Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کچھ نہ کہنے سے بھی چِھن جاتا ہے اعجازِ سخن

by | Oct 9, 2015

اعظم خان مظفر نگر اور دادری کے ظالموں کو کڑی سزا دلانے کے بجائے مسلمانوں کو  ’یو این او‘ دکھا رہے ہیں

ندیم صدیقی،ممبئی
دو دِنوں سے اخبارات میں ہم پڑھ رہے ہیں کہ دادری میں ہونیو الے ایک معصوم شخص اخلاق کے بہیمانہ قتل کے خلاف احتجاجاً ملک کے دو بڑے اور اہم اہل قلم نے اپنے سرکاری ایوارڈ حکومت کو واپس کر دِیے جانے کا اعلان کیا ہے۔ جن میں انگریزی کی مشہورہندوستانی ادیب محترمہ نین تارہ سہگل نے اپنے انگریزی ناول پر ملنے والے ساہتیہ اکادیمی ایوارڈ لوٹا نے کا اعلان کر کے پورے ملک میں تمام سنجیدہ اذہان کو جیسے ایک پیغام دیا ہے۔ وہ پیغام معمولی نہیں اور ان کے اس اقدام کو کسی بھی طرح کا شعبدہ نہیں کہا جاسکتا۔ اْنہوں نے اپنے اس اقدام کی جس طرح صاف لفظوں میں وضاحت کی ہے وہ کسی بھی سنجیدہ ذہن کو کچھ سوچنے اور عمل کی ایک طرح سے خاموش دعوت سے کم نہیں۔ یقیناً ہمارے قارئین کے ایک طبقے نے اسےضرور پڑھا ہو گا مگر ایسے سنجیدہ بیانات اس کا حق رکھتے ہیں کہ ان کی اشاعت کا اعادہ دَر اعادہ کیا جائے۔
سہگل فرماتی ہیں کہ ان ہندوستانیوں کی یاد میں جو قتل کر دِیے گئے، اْن تمام اختلاف رائے رکھنے والوں کیلئے جو آج خوف اور بے یقینی میںجی رہے ہیں، مَیں اپنا ساہتیہ اکادیمی ایوارڈ واپس کر رہی ہوں۔‘‘
محترمہ نے اسی بیان میں بڑی بات یہ بھی کی کہ ’’وزیر اعظم(مودی) نے ،جو بولنے کا یوں تو کوئی موقع خالی نہیں جانے دیتے، ان موضوعات پر خاموشی کو ترجیح دی ہے۔‘‘۔۔۔ مختلف ذرائع ابلاغ میں ہمارے نام نہاد سیاسی دانشوروں نے مودی کی حمایت میں ا کثر یہ کہا ہے کہ عوام کی اکثریت نے اُنھیں منتخب کیا ہے۔ اس کا مسکت جواب جس طرح سے محترمہ سہگل نے دِیا ہے اس سے ان کی سیاسی بصیرت ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر سنجیدہ موضوع پر سوچنے اور اقدام کی وضاحت بھی ہو گئی ہے۔ ایسا مسکت جواب وہی دے سکتا ہے جو واقعی دانشور ہو۔ جس کی دلیل ان کا جواب خود بن گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ہٹلر کو بھی عوام ہی نے جِتایا تھا لیکن اس کا نتیجہ دوسری جنگ عظیم کی صورت میں تمام دْنیا کو بھگتنا پڑا، جسے ہٹلر ہی نے چھیڑا تھا۔‘‘ محترمہ سہگل یہیں چپ نہیں ہوگئیں اُنہوں نے یہ کہنے میں کوئی خوف یا کسی تکلف سے کام نہیں لیا۔ انہوں نے دو ٹوک کہہ دِیا کہ ’’ہندوستان بھی آج ’ ہٹلری دور ‘ میں داخل ہو چکا ہے۔‘‘۔۔۔
کسی بھی معاشرے کے اہلِ قلم کی بڑی ذمے داری ہوتی ہے انھیں کسی بھی طرح کے ظلم کے خلاف سب سے پہلے آواز بلند کرنی چاہئے۔ محترمہ نین تارہ سہگل کی اس آواز پردوسرے ہی دن ہند کے ممتاز اور باوقار ادیب اشوک واجپئی نے لبیک کہا اور کنڑ ادیب ایم ایم کلبرگی کے قتل اور ملک میں فرقہ وارانہ فضا کی بدترین صورتِ حال پر حکومت کی نا اہلی اوروزیر اعظم کی خاموشی کے خلاف اپنا ساہیتہ اکادیمی ایوراڈ واپس کر نے کا عندیہ ظاہر کیا۔واضح رہے کہ واجپئی عام قلم کار نہیں، وہ IAS ہیں اور ہندی کے ممتاز ترین ادیبوں اور شاعروں میں ان کاشمارہوتا ہے بین الاقوامی زبانوں کے ادب پر بھی ان کی نگاہ گہری ہے۔ وہ للت کلا اکادیمی کے صدر اور مہاتما گاندھی بین الا قوامی ہندی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں۔۔۔ بات صرف سہگل اور واجپئی کے اس اقدام ہی پر نہیںرُک گئی، اطلاعات شاہد ہیں کہ انگریزی ، ہندی اور کنڑّ کے ساتھ دیگر ہندستانی زبانوں کے اہلِ قلم بھی اس احتجاج میں اپنی آواز ملانے کیلئے یکجا ہو رہے ہیں۔
یہ واقعات ہم سب کیلئے جو قلم سے کسی بھی طرح کارشتہ رکھتے ہیں بڑے اہم ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ عمل دْنیا میں پہلی بار ہو رہا ہے۔ تاریخ میں ایسے کئی واقعات درج ہیں۔۔۔
یقینا اہلِ قلم بھی اسی معاشرے کی ایک حصہ ہوتے ہیںجہاں ہر طرح کا ظلم روا ہوتا ہے۔ مگر انہی میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ضمیر کی آواز پر چپ رہناجانتے ہی نہیں اور ایسے ہی لوگ زندہ مثال بن جاتے ہیں۔
مغرب کے برٹرینڈ رسل، اسٹالن ہی نہیں ہمارے ائمہ میں بھی ایسے ایک نہیں کئی گزرے ہیں جنہوں نے ضمیر کی آواز پرخموشی کے بجائے حکومت کے جبر و کراہ کو قبول کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا ہو۔ یہ لوگ تاریخ میں اپنی زندگی کا مظہربنے ہوئے ہیں۔ ہمارے دَور میں بھی ایسے قلم کا ر گزرے ہیں بلکہ ہم یہ کہنے میں خوشی محسوس کر رہے ہیں کہ ہم نے ان کے ساتھ کچھ لمحات گزارے ہیں جن میں حفیظ میرٹھی سر فہرست ہیں۔ ان کا یہ شعر ان کے عمل کا گواہ بنا ہوا ہے: ہمارے آنسووؤں کو، اِلتجا کو÷ترستارہ گیا قاتل ہمارا
اِسی طرح صحافتی برادری کے ضمیر نیازی (مرحوم) بھی اپنی زندہ ضمیری کے سبب ہمارے ذہن و قلب میںآج بھی سانس لیتے محسوس ہو تے ہیں۔
دورِ حاضر عجب مناظر پیش کر رہا ہے کہ بسا اوقات باطل کے خلاف اْٹھنے وا لی آوازوں میں کچھ ایسی آوازوں کی بھی شمولیت محسوس ہوتی ہے کہ جنہیں سن کر فطری طور پر ماتھے پر بل پڑتے ہیں کہ یہ خلافِ باطل ہیں یا اپنی ’’ طلبِ مخفی‘‘کیلئے ان آوازوں میںآواز ملا رہے ہیں۔ ؟؟
دوسروں کو کیوں زحمت ہو ہم خود کہہ رہے ہیں کہ ممکن ہے ،ہم ہی کسی التباسِ فہم و نظر کا شکار ہو رہے ہوں۔!!۔۔۔
محترمہ سہگل کی ایوارڈ واپسی کا اعلان ایک طرح سے مصرعۂ طرح تھا جس پر اشوک واجپئی نے فوراً تضمین کی اب لوگ غزلیں کہتے رہیں۔۔۔
اس وقت مظفر وارثی کا یہ شعر بے طرح یادآتا ہے :
۔۔۔۔ کچھ نہ کہنے سے بھی چِھن جاتا ہے اعجازِ سخن÷ ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مددہوتی ہے
ہماری یہ تحریر اِسی’’۔۔کچھ کہنے۔۔‘‘ کی تائیدِضمیری سمجھی جائے۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...