’’میں قابلیت کے دم پر نہیں قبولیت کے جذبے سے کام کرتا ہوں‘‘

ایکنومک ٹائمس کی خبر پر مولانا آزاد نیشنل اوپن اردو یونیورسٹی کے چانسلر ظفر سریش والا کی وضاحت
نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
ممبئی:( معیشت نیوز)وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت مولانا آزاد نیشنل اوپن اردو یونیورسٹی کے چانسلر ظفر سریش والا کو ہمیشہ شاہ سرخیوں میں رکھتی ہے،حالیہ واقعہ ایکونومک ٹائمس کا ہے جس میں پی ٹی آئی خبر رساں ایجنسی کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ انہیں وائس چانسلر کا عہدہ چھ ناموں پر فوقیت رکھتے ہوئے دی گئی تھی۔ ان چھ ناموں میں، فلم اداکار امتابھ بچن،معروف صنعت کار عظیم پریم جی ، ،مشہور شاعر گلزار،سابق چیف جسٹس اے ایم احمدی،سابق چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
واضح رہے کہ خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو آرٹی آئی کے ذریعہ یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ چونکہ پالننگ کمیشن کی ممبرڈاکٹر سیدہ حمید کی چانسلرشپ کی میعاد ۱۰جولائی ۲۰۱۴ کو ختم ہورہی تھی لہذا یکم دسمبر۲۰۱۴کو ہی مذکورہ ناموں کی فہرست ہیومن ریسورز ڈیولپمنٹ منسٹری کو بھیج دی گئی تھی۔ لیکن وزارت نے ان تمام ناموں پرگجراتی تاجر ظفر سریش والا کو فوقیت دی تھی ۔
ظفر سریش والا مذکورہ خبر پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے معیشت ڈاٹ اِن سے کہتے ہیں’’یقیناً میں ’’ماہر تعلیم‘‘ نہیں ہوں لیکن میرے اندر’’ فکر تعلیم‘‘ ہے،یہی وجہ ہے کہ میں نے محض آٹھ ماہ کے اندر مولانا آزاد نیشنل اوپن اردو یونیورسٹی کے نام کو جو پہچان دلائی ہے اس سےپہلے کے چانسلر اس میں ناکام ثابت ہوئے ہیں ‘‘۔ظفر سریش والا سابقہ چانسلر ڈاکٹر سیدہ حمید سے سوال کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ڈاکٹر سیدہ حمید اسکالر پڑھی لکھی ہیں لیکن یہ بتائیں کہ انہوں نے یونیورسٹی کی ترقی کے لیے کیا اقدامات کئے ؟ المیہ تو یہ رہا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے لیے مختص فنڈ بھی مرکزی حکومت سے ریلیزکروانے میں ناکام رہتی تھیں حالانکہ وہ سونیا گاندھی کی خاص سمجھی جاتی تھیں۔لہذاگیارہویں پنج سالہ پلان کی بقایارقم ۱۰۵ کروڑ روپیہ میں سےستر کروڑ روپیہ بھی میں نے پاس کروایا ہے جبکہ حالیہ ۱۵ویں پنج سالہ پلان کے مطابق میں نے ۲۰۵کروڑ روپیہ یونیورسٹی کے حق میں ریلیز کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے‘‘۔ظفر یونیورسٹی کے ماحول ،تعلیم و تعلم کے نظام پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’جیسے ہی میں چانسلر بنا سب سے پہلا کام میں نے یہ کیا کہ وہاں پلیسمنٹ سیل قائم کیا،دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنی بڑی یونیورسٹی کے پاس پلیسمنٹ سیل ہی نہیں تھا جس کی وجہ سے بچے احساس کمتری کا شکار رہا کرتے تھے۔کوئی کمپنی ایم بی اے یا کامرس کے بچوں سے رابطہ نہیں کرتی تھی،لیکن میں نے ملک کی چھ بڑی کمپنیوں سے یونیورسٹی کا ایگریمنٹ کروایا تاکہ یہاں کے بچے بھی سر اٹھا کر اچھی کمپنیوں میں ملازمت کر سکیںدلچسپ بات تو یہ ہے کہ بمبئی اسٹاک ایکسچینج،نیشنل اسپاٹ ایکسچینج ،SEBIوغیرہ میں ہم ایم بی اے اور کامرس کے بچوں کا یک روزہ ورک شاپ رکھ رہے ہیں جس کی میزبانی بھی مذکورہ ادارے ہی کر رہی ہیں‘‘۔
ظفر سریش والا مختلف ریاستی حکومتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں’’میں نے جب سے تعلیم کی طاقت پروگرام کا آغاز کیا ہے اس کے بعد سے ہی مہاراشٹر،جھارکھنڈ،اتر پردیش،تلنگانہ کی حکومتوں نے یونیورسٹی کو جگہ مہیا کرایا ہے تاکہ مختلف کیمپس قائم کیا جا سکے۔اسی طرح میں طلبہ کے لئے ہاسٹل قائم کرنا چاہتا ہوں جبکہ حیدر آباد شہر میں حج ہائوس کا ایک فلور تلنگانہ حکومت نے دینے کا وعدہ کیا ہے،سیٹلائٹ کے ذریعہ ورچول کلاسیز کا آغاز نظام آباد سے کر رہا ہوں۔‘‘
یونیورسٹی کے داخلی ماحول کا تذکرہ کرتے ہوئے سریش والا کہتے ہیں ’’مجھ سے قبل طلبہ اپنے چانسلر کو نہیں جانتے تھے جبکہ میں ان کے لیے ہمیشہ موجود ہوتا ہوں اور بلا روک ٹوک طلبہ و اساتذہ ملاقات کر لیتے ہیں،اہم بات تو یہ ہے کہ مجھ سے پہلےکبھی کسی نے چانسلر کوجمعہ کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا لیکن میں کیمپس میںنہ صرف جمعہ کی نماز پڑھاتا ہوں بلکہ خطبہ بھی دیتا ہوں۔‘‘
مختلف ترقیاتی پروجیکٹ کے حوالے سے سریش والا کہتے ہیں’’میں تین سو کروڑ کا ڈیولپمنٹ پلانٹ لے کر آرہا ہوں جس کے ذریعہ ورلڈ کلاس اسکولس قائم کروں گا جبکہ اسلامک ڈیولپمنٹ بینک (جدہ)سے بھی ٹائی اپ کر رہا ہوں‘‘۔ظفر سریش والا مختلف سفر کے حوالے سے کہتے ہیں ’’میں یو نیورسٹی کا ایک روپیہ بھی اپنے سفری اخراجات پر خرچ نہیں کرتا کیونکہ بچپن میں ابو نے مجھے سمجھایا تھا کہ بیٹا اللہ تعالیٰ سے قابلیت نہیں قبولیت مانگنا ،میں چاہتا ہوں کہ جو کام میں کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ اسے قبول کر لے ،میں کتنا قابل ہوں بحث اس سے نہیں ہے بلکہ قوم و ملت کے لیے میں جو کررہا ہوں وہ قبول ہوجائےبحث اس پر ہے ورنہ قابل تو حضرت شیطان بھی تھا ‘‘۔