مہاراشٹر کے ممبرا کوسہ نور باغ ہال میں سرسیدڈے کا انعقاد

sirsyed day

۱۹۸ یوم پیدائش پر اے ایم یو المنائی اسو سی ایشن آف مہاراشٹر کا اپنے بانی کو خراج عقیدت
نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
ممبرا: (معیشت نیوز) یہ ابر ہمیشہ برساہے، یہ ابر ہمیشہ برسے گا۔ یہ ہے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کےترانے کا وہ مصرعہ جو فارغین علی گڈھ کو ہمیشہ متحرک رکھتا ہے۔شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس کے ڈائرکٹر ڈاکٹر عبدالقادرکی صدرات میں منعقدہ پروگرام میں جہاں اس بات کی کوشش کی گئی کہ مہاراشٹر میں ملی علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کی زمین پر جہاں جلد از جلد کام شروع کروانے کے لیے حکومت پر زور دیا جائے وہیں اس عزم کا بھی اعادہ کیا گیا کہ فارغین علی گڈھ کو اگر روزگار سے متعلق مسائل پیش آرہے ہوں تو ان کی رہنمائی کے لیے بھی ممبئی میں سینٹر قائم کیا جائے۔

ss2 ssd1 sss1sssss1

واضح رہے کہ سرسید احمد خاں برصغیرمیں مسلم نشاط ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے جنہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا. دراصل سر سید احمد خان انیسیوں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھےجنہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انہیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی۔مہمان خصوصی ڈاکٹر عبد القادر نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ” سرسید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اسوقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز اُن کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے ۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالے پانی بھیجے جاتے تھے۔ اُن کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ اُنکی جائدادیں ضبط کر لیں گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ ….. وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان ” سائیس ،خانساماں، خدمتگار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے۔‘‘انہوں نے تمام لوگوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’سر سید نے کسی ایک کی تخصیص نہیں کہ کہ لڑکوں کو پڑھایا جائے اور لڑکیوں کو چھوڑ دیا جائے بلکہ انہوں نے بچے اوربچیوں کو اسلامی ماحول میں علوم کی دسترس کا سبق پڑھایا۔یقیناً جب تک سماج کے تمام لوگ جد و جہس نہیں کریں گے اس وقت تک ہم بہتری کی امید نہیں کرسکتے‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سرسید كا نقطہ نظر تھا كہ مسلم قوم كی ترقی كی راہ تعلیم كی مدد سے ہی ہموار كی جا سكتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں كو مشورہ دیا كہ وہ جدید تعلیم حاصل كریں اوار دوسری اقوام كے شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔ انہوں نے محض مشورہ ہی نہیں دیا بلكہ مسلمانوں كے لیے جدید علوم كے حصول كی سہولتیں بھی فراہم كرنے كی پوری كوشش كی۔ انہوںنے سائنس جدید ادب اور معاشرتی علوم كی طرف مسلمانوں كو راغب كیا۔ انہوںنے انگریزی كی تعلیم كو مسلمانوں كی كامیابی كے لیے زینہ قرار دیا تاكہ وہ ہندوئوں كے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل كر سكیں۔
1859 میں سرسید نے مراد آباد اور 1862ئ میں غازی پور میں مدرسے قائم كیے۔ ان مدرسو ں میں فارسی كے علاوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پڑھانے كا بندوبست بھی كیا گیا۔
1875ء میں انہوں نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی سكول كی بنیاد ركھی جو بعد ازاں ایم ۔اے۔ او كالج اور آپ كی وفات كے بعد 1920ء میں یونیورسٹی كا درجہ اختیار كر گیا۔ ان اداروں میں انہوں نے آرچ بولڈ آرنلڈ اور موریسن جیسے انگریز اساتذہ كی خدمات حاصل كیں۔
1863ء میں غازی پور میں سر سید نے سائنٹفك سوسائٹی كے نام سے ایك ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے كے قیام كا مقصد مغربی زبانوں میں لكھی گئیں كتب كے اردو تراجم كرانا تھا۔ بعد ازاں 1876ء میں سوسائٹی كے دفاتر علی گڑھ میں منتقل كر دیے گئے۔ سر سید نے نئی نسل كو انگریزی زبان سیكھنے كی ترغیب دی تاكہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہو سكے۔ یوں دیھکتے ہی دیكھتے مغربی ادب سائنس اور دیگر علوم كا بہت سا سرمایہ اردو زبان میں منتقل ہو گیا۔ سوسائٹی كی خدمات كی بدولت اردو زبان كو بہت ترقی نصیب ہوئ ۔
1886ئ میں سر سید احمد خاں نے محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے نام سے ایك ادارے كی گنیاد ركھی گئی۔ مسلم قوم كی تعلیمی ضرورتون كے لیے قوم كی فراہمی میں اس ادارے نے بڑی مدد دی اور كانفرنس كی كاركردگی سے متاثر ہو كر مختلف شخصیات نے اپنے اپنے علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں كا آغاز كیا۔ لاہور میں اسلامیہ كالج كراچی میں سندھ مسلم مدرسہ پشاور میں اسلامیہ كالج اور كانپور میں حلیم كالج كی بنیاد ركھی۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس مسلمانوں كے سیاسی ثقافتی معاشی اور معاشرت حقوق كے تحفظ كے لیے بھی كوشاں رہی۔
سرسید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلا راجہ رم موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ لیکن سب سے بڑا واقعہ سکوت دلی کا ہی ہے۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجہ یار دعمل تو مایوسی ، پژمردگی اور ناامیدی تھا تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پارہا تھا ۔ اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا چنا نچہ اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔ ابتداءمیں سرسیداحمد خان نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لئے مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے۔ اور ہندوئوں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن ورینکلر یونیورسٹی کی تجویز پر ہندوئوں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا، اس واقعے نے سرسید احمد خان کی فکری جہت کو تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھااور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود میں مصروف ہوگئے۔ اس مقصد کے لئے کالج کا قیام عمل میں لایا گیا رسالے نکالے گئے تاکہ مسلمانوں کے ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جائے۔ 1869 ءمیں سرسید احمد خان کوانگلستان جانے کا موقع ملا اس یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ہندوستان میں بھی کیمرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ وہاں کے اخبارات سپکٹیٹر ، اور گارڈین سے متاثر ہو کر ۔ سرسید نے تعلیمی درسگاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لئے اسی قسم کااخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا ۔ اور ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ کا اجراءاس ارادے کی تکمیل تھا۔ اس رسالے نے سرسید کے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں اعلیٰ خدمات سر انجام دیں. علی گڑھ تحریک ایک بہت بڑی فکری اور ادبی تحریک تھی.
سر سید احمد خاں نے 1875ء میں ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ کی داغ بیل ڈالی جسے 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اور آج اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا:
”میں ہندوستانیوں کی ایسی تعلیم چاہتا ہوں کہ اس کے ذریعہ ان کو اپنے حقوق حاصل ہونے کی قدرت ہو جائے، اگرگورنمنٹ نے ہمارے کچھ حقوق اب تک نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہو تو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طوعاً و کرہاً ہم کو دلا دے گی۔ـ‘‘
واضح رہے کہ انتظامیہ میں محمد خالد،تنویر عالم،سرور انصاری،یسین مومن،آصف خان وغیرہم کے نام اہم ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *