
امریکی وائٹ ہاؤس کی جانب ٹرمپ کے بیان کا سخت نوٹس

امریکہ کے صیہونی صدارتی امیدوار ٹرمپ نے مسلمانوں کا امریکا داخلہ ’مکمل طور پر‘ بند کئے جانے کی وکالت کی
امریکی وائٹ ہاؤس نے ریپبلیکن پارٹی کے سرکردہ صیہونی صدارتی امیدوار، ڈونالڈ ٹرمپ کے مسلمانوں سے متعلق بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے بیانات دیکر وہ صدارت کے منصب کے لئے خود کو نااہل ثابت کر رہے ہیں۔
ترجمان وائٹ ہاؤس جوش ارنسٹ کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی صدارتی امیدوار کے طور پر مہم میں ان کے خطاب تاریخ پر گرد ڈال رہے ہیں ان کے بیانات ماحول کو زہرناک اور گزند پہنچانے کا باعث ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ریپبلیکن پارٹی کے جن ارکان نے ٹرمپ کی بطور صدارتی امیدوار توثیق کی تھی انہیں چاہئے کہ وہ فی الفور ان سے برات کا اعلان کریں۔ ٹرمپ کے بیان کے بعد، وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر اس کی مذمت کی، اور اِسے “امریکی اقدار کی کھلی خلاف ورزی” قرار دیا۔
خارجہ امور کے بارے میں صدر اوباما کے اعلیٰ مشیر، بین رہوڈز نے سی این این کو بتایا کہ ’ہمارے بِل آف رائٹس میں مذہب کی آزادی کی حرمت‘ پر زور دیا گیا ہے۔
ادھر مصر کے معروف اسلامی قانونی ادارے، ’دار الافتا‘ نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ، ’اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اِس قسم کا مخاصمانہ انداز امریکی معاشرے میں مسلمانوں کے خلاف تناؤ میں اضافہ کرے گا، جہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 80 لاکھ ہے، جو پُرامن اور وفادار امریکی شہری ہیں۔
یاد رہے کہ ریپبلیکن پارٹی کے سرکردہ صدارتی امیدوار، ڈونالڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جب تک قوم کے رہنما طے کریں کہ ’در اصل معاملہ کیا ہے‘، امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ ’مکمل طور پر‘ بند کیا جائے۔ ٹرمپ نے الزام لگایا کہ رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ ’مسلمان آبادی کا بڑا حصہ امریکیوں سے نفرت کرتا ہے‘۔
ٹرمپ نے پیر کے روز کہا کہ ’اُس وقت تک کہ ہم اس مسئلے کو سمجھنے اور طے کرنے میں کامیاب ہوں کہ اس سے کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، ہمارے ملک کو جہاد میں یقین رکھنے والے افراد کی جانب سے درپیش مہلک حملوں کا شکار نہیں بننا چاہئے، جو کسی دلیل کو نہیں مانتے اور جنھیں انسانی زندگی کی حرمت کا پتا نہیں ہے‘۔
مسلمانوں کے خلاف ٹرمپ کے سخت بیانات نئی بات نہیں ہیں انہیں صیہونی مقتدرہ کا اہم حلیف سمجھا جاتا ہے وہ اپنی گفتگو میں اسرائیلی دہشت گردی کا جائز سمجھتے ہیں جبکہ معصوم فلسطینی بچوں کے قتل عام سے انہیں خوشی حاصل ہوتی ہے ۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ٹرمپ خلیجی ممالک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور مختلف عرب شیوخ کے ساتھ ان کے تجارتی تعلقات ہیں۔ اس سے قبل بھی اُنھوں نے مبینہ طور پر حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ مساجد پر نگرانی کی جائے؛ جب کہ اُنھوں نے اپنی پچھلی تجویز کی تردید نہیں کی جس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ امریکہ میں مسلمانوں کے ناموں کا ایک ڈیٹابیس ہونا چاہئے، جس میں اُن کے ناموں کا اندراج کیا جائے۔
تاہم، پیر کا بیان اُس سے بھی سخت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکی ارب پتی عام طور پر مسلمانوں کے عقیدے کے بارے میں سخت بیان بازی کرتے ہیں، جن میں پیرس اور کیلی فورنیا کے شہر سان برنارڈینو کے دہشت گرد حملوں کے بعد اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ٹرمپ کے بیان سے ایک ہی روز قبل ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے قوم سے خطاب میں صدر براک اوباما نے امریکیوں پر زور دیا کہ دہشت گرد حملوں کے تناظر میں مسلمانوں کے خلاف کچھ نہ کہا جائے۔