عبد العزیز ۔ کولکاتا
مشہور صحافی اور مصنف مسٹر سوامی ناتھن ایئر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ الیکشن کی پیش گوئی ایک مشکل کام ہے پھر بھی میرا خیال ہے کہ بی جے پی کو بہار کے الیکشن میں ناکامی ہوگی۔ گوشت کھانے والوں پر ظلم و ستم کرنے والے یا قتل کرنے والے الیکشن میں کہیں بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
الیکشن کی مہم شروع ہوتے ہی بہار کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ دینے کی مہم شروع ہوگئی۔ بہار میں کامیاب ہونے کیلئے مندروں کے پاس گوشت کے ٹکڑے پھینکنے کی کوشش ہر جگہ ہونے لگی۔ جہاں بی جے پی کی حکومت نے گوشت اور گائے پر پابندی عائدکر دی ہے۔ جانوروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لانے لے جانے پر بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ چمڑے کے کاروبار پر بھی بری طرح اثر پڑا ہے۔ بی جے پی کے لوگ دادری میں بے گناہ قتل کی مذمت سے قاصر رہے۔ بی جے پی کے اس رویہ سے صرف مسلمان ہی متوجہ نہیں ہوئے بلکہ دلت اور قبائلی بھی متوجہ ہوئے۔ اخلاقی نقطہ نظر سے یہ بات جبر و ظلم کے زمرے میں آتی ہے، ساتھ ہی یہ بہت گندی سیاست ہے۔ مودی نے دیر ہی سے سہی اپنی زبان کھولی اور دادا کے بیان پر اپنی مہر ثبت کرتے ہوئے کہاکہ دادا نے بہت اچھا بیان دیا۔
نریندر مودی نے جس روز اپنی ناصحانہ باتوں کا اظہار کیا اسی روز بی جے پی کے ایک ایم ایل اے نے کہیں نہیں بلکہ کشمیر اسمبلی میں رشید ایم ایل اے کو تھپڑ مارا یہ کہہ کر کہ ان کی گؤ ماتا کی جو بھی اپمان (توہین) کرے گا وہ اس کو ہر گز بخشیں گے نہیں۔ مودی محمد اخلاق کے قتل کی مذمت یا اپنے لوگوں کے فرقہ وارانہ بیان کی مذمت کئے بغیر اپنا سیکولر چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی۔ بعض تجزیہ نگار اسے ٹرننگ پوائنٹ قرار دے رہے ہیں اور کچھ لوگ مودی کو شک کی رعایت دینا چاہتے ہیں جو اب تک اس کے ناقد ہیں۔ مودی حقیقت میں ترقی کے نام پر کامیاب ہوئے۔ ہندوتو کے نام پر نہیں اگر چہ ان کی پچھلی زندگی آر ایس ایس کے ماحول میں گزری اور انہی کی تربیت اور پرورش پاکر آگے بڑھے۔ مودی فرقہ پرستی کی طرف بڑھتے چلے گئے اور الیکشن جیتنے کیلئے ہندو مسلم کی تقسیم ان کی تقریر کا خاص ایجنڈا رہا۔
’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘کو مودی نے محض نعرے تک محدود رکھا۔ مودی نے سمجھا کہ جو لوگ گائے اور گوشت مخالف مہم چلا رہے ہیں اس سے ان کو فائدہ ہوگا۔ جنونی اور انتہا پسند ہمیشہ ان کے ہم نوا رہے۔ پہلے بھی انھوں نے کامیابی حاصل کی۔ اپنے کو ترقی پسند دکھاکر اب وہ ترقی پسندی کا چہرہ پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ اعتدال کی راہ چھوڑ دی ہے۔ انتہا پسندی کی راہ پر گامزن ہیں۔ اس لئے وہ بہار میں بری طرح ہار کا سامنا کرنے والے ہیں۔ دادری کا واقعہ نہ صرف اخلاقی پہلو سے اہم ہے بلکہ اس کا معاشی پہلو بھی کم اہم نہیں ہے۔ آر ایس ایس کے کارکن ہر طرح کے گوشت پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ ٹرانسپورٹر بھی حالات سے خائف ہوگئے ہیں۔ ا س سے کھانے پینے کی چیزیں زیادہ مہنگی ہوں گی اور گوشت کے برآمد کا سلسلہ بالکل رک جائے گا۔ کسان بوڑھی گائے کو فروخت کرتے ہیں اور اس کے بچھڑے کو کام میں لگاتے ہیں جس کی وجہ سے ہندستان گوشت کی برآمد کی بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ اس فرقہ وارانہ ایجنڈے کی وجہ سے گوشت کی انڈسٹری بیحد متاثر ہوگی اور بہت سے مزدور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ بہت سے گھروں میں چولھا نہیں جلے گا۔ اس سے بوڑھی گائیں بے قیمت ہوجائیں گی۔ بہار کے بہت سے کسان گائے صرف دودھ دینے کیلئے نہیں پالتے پوستے بلکہ بچھڑے یا بیل کیلئے بھی پالتے ہیں تاکہ وہ ہلوں میں بیلوں کو استعمال کریں۔
بھاجپا کے اہل دماغ کا کہنا ہے کہ گائے پر پابندی سے معاشی صورت حال متاثر نہیں ہوگی۔ مسلمان اور دیگر افراد بھاجپا کو ووٹ ہر گز نہیں دیں گے بلکہ بھاجپا کے امیدواروں کو ہرانے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔ بہار کے کچھ ایسے ووٹرس تھے جو نتیش پر مودی کے امیدواروں کو ترجیح دیتے مگر اب گوشت اور گائے کی سیاست کی وجہ سے وہ بھی نتیش ہی کے حامی ہوگئے ہیں۔ 2014ء میں بی جے پی اور ان کے حلیفوں کو 38% ووٹ ملے تھے۔ اس وقت ان کو 43% فیصد ووٹ کی ضرورت تھی کہ سیدھے سیدھے ان کا مقابلہ عظیم اتحاد سے ہے۔ اس کیلئے انھیں کچھ اور ووٹوں کی ضرورت تھی مگر گوشت کھانے والوں پر جبر و ظلم سے ان کی یہ ضرورت پوری نہیں ہوگی اور نہ ہی دادری کے قتل والے معاملے میں پرنب مکھرجی کی لائن پر چلنے سے کوئی فائدہ ہوگا۔

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں
دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...