
’’اب عدالتوں پر بھروسہ بھی سوچ سمجھ کر کیا جانا چاہئےکیونکہ ملک پولس اسٹیٹ بن چکا ہے‘‘
نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
ممبئی :(معیشت نیوز )’’پورا کا پورا ملک پولس اسٹیٹ بن چکا ہے عدالتیں پولس کی کہانیوں پر آنکھیں بند کرکے فیصلے سنارہی ہیں۔آپ یہ جان لیجئے کہ پولس اور اے ٹی ایس کے لئے کسی مسلم نوجوان یاکسی مسلم سیاست داں کو کسی بھی مقدمہ میںملوث کرنا آسان ہے ۔پولس اور اے ٹی ایس نوجوانوں کو دھمکا کر ان کے عزیزوں کو فرضی اور خطرناک مقدمات میں پھنسانے کی دھمکی دے کر اعتراف جرم پر مجبور کراتی ہے‘‘ ۔یہ باتیں آج مراٹھی پتر کار سنگھ میں ملی تحریک کی جانب سے منعقد ہ پروگرام میں ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ مقدمہ سے بری ہونے والے عبد الواحد شیخ نے کہیں ۔
واضح رہے کہ یہاں ایسے اشخاص کو اپنی باتیں رکھنے کی دعوت دی گئی تھی جو کئی فرضی مقدمات میں ملک کی تفتیشی ایجنسیوں کے ظلم و ستم کا شکار ہو چکےہیں ۔ابھی حال ہی میں ممبئی ٹرین بلاسٹ مقدمہ میں بری ہونے والے عبد الواحد شیخ ،اکشر دھام مندر حملہ میں سپریم کورٹ سے باعزت بری ہونے والے مفتی عبد القیوم ،مکہ مسجد میں بری ہونے والے شعیب جاگیر دار ، پولس اور اے ٹی ایس کے دباؤ میں حمایت بیگ کے خلاف گواہی دینے والے دو گواہوں نے عوام اور میڈیا کے لوگوں کے سامنے تفتیشی ایجنسیوں کی بد دیانتی کے کارنامے کو علیٰ الاعلان پیش کیا۔عبدلواحد شیخ نے کہا کہ’’ جس طرح میں بےگناہ ہوں اور مجھے بری کیا گیا ہے اسی طرح وہ بارہ نوجوان جن کو ممبئی ٹرین دھماکہ میں مکوکا عدالت سے سزا سنائی گئی ہے بے گناہ اور معصوم ہیں ‘‘۔عبد الواحد نے کہا کہ’’ ٹرین بلاسٹ کیس میں پولس اے ٹی ایس اور تفتیشی ایجنسی کے پاس پہلے سے مقدمہ کی اسکرپٹ تیار تھی اس میں صرف انہیں نام لکھنا تھا جس کے لئے وہ ٹارچرکر کے مجبور کرتے تھے کہ جرم قبول کرو‘‘۔ حمایت بیگ کے خلاف گواہی دینے والے گواہوں نے بتایا کہ کس طرح اے ٹی ایس اور پولس نے جج کے سامنے گواہوں کو ڈرایا دھمکایا لیکن جج نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ایک گواہ نے بتایاکہ ’’ ریحان نام کے ایک نوجوان کو اے ٹی ایس نے بدترین اذیت دے کر جھوٹی گواہی دینے پر مجبور کیا لیکن دوسرے دن جب عدالت میں اسے پیش کیا گیا تو اس نے جج سے کہا کہ کون سی بات سناؤں وہ جو پولس نے کہا ہے یا وہ جو سچ ہے اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ جج کے سامنے پولس اسے کالر سے پکڑ کر گھسیٹ کر باہر لائی اور اس کی ماں اور بہن سے فون سے بات کروایا ماں اور بہن نے کہا کہ ہم لوگ خطرے میں ہیں تم سے پولس والے جیسا کہہ رہے ہیں ویسا ہی بیان دو‘‘۔ ملّی تحریک کے رہنماابو عاصم اعظمی نے سوال کیا کہ’’ آخر اس ملک میں یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کب تک چلتا رہے گا‘‘۔عبدالواحد نے لوگوں سے اپیل کی کہ’’ اگر ابھی سے آپ بیدار نہیں ہوئے تو یاد رکھئے ٹرین بلاسٹ میں جن معصوم نوجوانوں کو سزا سنائی گئی ہے وہ یعقوب میمن کی طرح انہیں بھی لٹکادیں گے ۔اس لئے ابھی سے بیدار ہو جائیے اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے حقوق کی لڑائی لڑئے‘‘ ۔عبد الواحد نے یہ بھی کہا کہ’’ وہ رہا ہو گئے ہیں لیکن انہیں سکون نہیں ہے ۔انہیں سکون اس وقت ملے گا جب وہ معصوم بھی رہا ہو جائیں‘‘ ۔انہوں نے کہا کہ’’ ممبئی ٹرین بلاسٹ مقدمہ میں آیا ہوا فیصلہ انصاف نہیں ہے‘‘ ۔مفتی عبد القیوم نے کہا کہ ’’گجرات میں تین سو مسلمانوں کو حراست میں لے کرانہیں جرم کا آپشن دیا جاتا تھا کہ کسے کس کیس جانا ہے وہ بتائیں تاکہ اسی طرح معاملہ درج کیا جائے‘‘ ۔
ایک سینئر جرنلسٹ جوبار بار اس طرح کی باتوں سے پشیمانی کا اظہار کررہے تھے اور اپنی بے مائیگی پر کف افسوس مل رہے تھے ۔سبب پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ اس طرح کی کہانی اور جذباتی باتیں تو ہوتی رہی ہیں اب کچھ کام کی باتیں بھی ہو ں کہ ہم نے اس پر کوئی لائحہ عمل بھی تیار کیا ہے ؟ان سے جاننے کی کوشش کی کہ آخر کیا لائحہ عمل ہو نا چاہئے ؟ان کا کہنا تھا کہ دو طرح کی ٹیم تشکیل دی جانی چاہئے اور وہ فوراً ہوں ۔ایک ٹیم تو خالص ماہرین قانون کی ہو جو ایسے نوجوانوں کے مقدمات لڑے اور دوسری ٹیم ایسی ہو جسے حکومت کی بھی منظوری ملے ۔یہ پوچھے جانے پر کہ اس ٹیم کا کیا کام ہو گا انہوں نے بتایاکہ وہ ٹیم کسی بھی گرفتاری کے بعد پولس کی پوری کارروائی پر کڑی نگرانی رکھے ۔ہم لوگوں نے اے این رائے کے زمانے میں کوشش کی تھی کہ ایک ایسا میکانزم تیار ہو کہ جس کے تحت سینئر شہریوں سابق آئی پی ایس اور آئی اے ایس سمیت سیاست دانوں کی ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جو کہ پولس کی کہانی پر یقین نہ کرتے ہوئے خود جاکر حالات اور واقعات کی تحقیق کرے نیز وہ پولس اور دیگر تفتیشی ایجنسیوں کی جبراً اقبال جرم کرانے کی روایت پر روک لگانے کاایک ذریعہ بنے ۔وہ کہتے ہیں کہ پولس کی طرف سے ایسی کوشش کا استقبال کیاگیا اور کمیٹی بنانے کی طرف پیش قدمی بھی ہوئی لیکن اس میں پولس اپنے مقاصد کے تحت ایسے لوگوں کو کمیٹی کا ممبر بنانا چاہ رہی تھی جو مسلمانوں کی نظر میں مشکوک کردار کےتھے اس لئے یہ کوشش ناکام رہی۔لیکن اس میں کامیابی اس صورت میں مل سکتی ہے جب اسے عوام کی حمایت ملے اور بڑے پیمانے پر ایسے مقدمات کی آبزر ویٹری کی جائے ۔انہوں نے کہا کہ یہ خیال مجھے 1993 کے فسادات کے موقع پر اس وقت کے پولس افسر کے ظالمانہ برتاؤ کی وجہ سے آیا تھا ۔جب مذکورہ پولس افسر جن کا ابھی پولس کمشنر کے عہدہ سے تبادلہ کیا گیا ہے ،کی حرکتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔