جی ہاں!مچھلیوں کو حرام چارہ کھلایا جارہا ہے

مچھلیوں کے چارہ کے کاروباری اکبر قریشی (تصویر معیشت )
مچھلیوں کے چارہ کے کاروباری اکبر قریشی (تصویر معیشت )

اسلام نے رزق حلال کی ستائش کی ہے اور اپنے پرستاروں سے کہا ہے کہ وہ حلال غذا کا ہی استعمال کریں ۔حرام غذا سے نہ صرف پرہیز کریں بلکہ حرام ذرائع کو مسدود کردیں اس کے بالمقابل شیطان ہمیشہ سے اس بات کی کوشش کرتا رہا ہے کہ وہ عالمِ انسانیت کو حرام چیزوں کاعادی بنائے اس سلسلے میں اس نے اپناپہلا حلیف یہودیوں کو بنایا ہے جوخود تو حلال غذا کے متلاشی ہوتے ہیں لیکن دوسروں کو حرام میں مبتلا کرنا عین کار ثواب سمجھتے ہیں۔اس وقت جبکہ تغذیہ بازار میں نئے پروڈکٹ عوام الناس کو اپنا گرویدہ بنا رہے ہیں وہیں گوشت و مچھلی کے کاروبار میں بھی شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔ مچھلی اورمرغیوں کو کھلایا جانے والاچارہ اب حلال ہے یا نہیں اس پر بحث شروع ہوگئی ہے ۔گوشت کے کاروباری اکبر قریشی جنہوں نے مچھلی کے حلال چارہ کا کاروبار شروع کیا ہے مچھلی کو پروسے جانے والے حرام چارہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مارکیٹ کے موجودہ حلال ٹرینڈ پر دانش ریاض سے گفتگو کرتے ہیں۔پیش ہیں اہم اقتباسات
سوال: آپ گوشت کے کاروباری رہے ہیں پھر مچھلی کے بزنس میں کیسے آگئے ،اپنا تعارف کراتے ہوئے اس کی وضاحت کریں؟
جواب: یقیناً آپ کا کہنا درست ہے کہ میں گوشت کا کاروباری رہا ہوں ۔میرا گھرانہ قریشی برادری سے تعلق رکھتا ہے میرے والد عبد الستار قریشی بھی گوشت کے کاروباری ہیں اپنے اس کاروبار کی وجہ سے ہمارا اکثر ملیشیا آناجانا لگا رہتا ہے۔ جب ہم نے ملیشیا کی مارکیٹ کا تجزیہ کیا تو محسوس ہوا کہ یہاں غذائی اشیاء خصوصاً گوشت اور مچھلی کے کاروبار پر چینی باشندوں کا قبضہ ہے۔چائنیز اپنے کاروبار میں حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتے بلکہ وہ زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے حرام غذائوں کو پھیلانے میں عار محسوس نہیں کرتے ۔لہذاجب ہم نے اس صورتحال کو دیکھا اور ملیشیا کے بعض کاروباری حضرات سے مشورہ کیا تو ہمیں محسوس ہوا کہ سب سے پہلے حلال فیشریز ((Halal Fisheries کی طرف توجہ دینا چاہئے ۔کیونکہ مچھلی تو حلال ہے لیکن اگر اسے حرام چارہ کھلایا جائے تو کیا وہ پھر بھی حلال ہی رہے گی؟ یہ ایک ایسا سوال تھا جس کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہم نے مختلف لوگوں سے رابطہ کیا ۔ملیشیا کے علماء کرام نے بھی ہم سےگذارش کی کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہاں کے مچھلیوںکے چارہ کے کاروبار پرکوئی اپنا بندہ موجود ہوتا جو کم از کم حلال فیشریز سپلائی کرتا۔ان کا کہنا یہ تھا کہ سپلائر مسلمان ہوں،امانت داری اور دیانت داری کے ساتھ وہ حلال فشیریز مہیا کراسکتے ہوں تو پھر ہم حکومتی سطح پر کوشش کریں گے کہ لوگ اس پروڈکٹ پر توجہ دیں ۔لہذا جب میں ہندوستان واپس آیا تو اس سلسلے کی تمام معلومات جمع کیںاس پر کام کیا اور اپنا تین پروڈکٹ مارکیٹ میں پیش کیا۔ اس کے لیے ہم نے جمعیۃ علماء مہاراشٹر سے آڈٹ کروایا،انہوں نے تمام پہلوئوں سے جائزہ لیا اور پھر حلال سرٹیفکیٹ دیا۔
سوال : آپ کے مطابق مچھلیاں جسے ہم حلال سمجھتے ہیں اب وہ بھی حرام کے زمرے میں شامل کی جارہی ہیں ۔آخر یہ صورتحال کیوں پیدا ہورہی ہے؟
جواب: دراصل پہلے مچھلیاں ،سمندروں،تالابوں،جھیل ،ندی نالوں سے پکڑی جاتی تھیں اور تاجر اسے بازار میں لاکر بیچا کرتے تھے ۔وہاں مچھلیوں کو الگ سے چارہ نہیں کھلایاجاتا تھا۔لیکن جب دنیا میں آبادی بڑھنے کا کہرام مچا تو ہر چیز میںاضافہ کرنے کی خواہش بھی جاگی۔اسی بہانے ترقی یافتہ ممالک نے فوڈ سکیوریٹی کے نام پر ایکوا کلچرکو فروغ دیالہذا ایکوا کلچر میں مختلف ممالک فارمنگ کے ذریعہ اپنا پروڈکٹ پیش کرتے ہیں۔لہذا جب ہم پرائیویٹ فارمنگ کرتے ہیں تو فیڈ دیتے ہیں۔اب یہ فیڈ حلال ہے یا حرام مسئلہ یہاں پر آکر پیدا ہوتا ہے۔
سوال : آپ نے بڑی دلچسپ بات بتائی کہ چارہ ( فیڈنگ) میں بھی نئے طریقے اختیار کئے جارہے ہیں اور ایک نئے سیکٹر کا چلن مارکیٹ میں عام ہورہا ہے۔ اس کی تفصیلات بھی بتائیں؟
جواب: یقیناًیہ ایک نیا سیکٹر ہے ۔دراصل اب تک ہمارا سوچنا یہ تھا کہ جانور کو اگر حلال طریقے سے ذبح کیا ہے تو وہی حلال ہے۔حالانکہ حلال کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ صحت کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔اگر چارےمیں ہم مردار کھلا رہے ہوں،سور کھلا رہے ہوں تو مچھلیاں انہیں کھاکر فربہ تو ہوجاتی ہیں اور ان کا وزن بھی بڑھ جاتا ہے لیکن وہ انسانی صحت کے اعتبار سے بھی مضر ثابت ہوتی ہیں جبکہ حرام کھاکر اسےحلال کے زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔یہ ہندوستان کی ہماری پہلی کمپنی ہے جو حلال فیشریز بنا رہی ہے ،فی الحال کوئی اور کمپنی نہیں ہے جو اس پر کام کر رہی ہو۔
سوال:ہندوستان میں آپ کی کمپنی کا پروڈکٹ کس طرح مارکیٹنگ کر رہا ہے؟
جواب: دراصل ہم نے اسے ہندوستانی مارکیٹ کے لیے بنایا ہی نہیں ہے تو ہم نے اس کی مارکیٹنگ بھی یہاں نہیں کی ہے۔حالانکہ جب آپ بھیونڈی ،تھانے اور رائے گڈھ علاقے سے آگے جائیں گے اور مختلف فارمنگ اداروں کا جائزہ لیں گے تو دیکھیں گے کہ وہ مچھلیوں کو مری ہوئی مرغیاںیا مرغیوں کے گوشت کو فروخت کرکے چکن فروش کے یہاں جو بقیہ حصہ بچ جاتا ہے اسے لے جاتے ہیں اور پھر اس کو گرائڈرمیں قیمہ بناکر مچھلیوں کو کھلاتے ہیں۔وہ لوگ بہتر چارہ کا استعمال نہیں کرتے۔ چونکہ ہندوستان میں ایک عام فضا یہ ہے کہ چکن فروش،یا قصائی مسلمان ہی ہوتا ہے جو حلال طریقے سے ذبح کرکے ہی فروخت کرتا ہے تو لوگ اس کا لحاظ کرتے ہوئے بغیر کسی سرٹیفکیٹ کے حلال سمجھ کر کھاتے ہیںجبکہ دوسرے ممالک میں فروزن چکن کا تصور عام ہے اور اس کاروبار میں ہر مذہب کے لوگ شامل ہیں تو وہاں حلال و حرام کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم نے باہر ممالک پر اپنی نظر مرکوز رکھی ہے۔
سوال: آپ کے پروڈکٹ کوبیرونی ممالک کے مارکیٹ میں کتنا پسند کیا جارہا ہے؟
جواب: الحمد للہ بہت اچھا رزلٹ دیکھنے کو مل رہا ہے۔سعودی فوڈ اتھاریٹی سے بات ہوئی ہے وہ اسے لینے کے لیے تیار ہیں،سوڈان حکومت میں لوگ ہیں جو اسے پسند کر رہے ہیں،نائجیریاکے لئے مجھے اسی ایکسپو میں آرڈر ملا ہے،کینیا ،عمان اور انڈونیشیا کے اہلکاروں کے ساتھ بات چل رہی ہے۔دراصل اسلامی ممالک کایہ کہنا ہے کہ اب تک ہم اسے یوروپ سے لیتے تھے لیکن اگر آپ حلال فیشریز دیتے ہیں تو پھر ہم آپ سے گفتگو کریں گے۔لہذا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کی پذیرائی ہو رہی ہے ۔ملیشیاوزارت زراعت میںہمارا رجسٹریشن ہوچکا ہے اور آئندہ ماہ سے ہم ان کے آرڈر کو مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ہم بہتر نتائج اخذ کر رہے ہیں۔
سوال : آپ اس سلسلے میں مزید کن چیزوں کا لحاظ کر رہے ہیں؟
جواب: چونکہ ہم مسلمان ہیں تو ہم یہ جانتے ہیں کہ حلال کھانے کے کیا فوائد ہیں ۔یہ ہماری ایمانی ذمہ داری بھی ہے صرف ایک تجارت نہیں ہے۔یہ دوسروں کے لیے تجارت تو ہوسکتا ہے لیکن ہمارے لیے تجارت کے ساتھ ایمان کا حصہ بھی ہے۔لہذا ہم زیادہ سے زیادہ مسلم ملازمین رکھنا چاہتے ہیں۔چونکہ ہمارا پورا نظام آٹومیٹک ہے لہذا ہم اس بات کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی ایسی چیز نہ ہو جو غیر اسلامی ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *