
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ !

عالم نقوی
موت ہی دنیا کی وہ حقیقت ہے جسے ہم روز دیکھتے ہیںلیکن جسے سب سے زیادہ بھولے رہتے ہیں ۔موت کے جتنے بھی روپ ممکن ہیں ہم سب کبھی نہ کبھی ان کا مشاہدہ ضرور کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں بھی اسی طرح ایک نہ ایک دن یہ دنیاچھوڑ کر چلا جانا ہے۔ سنیچر19 ستمبر2015 کو دنیا کے چند سَو اَمیر کبیر لوگوں میں سے ایک متحدہ عرب امارات UAEکے نائب صدر ،وزیر اعظم اور حاکم دبئی شیخ محمد بن راشد آل مکتوم کے 33سالہ بیٹے شیخ راشد بن محمد کا اچانک حرکت قلب بند ہو جانے انتقال ہو گیا ۔ اس کے باپ کی اٹھارہ بلین ڈالر (1080ارب روپئے )کی نقد دولت بھی اسے جوانا مرگی سے نہیں بچا سکی ۔وہ خود اربوں ڈالر کی کمپنیوں : یونائٹڈ ہولڈنگ گروپ دوبئی اور زبیل ریسنگ انٹر نیشنل کا مالک اور شیخ راشد نور انوسٹمنٹ گروپ ،نور اسلامک بینک اور دبئی ہولڈنگ کمپنی کا سب سے بڑا شراکت دار تھا ۔کالم نگار محمد شعیب تنولی کے لفظوں میں ۔۔وہ ۳۳ برس کی عمر میں دولت کے ایسے انبار میں کھیلتا تھا اور سیکڑوں کی تعداد میں ایسے نادر گھوڑے پالتا تھا جن کا دنیا میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ ۔لیکن جب موت کے فرشتے نے دستک دی تو وصیت کرنے کی بھی مہلت نہ مل سکی ۔ محمد شعیب لکھتے ہیں :ہارون ا لرشید کا دور ہے ۔ شہر کے باب ا لداخلہ پر ایک عورت کھڑی ہے ۔گھوڑے پر سوار کسی رئیس کی نگاہ اس پر پڑتی ہے ۔وہ اس سے پوچھتا ہے مسئلہ کیا ہے ؟وہ ضرورت مند خاتون اپنے پاس موجود اشرفیوں کی پوری تھیلی اس کے حوالے کرتا ہوا گھوڑے کو ایڑ دیتا ہے اور چشم زدن میں ہوا سے باتیں کر نے لگتا ہے ۔وہ عورت اسے جاتے ہوئے دیکھتی ہے اور اظہار افسوس کرتے ہوئے ایک جملہ کہتی ہے کہ:ہائے اس دنیا میں اس کے جیسے لوگ بھی مر جائیں گے ! اپنے وقت پر وہ رئیس بھی دنیا سے گزر گیا اور شیخ راشد بھی ۔لیکن دونوں میں کتنا فرق ہے ! وہ انسان دوست اور سینے میں دل درد مند رکھنے والابغداد کا ایک گمنام رئیس تاریخ کے دریچے پر کھڑا ہمیشہ ایک تحریک کا باعث بنا رہے گا لیکن شیخ راشد کی اربوں ڈالر کی دولت اس کے مرنے کے بعد اس کے نام کو چند روز بھی زندہ نہیں رکھ سکے گی!
ٹھیک ہے کہ خیرات تو اس کے دبئی کے حاکم باپ بھی کرتے ہیں جنہوں نے اپنے مرحوم باپ کے نام پر ایک خیراتی ادارہ قائم کر رکھا ہے جس کا کوئی نام بھی جانتا ۔33سالہ شیخ راشد مرحوم کے باپ اور دادا نے دبئی کو ایک بین ا لا قوامی شہر بنادیا ہے ۔دنیا کی سب سے اونچی رہائشی عمارت ،دنیا کا سب سے اونچا مینار ،دنیا کی سب سے بڑی نمائش گاہ ،دنیا کا سب سے بڑا اسپورٹس اسٹیڈیم ، دنیا کی سب سے بڑی
گھڑ دوڑ،یہ سب دبئی میں ہیں لیکن یہ تو ان کی بڑی بڑی خواہشات نفس کے نمونے ہیں جن کا کوئی اور چھور نہیں ۔ وہ چاہتے تو متحدہ عرب امارات میں کے ہر شہر میں دنیا سب سے بڑے اور با وقار تعلیمی ادارے قائم کر سکتے تھے ، وہ اگر دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ،دنیا کا سب سے بڑا میڈیکل کالج ،دنیا کا سب سے بڑا اسپتال ،دنیا کا سب سے بڑا انجینیرنگ کالج ،دنیا کا سب سے بڑا ٹکنالوجی انسٹی ٹیوٹ ،دنیا کی سب سے بڑی اسلامی یونیورسٹی اور قرآن ریسرچ سنٹر قائم کر دیتے تو دنیا کے سب سے بڑے آدمی کی حیثیت سے ان کے نام تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ روشن رہتے ۔ صرف متحدہ عرب امارات کے حکمراں چاہتے تو دنیا کا سب سے بڑا ماس کمیونی کیشن انسٹی ٹیوٹ ،دنیا کا سب سے بڑا اخبار ، دنیا کا سب سے بڑا نیوز میگزین ،دنیا کا سب سے بڑا الکٹرانک نیوز چینل اور دنیا کا سب سے بڑا پبلشنگ ہاؤس بھی قائم کر سکتے تھے ! صرف متحدہ عرب امارات کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ دنیا کے تمام پناہ گزینوں کے مسائل کو تن تنہا کر سکتا ہے ۔لیکن افسوس کہ آل مکتوم خاندان کوئی دوسرا عبد ا لستار ایدھی اورکوئی دوسرا عبد ا لرزاق کالسیکر بھی پیدا نہ کر سکا ! کوئی فورڈ فاؤنڈیشن ،کوئی بل گیٹ فاؤنڈیشن تو بڑی چیز ہے ،اَربوں کھربوں ڈالر کی قارونی دولت رکھنے والا یہ خاندان کوئی دوسرا عظیم پریم جی ایجوکیشنل فاؤنڈیشن اور کوئی دوسرا شیو ناڈَر ایجوکیشنل فاؤنڈیشن بھی قائم نہیں کر سکا جو ہندستان میں وہ کام کر رہے ہیں جو اُس اُمت ِوَسط کے کرنے کے تھے جس کے لیے اُسے خیرِ اُمت کے منصب ِعظیم پر فائز کیا گیا تھا ! لیکن افسوس کہ ۔۔۔یہ اُمت خرافات میں کھو گئی ! وہ بنو اسرائیل کی غلامی ،اور قارونوں ہامانوں فرعونوں ،نمرودوں ، شدادوں اور دَجًالوں کی پیروی میں پڑی ہوئی ہے !
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو ؟