دادری کا ہندستان درد ناک اور خوفناک ہے

میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں۔ مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں۔ مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے

  عبد العزیز ۔ کولکاتا
بابری مسجد کے بعد دادری کا سانحہ انتہائی دردناک اور خوفناک ہے۔ اتنے بڑے غمناک واقعہ کے بعد سنگ دل اور پتھر دل فرقہ پرستوں کی بول چال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ مودی کابینہ کے ثقافتی وزیر مہیش شرما واقعہ کو حادثہ سے تعبیر کرتے ہیں، مظفر نگر کے فتنہ گر اور فسادی سنگیت سوم اتر پردیش کی حکومت سے اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہیں کہ حکومت گائے کے ہتیارے کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ ساکشی مہاراج اور اس طرح کے دوسرے درندہ صفت انسانوں کی بولی ہے کہ ’’گوشت کھانے والوں کا یہی حشر ہوگا‘‘۔ ان درندہ صفت انسانوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ گوشت ایکسپورٹ کی دو بڑی کمپنیاں ’الکبیر‘ اور ’عربین‘ کے مالکان ہندو ہیں جو گوشت کو بڑی تعداد میں بیرونی ملکوں میں برآمد کرتے ہیں۔ فرقہ پرستوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کو چھیڑیں گے تو ان کی فضیحت ہوجائے گی۔ وہ اتنے با اثر اور بارسوخ ہیں کہ احتجاج اور مخالفت کرنے والوں کو راندہ درگاہ کردیں گے۔
نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم سے کہیں زیادہ آر ایس ایس کے پرچارک ہیں۔ دادری ان کی رہائش گاہ سے تیس پینتیس کیلو میٹر دوری پر واقع ہے مگر ان کو احساس تک نہیں ہے کہ دادری میں کیا ہوا۔ وزیروں کی کابینہ اور کونسل کو اجتماعی یا مشترک ذمہ داری کا ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ شرما کا بیان یا اظہارِ خیال دراصل سنگھ پریوار یا حکومت کی ترجمانی سمجھنا چاہئے، اس لئے جو لوگ مودی کے منہ کھولنے کی بات کہتے ہیں ان کو یہ شاید معلوم نہ ہو کہ مودی اپنی چپی اس وقت توڑتے ہیں جب وہ اپنی پارٹی کی طرف سے حرف آخر کہہ کر بات کو ختم کرسکیں۔ پارلیمنٹ کے مانسون سیشن سے پہلے اور سیشن کے دوران مودی کے وزیروں اور وزراء اعلیٰ کے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔ مودی منہ پر ٹیپ لگائے ہوئے تھے مگر جب 15 اگست کے موقع پر ملک کے باشندوں کو خطاب کیا تو اپنی پارٹی اور لیڈروں کابالکل پارسا بتایا اور کہاکہ جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں ان کی پارٹی کے کسی فرد نے بھی ایک پیسے کی بدعنوانی نہیں کی۔ ممکن ہے ایک دو مہینہ کے بعد یا اس سے پہلے مودی دادری کے واقعہ کو ایسا بتائیں جیسے گجرات کے فسادات کو ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ ان کی موٹر کے نیچے کتا کا کوئی پلا بھی چلا آئے اور مرجائے تو انھیں افسوس ہوتا ہے، غالباً اسی قسم کے افسوس کا موصوف آج نہیں تو کل اظہار کریں گے۔
مودی اپنی سیاسی پارٹی کو آر ایس ایس کے رنگ میں رنگنے میں پوری طرح کامیاب ہیں۔ ایسی صورت میں مرکزی حکومت یا جن ریاستوں میں بھاجپا کی حکومتیں ہیں ان سے کوئی اچھی امید رکھنا مشکل ہے۔ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ فڈنویس کا خواب تھا کہ وہ ایک نہ ایک دن گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگاکر رہیں گے۔ ان کا خواب پورا ہوگیا اور کچھ اس طرح پورا ہوا کہ پورے ملک میں خوفناک ماحول پیدا ہوگیا جس کے نتیجہ میں دادری میں ایک معصوم اور بے گناہ کا خون ہوا۔ اس خون کو بھاجپا والے تو خون کے بجائے پانی کہہ رہے ہیں مگر ’’خون پھر خون ہے بہتا ہے تو جم جاتا ہے ۔ ظلم ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے‘‘۔ اس حقیقت سے شاید بی جے پی والے واقف نہیں ہیں۔ کتنے فرعون اور نمرود آئے آج وہ پیوند خاک ہیں۔
امید کی کرن
ہندستان میں امید کی کرن یہ ہے کہ ہندو بھائیوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اب آر ایس ایس یا سنگھ پریوار کی فرقہ پرستی سے تنگ آچکی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ آر ایس ایس کے لوگوں کی حکمرانی کا جو انداز ہے وہ پورے ملک کو جلا کر راکھ کر دے گا۔ ایسے لوگوں سے ملک کو بچانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں دادری کے سانحہ پر بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے اور فرقہ پرستوں کے عزائم کی زبردست مذمت کی جارہی ہے۔
آج (6 اکتوبر 2015ء) کے انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ میں نہرو یونیورسٹی دہلی کے پروفیسر اشوک سنجے گوہا کا مضمون شائع ہوا ہے۔ انھوں نے حیرت اور تعجب کا اظہار کیا ہے کہ جس ملک میں 60 فیصد لوگ گوشت خور ہیں وہاں چند افراد گوشت اور گائے پر نہ صرف واویلا مچا رہے ہیں بلکہ معصوم انسانوں کی جان لے رہے ہیں اور جان لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ اپنے مضمون میں موصوف نے سوامی ویویکا نند کے بارے میں لکھا ہے کہ سوامی جی نے آج کے ہندوؤں کا قدیم ہندوؤں کے کھانے پینے کے طرز عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ایک وقت تھا جب تک برہم گائے کا گوشت نہ کھائے اسے برہمن نہیں کہا جاتا تھا۔ جب کوئی یوگی، بڑا آدمی یا بادشاہ دورے پر نکلتا تھا تو گائے کے بچھڑے کے گوشت سے اس کی خاطر مدارات ہوتی تھی‘‘۔
پروفیسر گوہا نے رگ وید کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’قدیم زمانے میں گوشت خوری کا چلن عام تھا‘‘ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بدھ مت اور جینیوں نے گوشت خوری کے خلاف تحریک چلائی تھی جس کا اثر ہندو سوسائٹی کے ایک حصہ پر ہوا تھا۔ کچھ لوگ اسی اثر تلے آج بھی دبے ہوئے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے مضمون کے آخر میں لکھا ہے کہ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ فڈنویس کا بچپن کا خواب تھا کہ وہ ایک نہ ایک دن گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگا کر رہیں گے۔
فڈنویس اور مودی کا خواب پورا ہو رہا ہے۔ ملک میں صورت حال بگڑ رہی ہے اس سے دونوں کو کوئی مطلب نہیں ہے۔ ان کو اپنے خواب کی پڑی ہے۔ ہندستان کی فکر نہیں ہے۔
شاید علامہ اقبال نے آج کے ہندستان کو بہت پہلے دیکھ لیا تھا اسی لئے کہا تھا ؂
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے ۔۔۔تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستان والو۔۔۔تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
صدائے درد کے عنوان سے علامہ اقبال نے جو نظم کہی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کہ آج کے حالات میں وہ اپنی بے چینی اور بے قراری کا اظہار کر رہے ہیں
جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے ۔۔۔ ہاں ڈبو دے اے محیطِ آبِ گنگا تو مجھے
سر زمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے ۔۔۔ وصل کیسا یاں تو اک قربِ فراق انگیز ہے
بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی ہے غضب ۔۔۔ ایک ہی خِرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب
جسکے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں ۔۔۔ اس چمن میں کوئی لطفِ نغمہ پیرائی نہیں
لذتِ قرب حقیقی پر مٹا جاتا ہوں میں ۔۔۔ اختلاطِ موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں
ذوقِ گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں ۔۔۔ میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں
کب زباں کھولی ہماری لذتِ گفتار نے ۔۔۔ پھونک ڈالا جب چمن کو آتشِ پیکار نے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *