داعش سے تجارت، بلال اردگان نے روسی الزامات مسترد کردیے
انقرہ (معیشت نیوز ) صیہونی میڈیا ان حکومتوں کو بدنام کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے جو اس وقت عالم اسلام کے کمان کو سنبھالنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان دنوں صیہونی میڈیا اپنے عالمی حواریوں کے ساتھ ترکی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہتی ہے ۔ صیہونی مقتدرہ کا اہم حلیف روس بھی اسی اسلام دشمنی میں ترکی حکومت کے پیچھے پڑا ہے ۔لیکن ترک صدر رجب طیب اردگان کے صاحبزادے بلال نے روس کے ان الزامات کی تردید کردی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ ترک صدر اور ان کے خاندان کا شام اور عراق میں داعش کے زیر قبضہ علاقوں سے غیر قانونی طور پر اسمگل کیے جانے والے تیل کی تجارت سے تعلق ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ان کا داعش کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تجارتی تعلق نہیں ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق انھوں نے ایک اطالوی اخبار کے ساتھ انٹرویو میں کہا ہے کہ ہمارے دفاتر استنبول میں قائم ہیں۔ہم بحر متوسطہ ،شام یا عراق میں کوئی کاروبار نہیں کرتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ داعش میرے ملک کے دشمن ہیں،داعش نے میرے دین کے نام پر بٹا لگایا ہے،وہ اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں اور میں تو انھیں مسلمان بھی نہیں سمجھتا ہوں۔
بلال اردگان ترک صدر کے چار بچوں میں سے ایک ہیں۔ان کے شپنگ اور میری ٹائم اثاثے ہیں۔ان کی دوسرے فرموں کے ساتھ شراکت داری ہے۔ان کی کمپنی ان فرموں کے ساتھ مل کر متعدد آئیل ٹینکر چلاتی ہے۔تاہم انھوں نے کسی قسم کی آپریشنل شپنگ سرگرمیوں سے انکار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی نے ایک روسی صارف کے لیےدریائی ٹینکر ٹھیکے پر تیار کیے تھے لیکن وہ خود بحری جہازوں کو نہیں چلاتی ہے۔انھوں نے اپنے بھائی براق کے بارے میں الزام کی بھی تردید کی ہے کہ انھوں نے داعش کے زیر قبضہ علاقوں سے تیل ٹینکروں کے ذریعے منگوایا ہوگا۔
بلال اردگان نے کہا کہ ان کے بھائی کا ایک مال بردار بحری جہاز ہے اور اس کو ٹینکر کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بشارالاسد ہیں جو داعش کے تیل کی فروخت سے فائدہ اٹھارہے ہیںاگر آپ داعش کے تیل کے کاروبار کا پیچھا کریں گے تو آپ بشارالاسد کو پائیں گے۔
ترکی کے مرد آہن کے بیٹے نے شام کے ساتھ واقع سرحدی علاقے میں روسی طیارے کی تباہی کو ایک ناخوشگوار واقعہ قرار دیا اور کہا کہ ہمیں اب حقیقی مسائل یعنی داعش اور شام کے مستقبل پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
روس کی وزارت دفاع کے بعض عہدے داروں نے گذشتہ ہفتے ترک صدر رجب طیب اردگان اور ان کے خاندان پر یہ الزام عاید کیا تھا کہ وہ داعش سے شام کے تیل کی خریداری میں ملوّث ہیں۔ انھوں نے اس ضمن میں بعض سیٹلائٹ تصاویر کا حوالہ دیا تھا جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ داعش کے زیر قبضہ علاقوں سے تیل کے ٹینکر ترکی کی جانب جا رہے ہیں۔ان روسی عہدے داروں کا کہنا تھا کہ وہ تین ایسے راستوں کے بارے میں جانتے ہیں جن کے ذریعے تیل ترکی پہنچایا جاتا رہا ہے۔
ترکی نے اس الزام کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔ترک صدر نے گذشتہ ہفتے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ ترکی کے پاس ماسکو کے شام میں باغیوں سے تیل خریدنے کےثبوت موجود ہیں۔اس دوران روسی میڈیا نے اپنی رپورٹس میں بلال اردگان پر الزام عاید کیا تھا کہ وہ داعش کے ساتھ تیل کی غیر قانونی تجارت میں ملوث ہیں اور ترکی نے تیل کی غیر قانونی اسمگلنگ کے کاروبار کو تحفظ دینے کے لیے روسی طیارے کو مار گرایا تھا۔
بلال اردگان اس سال کے اوائل میں اپنی ڈاکٹریٹ کی تعلیم مکمل کرنے کے لیے اہلیہ اور خاندان کے ہمراہ اٹلی چلے گئے تھے اور اطالوی شہر بلونیا میں مقیم ہیں۔ان کےناقدین نے ان پر الزام عاید کیا تھا کہ وہ ترکی میں گذشتہ سال بدعنوانی کا مشہور اسکینڈل منظرعام پر آنے کے بعد ملک سے بھاگ گئے تھے لیکن انھوں نے کسی غلط کاری میں ملوث ہونے کی ترید کی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے اٹلی آئے ہیں۔