کچھ نہ کہنے سے بھی چِھن جاتا ہے اعجازِ سخن

اعظم خان مظفر نگر اور دادری کے ظالموں کو کڑی سزا دلانے کے بجائے مسلمانوں کو  ’یو این او‘ دکھا رہے ہیں

ندیم صدیقی،ممبئی
دو دِنوں سے اخبارات میں ہم پڑھ رہے ہیں کہ دادری میں ہونیو الے ایک معصوم شخص اخلاق کے بہیمانہ قتل کے خلاف احتجاجاً ملک کے دو بڑے اور اہم اہل قلم نے اپنے سرکاری ایوارڈ حکومت کو واپس کر دِیے جانے کا اعلان کیا ہے۔ جن میں انگریزی کی مشہورہندوستانی ادیب محترمہ نین تارہ سہگل نے اپنے انگریزی ناول پر ملنے والے ساہتیہ اکادیمی ایوارڈ لوٹا نے کا اعلان کر کے پورے ملک میں تمام سنجیدہ اذہان کو جیسے ایک پیغام دیا ہے۔ وہ پیغام معمولی نہیں اور ان کے اس اقدام کو کسی بھی طرح کا شعبدہ نہیں کہا جاسکتا۔ اْنہوں نے اپنے اس اقدام کی جس طرح صاف لفظوں میں وضاحت کی ہے وہ کسی بھی سنجیدہ ذہن کو کچھ سوچنے اور عمل کی ایک طرح سے خاموش دعوت سے کم نہیں۔ یقیناً ہمارے قارئین کے ایک طبقے نے اسےضرور پڑھا ہو گا مگر ایسے سنجیدہ بیانات اس کا حق رکھتے ہیں کہ ان کی اشاعت کا اعادہ دَر اعادہ کیا جائے۔
سہگل فرماتی ہیں کہ ان ہندوستانیوں کی یاد میں جو قتل کر دِیے گئے، اْن تمام اختلاف رائے رکھنے والوں کیلئے جو آج خوف اور بے یقینی میںجی رہے ہیں، مَیں اپنا ساہتیہ اکادیمی ایوارڈ واپس کر رہی ہوں۔‘‘
محترمہ نے اسی بیان میں بڑی بات یہ بھی کی کہ ’’وزیر اعظم(مودی) نے ،جو بولنے کا یوں تو کوئی موقع خالی نہیں جانے دیتے، ان موضوعات پر خاموشی کو ترجیح دی ہے۔‘‘۔۔۔ مختلف ذرائع ابلاغ میں ہمارے نام نہاد سیاسی دانشوروں نے مودی کی حمایت میں ا کثر یہ کہا ہے کہ عوام کی اکثریت نے اُنھیں منتخب کیا ہے۔ اس کا مسکت جواب جس طرح سے محترمہ سہگل نے دِیا ہے اس سے ان کی سیاسی بصیرت ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر سنجیدہ موضوع پر سوچنے اور اقدام کی وضاحت بھی ہو گئی ہے۔ ایسا مسکت جواب وہی دے سکتا ہے جو واقعی دانشور ہو۔ جس کی دلیل ان کا جواب خود بن گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ہٹلر کو بھی عوام ہی نے جِتایا تھا لیکن اس کا نتیجہ دوسری جنگ عظیم کی صورت میں تمام دْنیا کو بھگتنا پڑا، جسے ہٹلر ہی نے چھیڑا تھا۔‘‘ محترمہ سہگل یہیں چپ نہیں ہوگئیں اُنہوں نے یہ کہنے میں کوئی خوف یا کسی تکلف سے کام نہیں لیا۔ انہوں نے دو ٹوک کہہ دِیا کہ ’’ہندوستان بھی آج ’ ہٹلری دور ‘ میں داخل ہو چکا ہے۔‘‘۔۔۔
کسی بھی معاشرے کے اہلِ قلم کی بڑی ذمے داری ہوتی ہے انھیں کسی بھی طرح کے ظلم کے خلاف سب سے پہلے آواز بلند کرنی چاہئے۔ محترمہ نین تارہ سہگل کی اس آواز پردوسرے ہی دن ہند کے ممتاز اور باوقار ادیب اشوک واجپئی نے لبیک کہا اور کنڑ ادیب ایم ایم کلبرگی کے قتل اور ملک میں فرقہ وارانہ فضا کی بدترین صورتِ حال پر حکومت کی نا اہلی اوروزیر اعظم کی خاموشی کے خلاف اپنا ساہیتہ اکادیمی ایوراڈ واپس کر نے کا عندیہ ظاہر کیا۔واضح رہے کہ واجپئی عام قلم کار نہیں، وہ IAS ہیں اور ہندی کے ممتاز ترین ادیبوں اور شاعروں میں ان کاشمارہوتا ہے بین الاقوامی زبانوں کے ادب پر بھی ان کی نگاہ گہری ہے۔ وہ للت کلا اکادیمی کے صدر اور مہاتما گاندھی بین الا قوامی ہندی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں۔۔۔ بات صرف سہگل اور واجپئی کے اس اقدام ہی پر نہیںرُک گئی، اطلاعات شاہد ہیں کہ انگریزی ، ہندی اور کنڑّ کے ساتھ دیگر ہندستانی زبانوں کے اہلِ قلم بھی اس احتجاج میں اپنی آواز ملانے کیلئے یکجا ہو رہے ہیں۔
یہ واقعات ہم سب کیلئے جو قلم سے کسی بھی طرح کارشتہ رکھتے ہیں بڑے اہم ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ عمل دْنیا میں پہلی بار ہو رہا ہے۔ تاریخ میں ایسے کئی واقعات درج ہیں۔۔۔
یقینا اہلِ قلم بھی اسی معاشرے کی ایک حصہ ہوتے ہیںجہاں ہر طرح کا ظلم روا ہوتا ہے۔ مگر انہی میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ضمیر کی آواز پر چپ رہناجانتے ہی نہیں اور ایسے ہی لوگ زندہ مثال بن جاتے ہیں۔
مغرب کے برٹرینڈ رسل، اسٹالن ہی نہیں ہمارے ائمہ میں بھی ایسے ایک نہیں کئی گزرے ہیں جنہوں نے ضمیر کی آواز پرخموشی کے بجائے حکومت کے جبر و کراہ کو قبول کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا ہو۔ یہ لوگ تاریخ میں اپنی زندگی کا مظہربنے ہوئے ہیں۔ ہمارے دَور میں بھی ایسے قلم کا ر گزرے ہیں بلکہ ہم یہ کہنے میں خوشی محسوس کر رہے ہیں کہ ہم نے ان کے ساتھ کچھ لمحات گزارے ہیں جن میں حفیظ میرٹھی سر فہرست ہیں۔ ان کا یہ شعر ان کے عمل کا گواہ بنا ہوا ہے: ہمارے آنسووؤں کو، اِلتجا کو÷ترستارہ گیا قاتل ہمارا
اِسی طرح صحافتی برادری کے ضمیر نیازی (مرحوم) بھی اپنی زندہ ضمیری کے سبب ہمارے ذہن و قلب میںآج بھی سانس لیتے محسوس ہو تے ہیں۔
دورِ حاضر عجب مناظر پیش کر رہا ہے کہ بسا اوقات باطل کے خلاف اْٹھنے وا لی آوازوں میں کچھ ایسی آوازوں کی بھی شمولیت محسوس ہوتی ہے کہ جنہیں سن کر فطری طور پر ماتھے پر بل پڑتے ہیں کہ یہ خلافِ باطل ہیں یا اپنی ’’ طلبِ مخفی‘‘کیلئے ان آوازوں میںآواز ملا رہے ہیں۔ ؟؟
دوسروں کو کیوں زحمت ہو ہم خود کہہ رہے ہیں کہ ممکن ہے ،ہم ہی کسی التباسِ فہم و نظر کا شکار ہو رہے ہوں۔!!۔۔۔
محترمہ سہگل کی ایوارڈ واپسی کا اعلان ایک طرح سے مصرعۂ طرح تھا جس پر اشوک واجپئی نے فوراً تضمین کی اب لوگ غزلیں کہتے رہیں۔۔۔
اس وقت مظفر وارثی کا یہ شعر بے طرح یادآتا ہے :
۔۔۔۔ کچھ نہ کہنے سے بھی چِھن جاتا ہے اعجازِ سخن÷ ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مددہوتی ہے
ہماری یہ تحریر اِسی’’۔۔کچھ کہنے۔۔‘‘ کی تائیدِضمیری سمجھی جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *