ممتاز میر
لیجئے اب مدھیہ پردیش کے نیمچ میں بھی بم دھماکہ ہو گیا ہے۔۲، اموات ہو چکی ہیں اور حسب روایت میڈیا اسے سلنڈر بلاسٹ ہی بتا رہا ہے۔ابھی چند دنوں پہلے مدھیہ پردیش ہی کے جھبوا ضلع کے پیٹلاود میںبھی دھماکے ہوئے تھے اور ۱۰۰ سے اوپر اموات کے باوجود میڈیا نے اسے سلنڈر بلاسٹ ہی بتایا تھا ۔بڑی مشکل سے میڈیا کو شرم آئی تھی ۔وہ بھی اسلئے کہ جو ہوا تھا اسے کور کرنا ممکن نہ تھا ۔میڈیا نے با دل نخواستہ اصلی کہانی سنانا شروع کی۔پھر جلد ہی اسے میڈیا سے غائب کر دیا گیا۔اب راجندر کسوا
جو کہ اس پورے Episode کا مین ہیرو ہے اور سنگھ پریوار کا قرابت دار بھی،کی گرفتاری کے لئے علاقے کے لوگ احتجاج کر رہے ہیں مگر معمولی معمولی باتوں پر مسلمانوں کی کھال کھینچنے والا میڈیا خاموش ہے۔بم سازی کے ان حقائق اورسادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر ،مقتول سنیل جوشی،رام چندر کلسانگرا وغیرہم کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ
شیو راج سنگھ چوہان کے زیر سایہ مدھیہ پردیش دہشت گردوں کی نر سری بن چکا ہے۔
جب جھبوا بلاسٹ کی خبریں آنا شروع ہوئیں تھیں تو ہمارے ذہن میں وطن عزیز میں ہونے والے اس قسم کے تمام بلاسٹ کی خبریں تازہ ہوگئی تھیں۔اس قسم کا پہلا بلاسٹ مہاراشٹر کے شہر ناندیڑ میں ہوا تھا ۔یہ دھماکہ ۶۔اپریل ۲۰۰۶ کی صبح سویرے محکمہء کاشت کے ایک ریٹائرڈ انجینئرلکشمن راج کونڈوار کے گھر پر ہواجو آر ایس ایس کا ورکر ہے۔اس دھماکے میں اس کا بیٹا نریش لکشمن راج کونڈوار اور اس کا دوست ہمازنشو وینکٹیش پانسے مارے گئے۔جبکہ دوسرے تین ،یوگیش روندر دیشپانڈے،ماروتی کیشو واگھ اورگروراج شدید زخمی ہوئے تھے۔رپورٹوں کے مطابق مذکورہ جگہ پر مذکورہ افراد بم سازی کا کام کرتے تھے۔میڈیا نے ابتداء میں اسے بھی پٹاخہ سازی کی فیکٹری قرار دیا تھا ۔(۲)پھر روزنامہ جن ستہ ہندی۳۰ جنوری ۲۰۰۷ کی یہ خبر ملاحظہ کیجئے:جلگاؤں( مہاراشٹر)معلوم ہوا ہے کہ پولس نے ایم آئی ڈی سی علاقے کے ایک رہائشی کامپلیکس سے دھماکہ خیز سامان ضبط کیا ہے۔سینئر پولس افسران کے مطابق سومیشور سومانی کے گھر پر چھاپے کے دوران پولس نے امونیم نائٹریٹ کے ۲۶ بیگ۵۰۰ ڈیٹونیٹر ،سینٹری فیوجیز وغیرہ برآمد کئے جو فروخت کے لئے رکھے گئے تھے۔(۳) کانپور شہر کے کلیان پورے علاقے میںواقع پرائمری ہیلتھ سنٹر کی بلڈنگ ۲۸،اکتوبر۲۰۰۸ کو ایک زبردست دھماکے کے ساتھ تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔دھماکے میں ۴ آدمی ہلاک ہوئے تھے۔کئی لوگ زندہ ہی عمارت کے ملبے میں دب کر رہ گئے تھے۔حسب روایت پولس نے یہاں بھی ابتدا میںدہشت گردی کے امکان سے انکار کیا۔(کیونکہ عمارت کا تعلق ہندؤں سے تھا )بصورت دیگر سکنڈوں میں ISI جیش محمد یا انڈین مجاہدین کے ماتھے مار دیا جاتا اور ان کے نام پر چند مسلمانوں کو جیلوں میں سڑا دیا جاتا۔پولس نے کہا کہ دھماکے کا سبب پٹاخے یا ایل پی جی سلنْڈر ہو سکتا ہے
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔میڈیا کا بڑا حصہ اسے خلاف قانون پٹاخہ سازی کی فیکٹری قرار دے رہا تھا۔جبکہ بعضوں نے بعد میں واضح کیا کہ یہ بم دھماکہ تھا۔اور اس کے باوجود اس وارڈ بوائے راجیش کو جس کے نام پر مذکورہ ہیلتھ سنٹر کا کوارٹر الاٹ کیا گیا تھاغیر استعمال شدہ بموں کے ساتھ پولس نے گرفتار کیااور اس نے
مبینہ طور پر اقرار بھی کیا کہ اس کے برادر نسبتی اس کے کوارٹر کو بم سازی کے لئے استعمال کر رہے تھے میڈیا نے بہت جلد اس واقعے کو بھلا دیا۔حالانکہ کچھ ہی دنوں پہلے
۴۔اکتوبر کو اسی کانپور شہر کے بزریا علاقے میںایک کم طاقت کا دھماکہ ہوا تھاجسمیں ۹ افراد زخمی ہوگئے تھے۔اس سلسلے میں پولس نے کمل ساہو نامی شخص کو گرفتار بھی کیا تھا
مگر پھر کیا ہوا کسی کو معلوم نہیں۔
کانپور میں ’’بم سازی کی فیکٹریوں ‘‘ میں سب سے خوفناک وہ دھماکہ تھا جو راجیو نگر کے ہوسٹل میںہوا۔یہ ایک بم دھماکہ تھا جس میں۲۴ اگست ۲۰۰۸کو بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے دو ورکروں کی اس وقت موت ہو گئی جب وہ بم بنا رہے تھے ۔دھماکہ اتنا زبردست تھا کہ اس کمرے کی چھت اڑ گئی جس میں بم سازی کا کام جاری تھا
یا ذخیرہ کیا گیا تھا ۔پولس نے موقع واردات سے تین کلو گرام لیڈآ ؔکسائڈ،۵۰۰ گرام ریڈ لیڈ ،ایک کلو گرام پوٹاشیم ناٗٹریٹ،۱۱ دیسی ساخت کے بم ،کئی بم پن سات ٹائمر اور بیٹریاں برآمد کیں۔انسپکٹر جنرل آف پولس نے کہا کہ برآمدگی ظاہر کرتی ہے کہ اور بھی کوئی بڑا دھماکہ ہونے والا تھا ۔دوسرے پولس آفیسر نے کہا کہ برآمد دھماکہ خیز سامان آدھے کانپور کو تباہ کرنے کے لئے کافی تھا۔یو پی کیڈر کے ریٹائرڈ آئی پی ایس آفیسرایس آر دارا پوری جو اس وقت بر سر کار تھے کے مطابق انھوں نے دیکھا کہ
ریاستی حکومت اور تفتیش کرنے والے افسران’’پراسرار اسباب ‘‘کے تحت ٹال مٹول کی چالیں اختیار کئے ہوئے ہیں۔دھماکے کے ایک دن بعدایک نالے سے مزید
دھماکہ خیز سامان برآمد ہوا تھا اور دارا پوری کے مطابق کہیں اور بھی اس طرح کے سامان چھپے ہوئے ہیں جنھیںبرآمد کرنے کی کوئی کوشش نہیں کیی گئی ۔(۴)۱۵،اکتوبر
۲۰۰۹ کو گوا کی راجدھانی مڈ گاؤں میںایک اسکوٹر میں اس وقت دھماکہ ہو گیا جب دو آدمی اسکوٹر میں بم لیکر جا رہے تھے۔مگر گریس چرچ کے پیچھے اسکوٹر ڈرایئور کے قابو سے باہر ہو کر گر گیا۔اور اس میں دھماکہ ہو گیا۔جس میں اسکوٹر پر سوار دونوںافراد شدید زخمی ہوئے اور بعد میں مر گئے۔ان کے پاس سے خان مارکیٹ کا ایک شاپنگ بیگ،ایک روایتی عطر کی شیشی اور باسمتی چاول کی ایک بوری جس پر تمام الفاظ اردو میں لکھے ہوئے تھے برآمد ہوئے تھے۔انڈین ایکسپریس نے ایک پولس آفیسر کا بیان شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط کے ساتھ نقل کیا ہے کہ وہ سب سامان مڈگاؤں مین فرقہ وارانہ ہنگامہ برپا کر نے کے لئے کافی تھا۔مگر ایس پی دیشپانڈے نے کہا تھا کہ مرنے والے مالگونڈا پاٹل اور یوگیش نائک کا معاملہ جہادی عناصر سے مختلف ہے اور شاید ان کا مقصد عوامی فنکشن میں ہنگامہ برپا کرنا تھا ۔کتنا دلچسپ بیان تھا یہ!بند ڈکی
میں تو دھماکہ ہونے سے دو افراد مرجاتے ہیںاور عوامی فنکشن میں بم رکھے جانے سے صرف ہنگامہ ہونا تھا۔اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔
یہ بم سازی یا اس کے نقل و حمل کا صرف ٹریلر ہے جو ہم نے یہاں درج کیا ،پورے پکچر کے لئے تو کتابیں کم پڑ جائیں۔اس سے ایک بات تو عیاں ہوتی ہے کہ وطن عزیز میں بم سازی اور اس کے نقل حمل میں ہندو ہی سر گرم ہیں۔بردوان دھماکہ ایک استثناء ہے مگر اس کے تمام حقائق ابھی سامنے نہیں آسکے ہیں۔ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے
کہ جو سیکولر ہیںوہ بھی صد فی صد سیکولر نہیں ہیں۔محترمہ ممتا بنرجی نے مرکز کی گزارش پر تحقیقات NIAکے حوالے کردی ہے اسNIA کے حوالے جس کے تعلق سے مہاراشٹر کی مشہور پبلک پراسیکیوٹر محترمہ روہنی سالین مالیگاؤں بم دھماکہ کیس کے ہندو ملزمین کی حمایت کا خوفناک الزام عائد کیا ہے۔
بم سازی کی یہ بیشتر تفصیلا ت سبھاش گتاڈے کی کتاب گوڈسے کی اولاد سے لی گئی ہیں ۔ ان پر ایک نظر ڈالئے ۔پھر بم دھماکوںمیں گرفتار ہونے اور سزا پانے والے مسلمانوں پر نظر ڈالئے۔ایسا لگتا ہے کہ بم دھماکوں کے لئے مسلمان بم اپنے ہندو بھائیوں سے بلکہ سنگھ پریوار والوں سے حاصل کرتے ہیں۔یا پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ
بم سازی تو سنگھ کے قرابت دار کرتے ہیںمگر بم اندازی کے لئے مسلمانوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جو بم بناتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں
ان کے تعلق سے تو پولس خاموشی اختیار کر لیتی ہے اور بم رکھنے والوں کو بلا ثبوت بھی گرفتار کر لیا جاتا ہے سزا بھی دیدی جاتی ہے ۔اب عدالتوں نے بھی Evide-
nce Act سے ثبوت گواہ کو نکال کراجتماعی ضمیر کا اطمینان،اور دھرم آستھا وغیرہ کو جگہ دیدی ہے جلد ہی شاید وہ وقت بھی آجائے جب بم سازی کرنے والے عدالتوں میں کھڑے رہ کر گواہی دیں کہ ہم نے بم بنا کر فلاں فلاں مسلمان کو بم اندازی کے لئے دیا تھا اس طرح وہ نہ صرف وعدہ معاف گواہ بنا کر چھوڑ دئے جائیں بلکہ حب الوطنی کا سرٹیفکٹ بھی پائیںاور مسلمان مجرم ’’گھوسٹ‘‘ ہو کر سزا پائیں۔
ہمار ایمان ہے کہ ظلم جتنا بڑھتا ہے مظلوموں کے حق میں اتنا ہی اچھا ہوتا ہے ۔اس طرح ظلم اور ظالم کی عمر گھٹتی ہے۔
نوٹ:مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں،ادارہ معیشت کسی طرح کی ذمہ داری کا روادار نہیں۔