کیا اوورسیز (مین پاورکنسلٹنسی) کا کاروبار ختم ہونے والا ہے؟

الصامت انٹر نیشنل کے مالک غلام پیش امام اور ممبر پارلیمنٹ حسین دلوائی وزیر خارجہ سشما سوراج کے ساتھ،ساتھ میں مین پاورکنسلٹنسی کا کام کرنے والے دیگر افراد(تصویر؛ معیشت)
الصامت انٹر نیشنل کے مالک غلام پیش امام اور ممبر پارلیمنٹ حسین دلوائی وزیر خارجہ سشما سوراج کے ساتھ،ساتھ میں مین پاورکنسلٹنسی کا کام کرنے والے دیگر افراد(تصویر؛ معیشت)

خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب میں ملازمت کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔حکومت ہند کے ساتھ بیرونی حکومتیں بھی اوورسیز کے کاروبار کو کارپوریٹ کے حوالے کرنا چاہتی ہیں جبکہ مین پاور کنسلٹنسی سے جڑے ایجنٹ حضرات کف افسوس ملنےکےسوا کسی اور اقدام کے لیے تیار نہیں ہیں ۔پیش ہے دانش ریاض کی رپورٹ

یہ گذشتہ نومبر کی بات ہے جب میں دہلی کے انڈیا اسلامک سینٹر میں اپنا چھٹا کل ہند تجارتی اجلاس منعقد کر رہا تھا ۔مختلف لوگوں سے ملاقاتوں کے دوران ایک شام وسیم غازی فلاحی نے اوورسیز کے کاروبار کا دکھڑا سنانا شروع کردیا ۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ہندوستان کی وزیر خارجہ سشما سوراج سے ملاقات کر کے ای مائیگریٹ کی جگہ دوبارہ سائی سسٹم کو شروع کرنے کی بات کہی تو انہوں نے معذوری کا اظہار کردیا ۔اب ہم اس بات سے پریشان ہیں کہ اگر یہ سسٹم جاری رہا تو ہمارے کاروبار کو نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔
اس ملاقات کے بعد مولانا آزاد نیشنل اوپن یونیورسٹی کے چانسلر اور وزیر اعظم نریندر مودی کے دست راست سمجھے جانے والے ظفر سریش والا سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔اورسیز کے کاروبار میں شامل تمام بڑے نام مختلف میٹنگوں میں شامل رہ کر اس بات کی کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح وزیر اعظم سے ملاقات ہو اور وہ اس معاملے کی سنگینی کو سمجھیں اور مثبت قدم اٹھائیں۔لیکن ہوٹل تاج ممبئی اور ہوٹل تاج دہلی کی میٹنگیں اس لیے ناکام ثابت ہوئیں کہ کاروبار سے جڑے افراد ہی معاملے کی سنگینی سے آگاہ نہیں تھے۔ انہیں اس بات کا ہی پتہ نہیں تھا کہ آخر اس کاروبار کے ساتھ بالائی سطح پر کیا ڈیل چل رہی ہے۔وہ ای مائیگریٹ اور سائی سسٹم کے پرپیچ دائوں میں پھنسے تھے جبکہ معاملہ اس سے کہیں اوپر پہنچ چکا تھا۔ایجنٹوں کے علاوہ اس شعبہ کے میڈیکل ڈاکٹروں کی نیندبھی اس وقت کھلی جب کویت نے Khadamat Integrated Solutions Private Limitedکے نام سے اپنا میڈیکل سینٹر شروع کیا اور اس کی فیس چو بیس ہزار روپئے کردی۔اب ڈاکٹروں نے بھی احتجاج شروع کردیا اور پھر معاملہ Maximum Retail Price کی وجہ سے قابو میں آیا ۔عدالت نے اس بات پر سرزنش کی کہ جس ٹیسٹ کی قیمت ادارہ چو بیس ہزار وصول رہا ہے وہ بالکل ناجائز ہے۔ Khadamat Integrated Solutions Private Limitedنے دوبارہ اپنی خدمت شروع کردی ہے اور ۱۲ ہزار روپئے فیس رکھی ہے۔جی سی سی سے الحاق شدہ میڈیکل سینٹرس کے مالکان اب اس بات سے پریشان ہیں کہ اگر تمام ممالک نے انہیں خطوط پر اپنا کاروبار شروع کردیا تو پھر ہمارا کیا ہوگا ۔کہیں ہمیں سڑکوں پر نہ آجانا پڑے۔
دراصل حکومت ہند کے ساتھ دیگر ممالک کی حکومتیں بھی مذکورہ کاروبار کو کارپوریٹ کے حوالے کرنا چاہتی ہیں۔سائی سسٹم کا خاتمہ اور ای ماگریٹ سسٹم کا آغاز دراصل اس کی طرف پہلا قدم تھا ۔کویت کی طرف سے میڈیکل سینٹر کاانعقاد اس سسٹم کو تقویت پہنچانے کی دوسری کوشش ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں مہینہ نومبر سے نہ تو کسی کمپنی کے پاس ویژا ہے اور نہ ہی کسی کےامیگریشن کےامکانات، لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کہ آخر اس کاروبار کو دوبارہ کیسے عروج پر لائیں۔الصامت انٹرنیشنل کے مالک غلام پیش امام جو انڈین پرسنل ایکسپورٹ پروموشن کونسل کے قانونیمشیر بھی ہیں معیشت ڈاٹ اِن سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’حکومت نے کیا سوچ کر اس کاروبار سے متعلق نئے قوانین لائے ہیں مجھے اس کا تو پتہ نہیں لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ہر برس ۱۲ لاکھ افراد بیرون ملک ملازمت کے لیے جاتے تھے جس سے ہندوستان کا ہی فائدہ ہوتا تھا اب یہ تعداد گھٹ کر آٹھ لاکھ پہنچ گئی ہےجب سے مسائل شروع ہوئے ہیں اس میں بتدریج کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔چونکہ جن لوگوں کو ہندوستان میںملازمت نہیں ملتی ہے وہی بیرون ملک جاتے ہیں لہذا اگر آٹھ لاکھ لوگوں کا ویلفیئر فنڈ بن جائے اور ہر فرد سے ہزار روپئے لیا جائےجو ناقابل واپسی ہو تو ۸۰کروڑ روپئے سالانہ سے حکومت ان لوگوں کے مسائل حل کرسکتی ہے جو بیرون ملک ملازمت کے دوران کسی پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہوں۔‘‘ غلام پیش امام ایک دوسرے مسئلے کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ایک مسئلہ منسٹری آف اوورسیز اور ایمبیسی کا ہے ۔جب منسٹری آف اوورسیز کا وجود ہے تو پھر ایمبیسی کو اسی کے تحت کام کرنا چاہئے اور خواہ مخواہ میں ٹانگ نہیں اڑانا چاہیے۔بعض مسئلے تو اس لیے بھی پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ایمبیسی منسٹری آف اوورسیزکے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتی ہے‘‘۔
انڈین پرسنل ایکسپورٹ پروموشن کونسل کے چیرمین عبد الکریم بھی اس بات سے پریشان ہیں کہ آخر معاملے کو کس طرح قابو میں لایا جائے۔بحیثیت ذمہ دار انہوں نے تمام میٹنگوں میں شرکت کی ہے لیکن معاملہ وہی ڈھاک کے تین پات والا ہی رہا ہے۔وہ کہتے ہیں ’’حالات اس قدر خراب ہیں کہ اب ایجنٹوں کے پاس کام نہیں ہے۔ای مائیگریٹ سسٹم نے کئی لوگوں کا ویژہ اکسپائر کروا دیا ہےجبکہ بیشتر کمپنیوں کو خسارے کا سودا کرنا پڑا ہے۔اب حالات یہ ہیں کہ جو کمپنیاں ہندوستان کو ویژہ دیتی تھیں وہ اب فلپائن کو دے رہی ہیں ۔خلیجی ممالک میں فلپائن کے ملازمین کی تعدادبڑھتی جارہی ہے جبکہ ہندوستانی ملازمین کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے‘‘۔
دراصل ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اوورسیز کے کاروبار میں گھریلوخادمائوں کا بھی بڑا زور تھا جب تک ہندوستان گھریلو خادمائوں کو مہیا کرواتا رہا اس وقت تک یہاں ویژہ بھیجنے والی کمپنیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا لیکن جب بیرون ملک سے شکایتیں موصول ہونے لگیں اور گھریلو خادمائوں کے استحصال کی خبر عام ہونے لگی تو پھر ایجنٹوں نے بھی گھریلو خادمائوں کو بھیجنے میں کم دلچسپی دکھانی شروع کردی۔نتیجہ یہ ہوا کہ فلپائن جیسے ممالک کو یہاں کے ایجنٹوں پر سبقت حاصل ہونے لگی۔المیہ یہ ہے کہ گھریلو خادمائوں کا مسئلہ اس وقت مزید تشویشناک صورت اختیار کرگیا جب سعودی حکومت کو ایک رپورٹ موصول ہوئی کہ گذشتہ برس تقریباً ۸۶ہزار گھریلو خادمائیں ملک چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔ اس خبر کے ساتھ ہی حکومت نے اس بات کی تفتیش شروع کروادی کہ آخر کیا معاملات تھے کہ انہیں ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔
مذکورہ کاروبار سے جڑے دہلی کے مشہور ایجنٹ نام شائع نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیںکہ ’’اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ گھریلو خادمائوں کی وجہ سے بھی ملک میں کم ویژہ آنا شروع ہوا ہے۔فلپائن ،بنگلہ دیش اور دیگر ممالک سے جب بڑی تعداد میں گھریلو خادمائیں خلیجی ممالک جانے لگیں تو کمپنیوں کو ہندوستان میں دلچسپی کم نظر آنے لگی۔اس پر طرہ یہ ہوا کہ ای مائیگریٹ سسٹم کی وجہ سے ویژہ اکسپائر ہونا شروع ہوا تو کمپنیوں کو ذہنی مشقتوں کے ساتھ مالی نقصانات بھی ہونے لگے لہذا انہوں نے جہاں ویژہ بھیجنے میں تساہلی سے کام لینا شروع کیا وہیں فوری ضرورت کے لیے دوسرے ممالک کا رخ کرنے لگے۔اب معاملہ یہ ہے کہ پہلے سے آئے ہوئے ویژوں کی مدت ختم ہوچکی ہےجبکہ نئے ویژے ایشو نہیں ہو رہے ہیں‘‘۔
جی سی سی میڈیکل سینٹر س(گامکا) کے ذمہ دار محمد نائک کہتے ہیں’’مرکزی حکومت مذکورہ کاروبار کو کارپوریٹ اداروں کو سونپ دینا چاہتی ہے یہی وجہ ہے کہ جی سی سی سے الحاق شدہ میڈیکل سینٹرس کے برخلاف نئے میڈیکل سینٹرس کو اپنے یہاں کام کی اجازت دے رہی ہے جو نہ صرف غریب ملازمین کا استحصال کر رہے ہیں بلکہ کئی ہزار گنا منافع کما رہے ہیں‘‘۔محمد نائک کہتے ہیں ’’میڈیکل ٹیسٹ کے اخراجات دیکھیں اور پھر خدمات کی فیس دیکھیں آپ کو بہتر اندازہ ہو جائے گا کہ یہ صرف کارپوریٹ کلچر کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔‘‘
تریویندرم کےڈاکٹر ناتھانی ڈائیگنوسٹک کلینک کے ذمہ دار ڈاکٹر محبوب ناتھانی معیشت ڈاٹ اِن سے محمد نائک کی گفتگو کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’کویت ملازمت کے لیے جانے والے افراد جب گامکا کے ذریعہ میڈیکل ٹیسٹ کرواتے تھے تو وہ محض چار ہزار دو سو میں ہو جاتا تھا لیکن خَدَمات انٹریگیٹ سالوشنس پرائیویٹ لیمیٹڈ KISPL))انہیںٹیسٹ کے لیے چوبیس ہزار روپئے لے رہاتھا ۔جب اس سلسلے میں شکایت درج کرائی گئی تو خَدَمات نے دو ماہ کے لیے اپنی خِدمات بند کردیں لیکن اب دوبارہ انہوں نے یہی سلسلہ شروع کردیا ہے‘‘۔ڈاکٹر ناتھانی کے مطابق’’المیہ تو یہ ہے کہ ان لوگوں کا اپنا کوئی میڈیکل ٹیسٹ سینٹر نہیں ہے بلکہ یہ لوگ آئوٹ سورس کر رہے ہیں۔لہذا جن لوگوں کے پاس سینٹر ہے ان کو چھوڑ کر نئی چیز کا آغاز لوگوں کو پریشان کر رہا ہے،دوسری اہم بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو گامکا کے سینٹرس نے’’اَن فِٹ ‘‘قرار دیتا تھا وہ خَدَمات کے یہاں’’فِٹ‘‘قرار پا رہاہےآخر یہ کس طرح کا ٹیسٹ کر رہے ہیںجو مریض کو بھی تندرست ثابت کرکے بیرون ملک بھیج دے رہے ہیں۔ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پورے ملک میں ہم سے بہتر میڈیکل ٹیسٹ سینٹر نہیں ہے۔لہذا جب اس طرح کے معاملات سامنے آتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ملی بھگت سے کام چل رہا ہے۔‘‘اس سوال کے جواب میں کہ حکومت اسے منظم کرکے کارپوریٹ شکل دے رہی ہے ،ڈاکٹرناتھانی کہتے ہیں’’ممکن ہے کہ اسے کارپوریٹ کی شکل دی جارہی ہو لیکن جو لوٹ مچی ہے اور غریبوں کو جس طرح لوٹا جا رہا ہے آخر اس پر کیوں نہیں توجہ دی جارہی ہے‘‘۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *