محروم رکھنے کی نا پاک سازش کی بنا پر وہاں کی فی کس آبادی دوسرے اضلاع بلکہ جنوبی بہار کے مقابلے میں پانچ تا آٹھ گنا کم ہو کر رہ گئی ہے جو شمالی بہار خصوصاً سیمانچل کی اقتصادی حالت کی دردناک اور تشویشناک صورتحال کو عیاں کر رہی ہے۔سیمانچل سے متعلق مذکورہ باتیں جناب اخترالایمان سابق ایم ۔ایل ۔اے کوچا دھامن نے اپنی کتاب ’’سیمانچل کی کہانی سرکاری آنکڑوں کی زبانی‘‘ میں واضح طور پر قلم بند کی ہے۔ اور اگر ہم نظر اٹھا کر دیکھیں تو حقیقت حال واضح ہو جائے گی۔
زراعت کی ایک قسم باغبانی کی بھی ہے لہذا شمالی بہار میں باغبانی کا رواج بھی ہے لیکن معیشت ڈاٹ اِ ن کی تفتیش کے مطابق اس میں بھی کسانوں کو صحیح معاوضہ اور حکومتی تعاون کی معدومیت انھیں بہتر کسان بننے سے روکتی ہے جیسے مظفر پور کی شاہی لیچی، حاجی پور کا کیلا اور مالدہ آم بہت مشہور اور قابل اعتماد ذائقہ والے ہیں لیکن ان کسانوں کو صحیح رہنمائی اور حکومتی مراعات نہیں ملنے کی وجہ سے بہتر طور پر کاشتکاری سے محروم نظر آتے ہیں ۔ امسال بھی مظفر پور کی لیچی اپنے شاہی انداز میں بازاروں میں فروخت نہ ہو سکی جس کی وجہ صرف یہی تھی کہ ہر پھل میں کیڑے کے ہونے کا خدشہ کسانوں کو کھائے جا رہا تھا لہذا وقت سے پہلے پہلے چھوٹی چھوٹی اور کچی لیچیاں بازار میں فروخت ہو تی رہیں جس سے کسانوں کو ان کی لاگت کا بھر پور معاوضہ بھی نہ مل سکا۔ مزید یہ کہ لیچی کی کھیتیوں میں زیادہ تر غیر مسلم کسانوں کی موجودگی بھی ہے ۔لہذا مسلم کسانوں کی اقتصادی حالت زراعت میں بھی ابتر ہے ۔ شمالی بہار کے کسانوں کی حالت اگر کچھ بہتر کی جا سکتی ہے تو وہ حکومت کی توجہ اور بر وقت اصلی کھاد اور بیج کی فراہمی کے ذریعہ ہی ممکن ہے ساتھ ساتھ انھیں زراعت کی بنیادی تکنیک اور زراعت پر مبنی تربیتی پروگرام کے ذریعہ ان میں بیداری پیدا کر کے ہی ارتقائی مرحلہ طے کیا جا سکتا ہے کیوں کہ صنعت سے محروم زراعت پر منحصر اس علاقہ کے کسانوں کے ساتھ جو بے انصافی حکومتیں روا رکھتی ہیں اس سے اقتصادی حالت دگر گوں ہوتی جا تی ہے۔ بڑھتی آبادی اور نوکریوں نیز کل کارخانوں کی کمی بے روزگاری کا باعث ہے جو شمالی بہار کے اقتصادی حالت کو دن بہ دن کمزور کرتی چلی جاتی ہے۔شمالی بہار کی ۲ سے ۳ فیصد مسلم آبادی خودکار تجارت بھی کرتی ہے جو صرف ’ہاتھ سے منہ تک‘ والے محاورے کے مصداق ہے۔ ان تجارت پیشہ لوگوں میں کچھ جانوروں کی تجارت کرتے ہیں، کچھ کرانہ کی دکان، کچھ آٹا چکی اور کچھ کپڑوں کی تجارت کرتے ہیں۔ ان تجارت پیشہ لوگوں کا بھی حال کسانوں سے علیحدہ نہیں ہے بلکہ سوائے دو چند کے، بقیہ سبھی لوگوں کی تجارت روز مرہ کی زندگی کو جینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
شمالی بہار میں دہائیوں پہلے جو کل کارخانے کسانوں کی ترقی کے لئے اور علاقے کی خوشحالی کے لئے قائم ہوئے تھے معیشت ڈاٹ اِن کی تفتیش کے مطابق وہ بھی قریب ڈیڑھ دو دہائیوں سے بند پڑے ہیں اور چینی ملوں اور چوڑا ملوں کو بھی نئی حکومت نے بھی نظر انداز کیا ہوا ہے اسی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بظاہر سرکاری رکاوٹیں تو نظر نہیں آتیں لیکن بباطن ان علاقوں کے لئے حکومت کی عدم ترقی کی پالیسی تاجروں کے لئے دیمک کا کام کر رہی ہے۔ مدھو بنی پینٹنگ اور کھادی بھنڈار متھلانچل کے لئے دو ایسی سر خرو تجارت تھیں جس نے اس علاقہ کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرایا تھالیکن حکومت کی بے توجہی اور عدم دلچسپی نے ان دونوں تجارتی پیشہ کو بھی زمیں بوس کر دیا ہے۔ ضلع چمپارن کا مشہور بلاک ڈھاکہ جہاں ململ کا کاروبار بہت مشہور تھا وہ بھی حکومت کی سازش کاشکار ہو گیا اور وہاں سوائے کپڑوں کی تجارت کے ململ پیدا کرنا لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ کسی بھی صنعت کو ترقی دینے کے لئے حکومتی سطح پر تعاون کی ضرورت ہوتی ہے لیکن حکومتوں کی طرف سے زراعت، تجارت، نوکری کسی بھی شعبہ میں مثبت قدم اٹھتا نہیں دکھتا کیوں کہ صرف بکری اور گائے ، مرغا مرغی کی تجارت بھی کرنے کی کوشش اس وقت ناکام ثابت ہوتی ہے جب حکومت کی پالیسی کسانوں کے مخالف ہوتی ہے۔
اقتصادی مضبوطی میں نوکری پیشہ طبقہ بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے جو شمالی بہار میں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق ہے۔ پچھلے ایک دہائی سے جو کانٹریکٹ سطح کی اسامیوں پر بحالیاں ہوئیں ہیں ان میں زیادہ تر تعلیمی اور طبی میدان میں ہوئی ہیں لیکن ان لوگوں کی حالت بھی دو چند ہے کیوں کہ کانٹریکٹ پر بحال اساتذہ اور طبیب کو وقت پر تنخواہ دینا حکومت کے لئے چیلنج ہے اسی وجہ سے ماہانہ تنخواہ کی ادائیگی بھی پانچ، سات اور آٹھ دس مہینوں بعد ہی میسر ہو پاتی ہے لہذا وہ نوکری پیشہ لوگ اپنی اقتصادی حالت کو مزید بہتر نہیں کر پاتے اور مفلوک الحالی کی زندگی گزارتے ہیں۔ مزید یہ کہ جنہیں پوری تنخواہ اور سہولیات حکومت کی طرف سے مہیا کرائی جاتی ہیں وہ بھی بہت کم ہیں اور انھیں بھی اپنی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لئے شمالی بہار میں حکومتی سطح پر کوئی انڈسٹری یا تجارتی منڈی نہیں جس سے وہ اپنی معاشی حالت کو بہتر بنا سکیں یا صحیح تصرف کر سکیں ۔
سماج کی تشکیل ہو یا اقتصادی مضبوطی کا سوال عورتوں کو بہر حال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لہذا اقتصادی حالت کی بہتری اور ابتری میں ان کا بھی تذکرہ ضروری ہو جا تا ہے ۔معیشت ڈاٹ اِن کی اطلاعات کے مطابق زیادہ تر مسلم عورتیں گھریلو کام کاج میں ہی لگی رہتی ہیں ان کے علاوہ کچھ نوکری پیشہ ہیں اور کچھ خود کار تجارت سے اپنی روزی روٹی کا انتظام کر لیتی ہیں ۔ سبزی فروشوں کی خواتین سبزی کی کھیتی میں اپنے خاوندوں کا ہاتھ بنٹاتی ہیں اور جو نوکری پیشہ ہیں ان میں زیادہ تر تعلیمی میدان میں معلم کے فرائض انجام دیتی ہیں۔ ان کے علاوہ جو تجارت کرتی ہیں ان میں سلائی کڑھائی اور بنائی کا رواج ہے جو صرف اور صرف حکومت کی بے توجہی اور مراعات کی عدم موجودگی کے باعث گھروں تک محدود رہ جاتی ہیں۔
شمالی بہار کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بیرون صوبہ بڑے شہروں میں کارخانوں کا رخ کرتے ہیں جن میں زیادہ تر بیگ، پرس اور زری کے کارخانے شامل ہیں۔ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ صرف انھیں کاموں میں زیادہ تر اپنے بچوں کو تعلیم سے مبرا اپنی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لئے کاروبار سیکھنے کے لئے بھیج دیاکرتے ہیں جہاں سے وہ تمام بیگ بنانے کا ہنر اور کپڑوں کی ڈیزائننگ کا ہنر سیکھ کر تو آتے ہیں مگر تعلیمی لیاقت کی کمی ان کی تجارت کو ارتقائی منزلوں تک پہنچانے سے گریزاں ہوتی ہیں۔وہ سیٹھ تو کہلا تے ہیں لیکن بڑے تاجر ( BUISSNESS MAN) نہیں کہے جا سکتے۔
مجموعی طور پر مسلمانوں کی اقتصادی حالت شمالی بہار میں دیگر ضلعوں یا صوبوں سے الگ نہیں کیوں کہ مسلمان ملک کے جس حصے میں بھی ہیں اگر تعلیم سے محروم ہیں تو تجارت کے میدان میں بھی بہت آگے نہیں ہیں۔ شمالی بہار اور سیمانچل کے مسلمان مزدوروں کی حیثیت رکھتے ہیں اور اقتصادیات کے ہر پہلو سے انھیں دگر گوں رکھا جا تا ہے اسی وجہ سے انھیں اپنے معاشی حالت کی بہتری کے لئے تعلیم کا سہارا لینا پڑے گا ورنہ وہ ہمیشہ معاشی کج روی کا شکار رہیں گے۔

محمد وجہ القمر ،مدھے پور ٹیچرس ٹریننگ کالج،مدھوبنی ،بہار میں نائب صدر مدرس کی خدمات انجام دے رہے جبکہ وہ معیشت ڈاٹ اِن کے نمائندہ بھی ہیں 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *