ممبئی کا مدنپورہ :غریب مسلمانوں کے چھوٹے کاروبار کا مرکز

مدنپورہ میں ایک بیگ کارخانہ جہاں کاریگر بیگ تیار کرتے ہوئے(فوٹو:معیشت)
مدنپورہ میں ایک بیگ کارخانہ جہاں کاریگر بیگ تیار کرتے ہوئے(فوٹو:معیشت)

نہال صغیر،ممبئی
ممبئی : (معیشت نیوز ) ہندوستان میں چھوٹے کاروبار اور مختلف نوعیت کی کاریگری جسے موجودہ د دور میں ڈیزائننگ کہتے ہیں یہ ہنر مسلمانوں کے لئے ہندوستان میں روزگار کا واحد ذریعہ رہ گیا ہے۔چونکہ مسلمان اپنے ہنر کی وجہ سے ہی مارکیٹ میں موجود ہیں اسلئے لوگ انہیں اسی وجہ سے یاد بھی کرتے ہیں ۔ ممبئی کا مسلم اکثریتی علاقہ مدنپورہ نئے نئے ہنر کا مرکز ہے ۔یہاں آپ کو ہر طرح کے بیگ بناتے ہوئے چھوٹے اور بڑے کارخانے دار اور ان میں کام کرنے والے کاریگر مل جائیں گے ۔بیگ والوں میں سے اکثریت شمالی بہار کے لوگوں کی ہے جو روز گار اور بہتر مستقبل کی تعمیر کے لئے مختلف شہروں کا رخ کرتے ہیں لیکن ممبئی ان کی پسندیدہ جگہ ہے ۔ ہم نے اس سلسلے میں اس پیشہ سے منسلک کارخانہ دار،کاریگر اور مزدور سمیت کاروبار سے جڑے تاجروں سے گفتگو کرکے کاروبار کی نوعیت اس کے باز ارمیں درپیش مشکلات اور حل سے متعلق تدابیرجاننے کی کوشش کی نیز یہ کہ اس میں مسلمانوں کی کیا پوزیشن ہے ۔

ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے چھوٹا کاروبار،روزگار کا واحد سہارا (فوٹو:معیشت)
ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے چھوٹا کاروبار،روزگار کا واحد سہارا (فوٹو:معیشت)

محمد عالم جو کہ موتیہاری سے تعلق رکھتے ہیں معیشت ڈاٹ اِن سے بتاتے ہیں کہ سات سال قبل وہ بہار سے ممبئی آئے اور انہوں نے ایک چھوٹا سابیگ کا کارخانہ شروع کیا ۔ یہ پوچھنے پر کہ بیگ کا ہی کام کیوں ؟جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ’’ ایک تو وہ یہ کام جانتے تھے اور دوسرے کم پونجی میں اسے شروع کیا جاسکتا تھا‘‘ واضح رہے کہ آج ان کے کارخانہ میں سات آٹھ لوگ ہیں ۔لیکن مشکلات کے بارے میں کہتے ہیں کہ’’ صرف اخراجات کسی طور پورا ہوتا ہے ۔اس کام میں کچھ پس انداز ہونا مشکل ہے ‘‘۔وجہ بتاتے ہیں کہ’’ درمیان کے لوگوں کو مال بنا کر دیتے ہیں جس سے منافع انتہائی کم ہوتا ہے جس سے روز مرہ کی ضروریات پورا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا جاسکتا‘‘ ۔

 مینو فیکچرنگ میں مسلمان ۹۰(نوے) فیصدی ،ریٹیل میں ۱۰(دس) فیصدی اور تھوک میں زیادہ سے زیادہ ۵(پانچ) فیصدی ہیں۔
مینو فیکچرنگ میں مسلمان ۹۰(نوے) فیصدی ،ریٹیل میں ۱۰(دس) فیصدی اور تھوک میں زیادہ سے زیادہ ۵(پانچ) فیصدی ہیں۔

محمد فراز بارہ سال کی عمر میں ۱۹۹۵ میں ممبئی آئے تھے اور بیگ کے کارخانے میں مزدوری کی، کئی برس کے بعد جب انہوں نے بیگ کا کام سیکھ لیا تو اپنے تین بھائیوں کے ساتھ ۲۰۰۸ میں بیگ کا کارخانہ شروع کیا آج چھ مشینوں کے ساتھ مارکیٹ کی اچھی حالت میں ہفتہ میں ہزار پیس بیگ تیار کرتے ہیں لیکن ابھی مندی کے دور میں کام کی رفتارکافی سست ہے‘‘ ۔یہ پوچھنے پر کہ کیا یہ مندی بین الاقوامی مندی کی وجہ سے ہے یہ علاقائی موسمی اثر ہے ان کا کہنا ہے کہ’’ نہیں یہ بین الاقوامی مندی کا اثرہے‘‘۔
محمد مشتاق جو کہ دھاراوی میں رہتے ہیں خود سے ہی لیڈیز والیٹ تیار کرتے ہیں اور ہول سیلروں کو سپلائی کرتے ہیں ۔ہم نے ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ موجودہ حالات میں اس کاروبار کی حالت کیا ہے کیا عالمی مندی کا اس کاروبار پر بھی اثر ہے ۔وہ معیشت ڈاٹ اِن سےکہتے ہیں کہ’’ بالکل ہر کاروبار کی طرح یہاں بھی مندی کا دور ہے لیکن اب سے پہلے ایسی مندی کبھی نہیں آئی تھی‘‘۔انہوں نے بتایا کہ’’ دھاراوی ٹرانزٹ کیمپ میں کبھی روم ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا لیکن آج حالت یہ ہے کہ انہیں کرایے پر لینے والے دستیاب نہیں ہیں‘‘ ۔موجودہ مندی کے لئے وہ موجودہ حکومت کو ہی ذمہ دار مانتے ہیں ۔بیگ ریگزین کا کاروبار کرنے والے ایک تاجر نے بھی ان کے اس بات کی تائید کی کہ’’ جب سے نئی حکومت آئی ہے تب سے کچھ زیادہ ہی کاروبار میں سست روی ہے‘‘ ۔
بیگ کے کاروبار میں مسلمانوں کی پوزیشن
دیگر کاروبار کی طرح بیگ کے کاروبار میں بھی مسلمانوں کی پوزیشن بہتر نہیں ہے ۔نچلی سطح پر کاریگر ی اور چھوٹے کارخانے میں تو بہار اور بنگال کے مسلم تارکین وطن ہیں لیکن ریٹیل اور تھوک کاروبار یا ایکسپورٹ میں ان کی موجودگی نا کے برابر ہے ایک اندازے کے مطابق مینو فیکچرنگ میں مسلمان ۹۰(نوے) فیصدی ،ریٹیل میں ۱۰(دس) فیصدی اور تھوک میں زیادہ سے زیادہ ۵(پانچ) فیصدی ہیں۔
مشکلات
انتہائی قلیل رقم سے یا بعض اوقات صرف سرمایہ دار کے میٹیریل سے بیگ تیار کرنے والے یہ لوگ انتہائی قلیل منافع میں کام کرنے کی وجہ سے سستے مزدور کی مجبوری انہیں بچوں سے کام لینے پر مجبور کرتا ہے جو کہ غیر قانونی ہے لیکن چونکہ یہ لوگ مسلمان ہیں اور ان پڑھ بھی، اس لئے وہ تعصب کا شکار بھی ہیں ۔بچہ پکڑے جانے پر ان پر پولس تعزیرات ہند کی دفعہ ۳۷۰ لگاتی ہے جو کہ بندھوا مزدوری کے تعلق ہے جس کا بچہ مزدوری پر اطلاق ظالمانہ اور غیر منصفانہ ہے ۔لیکن ان پڑھ ہونے کی کی وجہ سے وہ اس کی جانکاری نہیں رکھتے اور پولس اور مقامی سیاسی مافیا اس بہانے ان کا استحصال کرتے ہیں ۔حالیہ دنوں میں ایسے کئی معاملات سامنے آئے ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *