
تعلیمی اداروں میں اردو کی تعلیم: کیوں اور کیسے؟
ـــــــ محمد عارف اقبال
ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی
’’تعلیمی اداروں میں اردو کی تعلیم: کیوں اور کیسے؟‘‘ یہ موضوع ایک مستقل عنوان کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی سماج یا ملک میں تعلیمی ادارے ہی زبان و ادب کی آبیاری میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں میں بالخصوص پرائمری سے ہائر سکنڈری اسکولوں اور یونیورسٹی کی سطح پر اردو کی تعلیم کا گراف کس حد تک انحطاط پذیر ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر تو کسی نہ کسی طور اردو کے شعبے قائم ہیں لیکن سرکاری اسکولوں میں اردو کی تعلیم کی صورتِ حال ناگفتہ بہ ہے حتیٰ کہ انتہائی قلیل تعداد میں قائم اردو میڈیم اسکولوں میں بھی طلبا کا معیار بے حد پست ہے۔ نئی نسل کی اکثریت اردو زبان و ادب سے لاتعلق ہوچکی ہے۔ یہ صورتِ حال کیوں پیدا ہوئی، بنیادی طور پر اس کے دو ہی اسباب محسوس ہوتے ہیں۔
(۱) حکومتِ ہند نے اردو زبان کو ابتدا ہی سے دستور میں علاقائی زبانوں میں شامل کردیا اور ہندی کو دفتری زبان (Official Language) بناکر اسے قومی زبان ہونے کا تاثر دیا۔ حالانکہ آزادی کے بعد اردو کو ہندی زبان کے مساوی ملکی سطح پر دوسرے درجے پر رکھنا چاہیے تھا کیونکہ تاریخی و تہذیبی طور پر اردو اس کی مستحق تھی۔ اگر ایسا کیا جاتا تو تعلیمی اداروں میں اردو کے ساتھ ظالمانہ اور بے رحمانہ سلوک نہیں ہوتا۔
(۲) دوسری بنیادی وجہ ہندوستان کے بیشتر اردو گھرانوں سے اردو کا رفتہ رفتہ اخراج ہے۔ اردو کو گھروں سے اس لیے نکالنے کی کوشش کی گئی کہ اردو گھرانوں کو یہ یقین ہونے لگا کہ اگر ان کے بچے اردو کے چکر میں پڑگئے تو ان کا کریئر تباہ ہوجائے گا۔ اس معاملے میں وہ کتنے غلط تھے اور کتنے درست اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔ لیکن بیشتر اردو گھرانوں کی بے حسی اور بے مروتی یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ زندگی کے نشیب و فراز میں انتہائی موقع پرست واقع ہوئے۔ ایسے لوگ خود پسند ہی نہیں بلکہ خود غرض بھی ہوتے ہیں۔ ان کے جذبات و احساسات مردہ ہوجاتے ہیں اور ملکی و سماجی معاملات میں بھی وہ صرف ’’اپنی بقا‘‘ کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہیں زبان و ادب یا سماج میں پنپنے والی برائیوں سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کی نسل کو جب اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو اس نسل کے افراد ہر جگہ صرف موقع پرستی کی تاک میں رہتے ہیں۔
ان حالات کے باوجود ملک میں ایسے چند اردو گھرانے بھی موجود رہے ہیں جنہوں نے حق کے ساتھ کبھی سمجھوتے کی روِش اختیار نہیں کی۔ دراصل یہی لوگ ’’محبانِ اردو‘‘ کی صف میں کھڑے ہیں۔ یہ اردو بولتے ہیں، اردو لکھتے ہیں اور دنیا کی دیگر زبانوں سے بھی استفادہ کرتے ہوئے ملک و سماج میں مثبت رول ادا کرتے ہیں۔ ان کے عزم کو دیکھتے ہوئے اگرچہ اس حلقے میں چند منافق بھی داخل ہوجاتے ہیں جو اردو سے فائدہ تو اٹھاتے ہیں لیکن اردو کی حقیقی ترقی کے لیے جدوجہد نہیں کرتے۔ لیکن ان کی منافقت محبانِ اردو پر جلد ہی واضح ہوجاتی ہے۔ ’’محبانِ اردو‘‘ کی روِش یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے تعلیمی اداروں میں اردو کی تدریس کو یقینی بنائیں۔ اس کام کی دو سطحیں ہیں:
اول سماجی سطح، دوم قانونی سطح۔
دونوں سطحیں متوازی (Parallel) ہیں۔ یعنی سماج میں اردو کی تعلیم کی بیداری مہم کو تحریکی شکل دی جائے اور اس کے ساتھ ہی نئی نسل کے والدین کو تیار کیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم لازمی طور پر دیں۔ اس سلسلے میں حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے ٹیوٹر رکھنے سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی قانونی سطح پر سب سے پہلے اردو کو علاقائی زبانوں سے الگ کرنے کی بات کی جائے اور اسے ہندی کے مساوی دستوری طور پر ہندی کے بعد دوسرا درجہ دلانے کی کوشش کی جائے۔ یہ کام ایک تحریک کا متقاضی ہے۔ بلا تفریق مذہب و ملت اس مقصد کے حصول کے لیے احتجاج کی تمام مثبت صورت اختیار کی جائے۔ ہندی والوں کو یہ بات باور کرائی جائے کہ اردو ہندی کی بہن ہے نہ کہ حریف۔ ہندی والوں کی یہ غلط فہمی بھی دور کی جائے کہ اردو کی وجہ سے ہندی پچھڑ جائے گی۔ یہ ایک ایسا مفروضہ ہے جس نے مٹھی بھر ہندی والوں کو اردو مخالف بنادیا ہے۔ لہٰذا وہ تعصب کی عینک اتار کر حقائق کی سطح پر غور و فکر کریں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ (UNO) میں ہندی اینڈ اردو کے سنگم کو تیسری زبان کاد رجہ دیا گیا ہے۔ واضح ہو کہ ملک میں ریاستی سطح پر اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کی جو کوشش کی جارہی ہے اس کا تعلق محض سیاسی طور پر فائدہ اٹھانا ہے۔ ’’محبانِ اردو‘‘ اس تلخ تجربے سے دوچار ہیں لہٰذا اس طرح کی ریاستی کوشش بے معنی اور لاحاصل ہے۔
اس لیے یہ بات ناگزیر ہے کہ دستوری طور پر ہی اردو کو ملک میں صحیح مقام مل سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہندی کو بھی فروغ و استحکام حاصل ہوگا۔ لہٰذا دانشوروں اور اہل علم کو اس کاز کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے تاکہ اردو کے حق کو بحال کرنے کے لیے فی الفور سنجیدہ کوشش کا آغاز کیا جاسکے اور لائحہ عمل تیار کرکے اخلاص کے ساتھ اردو کے حق کی بحالی کی تحریک کو آگے بڑھایا جائے۔ پارلیمنٹ (لوک سبھا و راجیہ سبھا) کے تمام ارکان کے لیے ایک ایسا میمورنڈم بھی تیار کیا جائے جس میں اس بات کی وضاحت کی جائے کہ ہندی کی ترقی اردو کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کا ادراک خود ہندی و سنسکرت کے اسکالرز کے ساتھ اردو کے حقیقی اسکالرز کو بھی ہے۔ اس بات پر بھی توجہ مرکوز کی جائے کہ دونوں زبانیں یعنی ہندی اور اردو اپنے الگ وجود اور شناخت کے ساتھ ہی ملک کی سالمیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔ ہندوستان کے تعلیمی اداروں میں ہندی- اردو کا خوش گوار تجربہ یقینی طور پر دنیا کے لیے مثال بن سکتا ہے۔