کیاتیسری ایٹمی جنگ کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں !

پیرس حملوں میں مارے گئے لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے انڈیا گیٹ میں کینڈل مارچ کا اہتمام کیا گیا
پیرس حملوں میں مارے گئے لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے انڈیا گیٹ میں کینڈل مارچ کا اہتمام کیا گیا

عالم نقوی
پوپ فرانسس نے کچھ سمجھ کر ہی یہ کہا ہے کہ پیرس حملہ ،تیسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے وہ تیسری جنگ جو شاید، خدا نخواستہ، ایٹمی بھی ہو ! نائین الیون سے لے کر 26/11تک کی حکمت عملی، MODUS OPERANDIاور ما بعد تباہ کاریوں کا ریکارڈ یہ بتاتاہے کہ کچھ اور بڑے انسانیت سوز اور عظیم تباہی کے واقعات کا خدانخواستہ آغاز ہونے والا ہے جن کے مجموعی اثرات پہلی اور دوسری جنگ عظیم اور ہیروشما اور ناگاساکی سے زیادہ ہولناک اور دہشت ناک ہوسکتے ہیں ۔
لیکن،آگے بڑھنے سے پہلے ہم ایک بات کی وضاحت کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم ا یک نا انصافی کو دوسری نا انصافی ،ایک ظلم کو دوسرے ظلم اور ایک دہشت گردی کو دوسری دہشت گردی کا جواز بنانے میں ہر گز یقین نہیں رکھتے ۔ مثلاً جب بی جے پی کو گجرات 2002کا آئینہ دکھایا جاتا ہے تو وہ دہلی 1984کو سامنے رکھ دیتے ہیں ۔13نومبر کی پیرس دہشت گردی اور 128بے گناہوں کی بغیر حق جان لے لینے کی مذمت کرنے اور اس سانحے پر اپنے شدید دکھ کااظہار کرنے کے لیے ہمارے پاس اسی طرح موزوں اور مناسب الفاظ کا قحط ہے جس طرح ایک سال قبل 16 دسمبر 2014کے پشاور سانحے کے بعد ہم نے محسوس کیا تھا جس میں 160معصوم بچے اور اور ان کے قابل احترام اساتذہ آناً فاناً موت کی نیند سلا دیے گئے تھے ! یا جس طرح صرف دو روز قبل لبنان کی راجدھانی بیروت میں ٹھیک اسی طرح کے دہشت گردانہ حملے میں 60 محترم نفوس انسانی کوزندگی سے با لجبر محروم کر دیا گیا تھا ۔ ابھی یہ بات تو یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ جن لوگوں پر پیرس حملے کا الزام ہے واقعتاً اور حقیقتاً وہی اس کے ذمہ دار بھی ہیں بلکہ غالب امکان یہی ہے کہ جس طرح نائین الیون کی واردات اُن لوگوں اور اس گروہ نے انجام نہیں دی تھی جس کا پرو پیگنڈا کیا گیا تھا اُسی طرح پیرس دہشت گردی بھی انہی لوگوں کا کام ہے جنہوں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے جڑواں میناروں کو ایک عظیم سازش کے تحت گرایا تھا تاکہ اس کو بہانہ بنا کر افغانستان اور عراق کو پتھروں کے زمانے میں پہنچایا جا سکے ۔ البتہ بیروت حملے کے ذمہ دار وہی تھے جو اس سے پہلے بھی عَلانیہ اسی قبیل کی دہشت گردی، جنت جانے کا پروانہ سمجھ کرانجام دیتے رہے ہیں ۔ ابھی تک صہیونی مغرب کے دعووںکے سوا اس بات کا کو ئی پختہ ثبوت نہیں ملا ہے کہ پیرس دہشت گردی داعش یا آئی ایس آئی ایس ہی کی برپا کردہ ہے ۔ان کا ریکارڈ کچھ سیریائی او ر عراقی عیسائیوں کے علاوہ ابھی تک صرف اُن مسلمانوں ہی کو مارنے کا ہے جن کو وہ بخیال خود نہ صرف یہ کہ کافر سمجھتے ہیں بلکہ انہیں قتل کرنے کو ،کارِ ثواب اور دخولِ جنت کا پروانہ بھی جانتے ہیں ۔وہ نوجوان خود کش بمبار اس کا ثبوت ہیں جو پاکستان ،سیریا ،عراق اور ابھی حال ہی میں سعودی عرب کی دومسجدوں میں ہو نے والے بم دھماکوں میں مارے گئے ہیں اور پاکستانی میڈیا میں شایع خبروں کے مطا بق ان مہلوکین کے والدین کو اپنے فرزند کے شہید ہونے کی مبارک باد دی گئی ہے !اس سلسلے میں ایک اندوہناک بات یہ ہے کہ گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں کے دوران اس تکفیری فتنے کی جڑیں عرب ممالک سے زیادہ بھارتی بر عظیم میں پیوست رہی ہیں ۔ قریب پچاس سال قبل ایک بھارتی شہر سے شایع ہونے والے ایک مقتدر دینی مجلے کے دو خاص نمبر اسی موضوع پر خود ہمارے ذخیرہ کتب میں موجود ہیں۔ ہم چونکہ ان تمام باتوں کے باوجود۔واعتصموا بحبل ا للہ جمیعاً وَلا تفرقوا ۔کی قرآنی بنیادوں پر اتحاد امت کے قائل ہیں اس لیے اس کی تشہیر درست نہیں سمجھتے ،کم از کم اخبار میں تو ہر گز نہیں ۔
اب جہاں تک پیرس دہشت گردی کا سوال ہے تو صرف نائن الیون ہی نہیں ،اُس میں اور ممبئی بم دھماکوں وغیرہ میں بھی بہت مماثلت ہے ۔ یہ دہشت گردوں کا اپنی تصویر ،نام پتہ ،آئی ڈی اور پاسپورٹ وغیرہ ساتھ لے کر چلنے کا ڈرامہ کوئی نیا نہیں ۔ دوسرے یہ کہ جنہیں سمندر کی گہرائیوں اور خلائے بسیط کی پہنائیوں کا پتہ چل جاتا ہو ا اور جنہوں نے نائن الیون کے بعد سے انہی کے بقول عالمی امکانی دہشت گردوں POTENTIAL TERRORISTSتک کی ایک طویل فہرست بنا رکھی ہو ،اور سیکیورٹی کا ایک ناقابل تصور جال پھیلا رکھا ہو انہیں وہی دہشت گرد کبھی نظر نہیں آتے جو اپنے ساتھ سیکڑوں ٹن دھماکہ خیز مواد اور درجنوں بم لیے پھرتے ہیں خواہ وہ کراچی سے ممبئی آئیں اور تاج محل ہوٹل کے اندر مع سازو سامان پہنچا دیے جائیں یا سیریا سے فرانس آئیں اوربے خوف وخطر کسی بھی طرح کی چکنگ کے بغیر اپنی ڈاڑھیوں اور بموں سمیت پیرس کے ایک دو نہیں متعدد بھیڑ بھاڑ والے مقامات کو بموں کے کھیل کا میدان بنادیں اور نہ صرف یہ کہ واردات سے پہلے کبھی پکڑے نہ جائیں بلکہ اپنے آئی ڈی اور پاسپورٹ کے ساتھ مریں تاکہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو قطعاً کوئی زحمت نہ اٹھانی پڑے !ہم یہ ڈرامے پندرہ سال سے دیکھ رہے ہیں ۔من خوب می شناسم پیران پارسا را !
ہم یہ نہیں بھول سکتے کہ فرانس صہیونی مقتدرہ کا رکن ہے اور یورپ کے جس ملک میں سب سے زیادہ مسلمان آباد ہیں وہ بھی فرانس ہے ۔ یورپ کے ۔یوریبیا۔ بن جانے کا خوف سب سے زیادہ فرانس ہی کو ستا رہا ہے ۔ عالمی صہیونیت اور دیسی یر قانیت سے وابستہ و پیوستہ میڈیا بھلے ہی آپ کو کچھ نہ بتائے لیکن یہ جو کچھ جمعرات کو بیروت میں اورجمعے کو پیرس میں ہوا ہے وہ عراق سیریا اور یمن میں روز ہو رہا ہے جمعرات سے اتوار تک صرف چار دنوں میں عراق سیریا اور یمن میں پیرس اور بیروت سے زیادہ بے گناہ لوگ بے جرم و خطا مارے جا چکے ہیں ۔ ہمارے لیے سب انسان برابر ہیں ۔ ہمارے لیے سب عیال ا للہ ہیں ! ہم اپنوں پر ظلم کرنا نہ چھوڑیں گے تو ہم غیروں کے ظلم سے بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے ۔ صہیونیت اور ان کے تمام نسل پرست دوست اور مددگار اس دنیا کا اصل ناسور ہیں ۔اور جراحی کے بغیر کوئی ناسور ٹھیک نہیں ہوتا ۔ ہمیں زندہ رہنا ہے تو مسلکی اور فقہی اختلافات کے باوجود متحد ہو کر اپنے مشترکہ دشمن کا مقابلہ کرنا ہی ہوگا، ورنہ تیار رہیے ہمیں ایک ایک کر کے مار لینے کی تمام تیاریاں مکمل ہیں
! فھل من مدکر ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *