چنئی کی حالت ہنوزابترالبتہ لوگوں نے راحت کی سانس لی!

کافی دنوں بعد نظر آیا سورج، البتہ راحت رسانی کا کام ابھی بھی چیلنج بناہوا ہے،مسجدوں سے ہندو اور مسلمانوں کے لیےریلیف کا کام جاری!
منصور عالم عرفانی برائے معیشت ڈاٹ اِن
چنئی سے معیشت ڈاٹ ان کی خصوصی رپورٹ!
چنئی۔(معیشت نیوز) قدرت کی مار جھیل رہا تمل ناڈو کی راجدھانی چنئی اب دھیرے دھیرے پٹری پر لوٹ رہی ہے، پچھلے دو دنوں سے برسات تھم جانے کی وجہ سے راحت بچائو کے کام میں تیزی آئی ہے، مہینوں بعد کچھ دیر کے لئے سورج نے اپنا دیدار کرایا، جس سے لوگوں میں خوشی کا ماحول نظر آیا ، لمبی دوری کی کچھ ٹرینوں کو چالو کر دیا گیا ہے، جبکہ ابھی بھی بہت ساری ٹرینوں کو منسوخی پر رکھا گیا ہے، سٹی کے اندر بھی لوکل ٹرینوں کو ہری جھنڈی دکھا دی گئی ہے، ایئر پورٹ سے بھی جہازیں اڑانیں بھرنے لگی ہیں، مگر رات کے اڑان پر ابھی بھی احتیاط برتا جا رہا ہے، سٹی کے اندر کئی روٹ پر بس سروس شروع کر دی گئی ہے، جبکہ کئی علاقوں میں پل اور روڈ ٹوٹ جانے کی وجہ سے ابھی بس شروع نہیں ہو پائی ہے، سب سے زیادہ تباہ ہونے والے علاقے تامبرم ، پلا ورم ، ویلی واکم، اڈیار ، تانگل وغیرہ میں ابھی بھی بس سروس شروع ہونا باقی ہے، بجلی کی سپلائی بھی تقریبا ۸۰ فیصد علاقوں میں شروع کر دی گئی ہے، مگر ان سب کے باوجود راحت بچائوآخری سرے تک لے جانے کا کام ابھی بھی مشکل بھرا ہے، اور انتظامیہ کے لئے ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہا ہے، تامبرم کے آخری علاقے کے تقریبا ً۶ سے سات گائوں تک اب تک راحت کا نہ کوئی سامان پہونچا ہے ، اور نہ دوا نہ کھانا پانی۔معیشت ڈاٹ اِن کو جب وہاں سے کچھ لوگوں نے مذکورہ اطلاع دی تو نمائندہ نے کنٹرول روم کو فورا اس کی جانکاری دی ہے۔

زیادہ تر علاقوں میںپانی کم ہوا ہے ، مگر ابھی بھی گھر واپسی کو کوئی تیار نہیں ہے، بہت سارے ایسے علاقے ہیں جہاں بستی کی بستی خالی ہے، گھر میں تالے پڑے ہیں، لوگ رفیوجی کیمپ میں رہنے کوتیار ہیں ، مگر گھر واپسی کو نہیں!
تعریف کرنی ہوگی یہاں کے پرائیوٹ این جی اوز، پرائیوٹ ٹرسٹ اور مسلم وغیر مسلم تنظیموں کی، جنہوں نے ہر طرف راحت بچائو کا کام اپنے سر اٹھا رکھا ہے، حکومتی انتظام ان کے مقابل میں بہت کم دکھائی دے رہا ہے۔ آناً فانا ًمیں تنظیموں نے جو راحت کا کام کرنا شروع کیا ہے اس سے لاکھوں لوگوں کی جانیں بچی ہیں،چنئی کے تمام مسجدوں میں ایک کمیٹی یا ایک ٹرسٹ ہوتا ہے ، بغیر کمیٹی یا بغیر ٹرسٹ کے کو ئی مسجد یہاں نہیں ہوتی، میں نے جہاں تک سروے کیا، جہاں تک معلومات حاصل کی ہیں، وہاں تک معلوم ہوا کہ چنئی کی ہر ایک مسجد کی جانب سے متاثرین کے لئے مختلف علاقوں میں ہر روز دن اور رات کا کھاناسپلائی ہو رہا ہے، اس کے علاوہ کپڑے، کمبل ، اور مچھردانی وغیرہ بھی بڑی تعداد میں مسجدوں اور مسلم تنظیموں کے ذریعہ تقسیم کیا جا رہا ہے، تمل ناڈو کے وہ اضلاع جو بارش سے متاثر نہیں ہواہے ، ایسے ضلعوں سے ٹرکوں میں بھر کر کھانے پینے اور کپڑے چنئی متاثرین کے لئے بھیجے جا رہے ہیں، ستائش کی بات یہ ہے کہ تمام ٹرسٹ اور تنظیمیں آپس میں زبردست تال میل اور روابط کے ساتھ راحت بچائوکے کام کو آگے بڑھا رہے ہیں، آنا فانا میں ایک ویب سائٹ لانچ کی گئی ہے، جس میں ہر طرح کی جانکاری رکھی گئی ہے، اس کو ایم ایس شریف صاحب نے لانچ کیا ہے، کس علاقے میں مدد کی ضرورت ہے، کہاں رضا کار چاہئیں، کہاں کے لوگ اب بھی راحت کے منتظر ہیں، کہاں کس جگہ میں ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ ہر طرح کے ایمرجنسی نمبرات ڈالے گئے ہیں، جس سے پورے چنئی کے راحت بچائو کے کام پر تجزیہ کرنے میں کافی آسانی ہو رہی ہے، آپ بھی اس ویب سائٹ کے ذریعہ حالات کا جائزہ لے سکتے ہیں،http://tnfloods.com/ جمیعۃ علماء کی جانب سے بھی بڑے پیمانے پر راحت رسانی کا کام جاری ہے.
شہر میں سرکاری عملے سے زیادہ رضا کار نظر آرہے ہیں جو ٹریفک اور راحت رسانی کو کنٹرول کر رہے ہیں،کیا ہندو کیا مسلم، مسجدوں کو ہر ایک کے لئے کھول دیا گیا ہے، جبکہ مندروں کو بھی متاثرین کے لئے کھلا رکھا گیا ہے،جگہ جگہ دیگ میں کھانا تیار کرکے مسجدوں اور مندروں کے اندر ٹہرے لوگوں کو بھی کھلایا جا رہا ہے.
جن علاقوں میں پانی کم ہوا ہے وہاں مہا ماری کا خطرہ پھیلا ہوا ہے، سرکار کی طرف سے ہر طرف لوگوں کو بیماری سے محتاط کیا جارہا ہے، اور تمام علاقوں میں بلیچنگ پائوڈر کا چھڑکائو کیا جا رہا ہے تاکہ بیماری پھیلنے سے روکا جائے،سرکاری ڈاکٹروں کے علاوہ بڑی تعداد میں پرائیویٹ ڈاکٹر رضاکارانہ طور پر کیمپ لگا کر لوگوں کا علاج کر رہے ہیں، تمل ناڈوکے علاوہ دوسری ریاستوں سے بھی ڈاکٹروں کی بڑی ٹیم چنئی میں کام کر رہی ہے، تاکہ شہر کو مہاماری سے روکا جائے،اور ملیریا ٹائیفائڈ جیسی بیماریوں سے لوگوں کو دور رکھا جائے،
اس کے علاوہ چنئی پر جو قدرت کی مار پڑی ہے اس سے ابھرنے میں ابھی سالوں لگیں گے، کئی جگہوں پر اوور بریج پوری طرح سے ٹوٹ چکا ہے ، جسکو بنانا ، اور ایک علاقے کو دوسرے علاقے سے جوڑنا بہت آسان نہیں ہوگا، پورے شہر میں میٹرو کا کام بڑی تیزی سے چل رہا تھا، جگہ جگہ میٹرو کے کھدائی کی گئی تھی، اور انڈر گرائونڈ کے لئے کام چل رہا تھا ، ان جگہوں کا حال نہ صرف قابل دید ہے بلکہ درس عبرت دے رہا ہے،ایسے تمام انڈر گرائونڈ تالاب میں تبدیل ہوچکے ہیں ، اور وہ پانی آس پاس کے بلڈنگوں میں زبردست طریقے سے سرایت کر چکا ہے، جس سے پوری کی پوری منزل کو دھنس جانے کا خطرہ منڈلانے لگا ہے، اس سے نمٹ پانا مشکل ہی نہیں نا ممکن سا نظر آرہا ہے، اس کے علاوہ اب سے دوبارہ میٹرو کا کام شروع کرنے میںکافی عرصہ لگ سکتا ہے،جس کی وجہ سے سڑک کی نئی تعمیر ہونا مشکل ہے ، کئی طرح کے آلام و مصیبت ابھی اور بھی چنئی کے لئے تیار کھڑے ہیں، جس پر وقت رہتے قابو پانا اشد ضروری ہے، جتنا نقصان کا تخمینہ ابھی لگایا جا رہا ہے، اس سے کئی گنا اور بھی بڑھ سکتا ہے۔