Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

معذوری جسمانی نہیں بلکہ ذہنی عارضے کا نام ہے

by | Sep 20, 2015

پینٹنگ

ندیم صدیقی،ممبئی
ہمارےہمارے علاقوں میںآپ مساجد کے آس پاس،درگاہوں کے اِردگرد اور ریلوے اِسٹیشن کے اطراف مانگنے والوں کو ایک تواتر سے دیکھتے ہیں بلکہ آپ اگر دردمند دل رکھتے ہیں تو یقینا حسب ِتوفیق کچھ نہ کچھ دے بھی دیتے ہو ںگے۔
دینِ فطرت میں ’مانگنا‘ ایک معیوب عمل سمجھا گیا ہے۔ مگرسوئے اِتفاق ہے کہ بظاہر اسی دین کے ماننے والوں میں ” مانگنے والے“ کثرت سے ملتے ہیں۔ دوسری قوموں میں ایسی مثال ِبد شاذ ونادر یا خال خال ہی نظر آتی ہے یاد آیا کہ ہمیں توابتک کوئی سِکھ بھیک مانگتے نظر نہیںآیا۔ ہم کئی بار دہلی اور پنجاب کے بعض شہروں میںگئے ہیں وہاں کے کئی گردواروں کے باہر کے مناظر آج بھی آنکھوں میں منظر بنے ہوئے ہیں۔ بالخصوص لال قلعے کی طرف سے چاندنی چوک کو جو راستہ جاتا ہے اس پر ایک مشہور گردوارے کو بارہا ہم نے بغور دیکھا ہے ایک سے ایک متمول سِکھ کار سے اپنا شیش(سَر) جھکائے اُترتے ہیں ،گردوارے کے صدر دروازے کے اِرد گرد اگر کسی طرح کا کوئی کچرا یا کوئی ایسی چیز جو گندگی کا سبب بن سکتی ہے۔ انہی سکھوں کو اپنے ہاتھوں سے ایک ایک کر کے اٹھاتے اور ہٹاتے دیکھا ہے۔ لیکن کسی فقیر کو وہاں کبھی نہیں دیکھا۔
یقیناًمانگنے والوں میں بہت سے معذور بھی ملتے ہیں، بظاہر ان کے مانگنے کا سبب واضح ہوتا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ معذور ہماری ہی قوم میں( اورکثرت سے) کیوں پائے جاتے ہیں۔؟
اسی ہفتے ہماری نگاہ سے دو ایسے معذور وں کی خبریں بھی گزری ہیں جو ہم جیسے صحت مند ’ معذوروں‘ کیلئے ایک سبق بن گئی ہیں۔ یہ دونوں اشخاص کسی حادثے یا کسی آفت کے شکار ہونے سے معذور نہیں ہوئے بلکہ ان کی معذوری ایک طرح سے فطری ہی کہی جائے گی۔ شکرِ ربی کہ یہ دونوں اپنے حوصلے اور ہمت سے ہر گز معذور نہیں۔ بلکہ اُنہوں نے اپنی ہمت اور اپنے حوصلے سے ’ معذوروں‘ کو ایک پیغام دِیا ہے کہ معذوری جسمانی نہیں بلکہ ذہنی عارضے کا نام ہے۔ بظاہر معذور مگر ہمت و حوصلے سے بھر پور ایک کردار کا نام ہے ’ فرزانہ سلیمان‘ یہ خاتون بصارت سے محروم ہیں مگر اللہ نے انھیں بصیرت جیسے وصف سے مالامال کر رکھا ہے۔ فرزانہ سلیمان کو گزشتہ دنوں پاکستان کا ایک ممتاز ایوارڈ بنام ” ’تمغہ حسن ِکارکردگی“ بھی تفویض کیا گیا۔ اس ایوارڈ کے ملنے میں ان کی بے بصارتی سبب نہیں بنی، بلکہ ان کی علمی و تدریسی خدمات کو دخل ہے۔ ان کا اِجمالی تعارف یوں ہے:
فرزانہ سلیمان فلسفے اور اسلامک اسٹڈیز میں ڈبل ایم اے اورپی ایچ ڈی ہیں۔ بینائی سے محروم یہ خاتون گزشتہ بیس برسوں سے کراچی کے ’ پی ای سی ایچ ایس کالج‘ میں اسلامک اسٹیڈیز کی لکچرر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق فرزانہ جب آٹھویں جماعت کی طالبہ تھیں تو اُنھیں میعادی بخار(ٹائیفائیڈ) ہوا جس کی شدت نے ا ن کی بینائی نگل لی۔
وہ کہتی ہیں کہ شروع شروع میں انھیں اس کا شدید احساس تھا کہ ان کیلئے کون اتنا وقت نکالے گا اور وہ کیسے اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھ سکیں گی۔ مگر فرزانہ ہی نے بتایا کہ مشکلوں کے باوجود میرے گھر والوں ، میرے دوست واحباب اور میرے اساتذہ و معلمات نے میری مشکلات کو جس طرح سے آسان کیا وہ میں زندگی بھر فراموش نہیں کر سکتی۔
دوسری خبر یہ ہے کہ لندن کے ٹام نامی پچاس سالہ ایک شخص جو اپنے دونوں بازووں سے محروم ہے مگراس کے باوجود بہترین فن پارے تیار کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ پیدائشی طور پر دونوں بازوو ں سے محرومی کے باوجود یہ باہمت شخص اِنتہائی ماہرانہ انداز میں پیر وں کی انگلیوں کو استعمال کرتے ہوئے منہ میں پینٹنگ برش دبا کر کینوس پرانتہائی باریکی سے ایسے فن پارے بنا دیتا ہے کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ایسی مثالیںآج ہی ہمارے سامنےآئی ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں نجانے کتنے ایسے باہمت اور حوصلہ مند لوگوں کے واقعات درج ہیں۔
بات وہی ہے کہ جسمانی معذوری کے چیلنج کو لوگ کس طرح سے قبول کرتے ہیں اور پھر انہی میں باہمت و حوصلہ مند انسان کس کس طرح کی مثال قائم کر جاتے ہیں اور ہم ہیں کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی عذر اور ایکسیوز کے سہارے زندہ رہنے کے حیلے بہانے بنا رہے ہیں۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ جب ہم میں ” غیرت“ تمام ہوجاتی ہے تو ہم کسی نہ کسی سطح پر کوئی عذر تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور وہ جو حضرت علی کرم اللہ وجہ نے کہا ہے کہ وہی دروازہ کھلے گا جہاںآپ نے دستک دِی ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے اندر کوئی نہ کوئی عذر مل ہی جاتا ہے۔ ذرا ہم آپ اپنے اندرون میں ٹٹولیں کہ ہمارے ہاں بھی کوئی منگتا تو نہیں چھپا ہواہے۔؟
اُردو کے دورِ جدید میں مشہور ناقد اور شاعر وزیرآغا (مرحوم)نے بڑے واضح انداز میں ہم جیسے انا کے شکار منگتوں کو متنبہ کیا ہے:
ترکِ طلب پَہ مت اِترا÷ اپنے اندر چھپے گدا سے ڈر

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...