دہشت گردی‘جوابی کاروائی اورطویل مدتی تحقیق

daishڈاکٹر سید ظفر محمود

پیرس میں گذشتہ ماہ جن اشخاص نے حملہ کیا ان کے عمر 25-28 برس تھی۔ 2001 میں وہ 11-14 برس کے رہے ہوں گے اور اُس وقت وہ یقیناً دہشت گرد نہیں تھے۔ تووہ کیا اطلاعات‘ خیالات و رجحانات تھے جو اِن 14 سالوں میں ان کے ذہنوں میں چلے گئے اور نہیں جانے چاہئے تھے؟ دنیا میں عموماً اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جو برتائو ہو رہا ہے اگر وہ اس سے مطمئن ہوتے تو کیا پھر بھی حملہ کرتے؟ یہ تو طے ہے کہ ان کے غیر مطمئن ہو نے کے باوجود ان کی اس وحشیانہ حرکت کے لئے انھیں سخت ترین سزا ملنی ہی چاہئے اور وہ سلسلہ چل بھی رہا ہے۔ ساتھ ہی طویل مدتی عالمی امن و امان کے مد نظر یہ بھی معلوم کرنا ضروری ہے کہ کوئی دہشت گرد اس لئے تو ناخوش نہیں تھا کہ اگر درجنوں مسلمان فوت ہو جائیں تو دنیا کی میڈیا اس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں سمجھتی ہے بلکہ کبھی کبھی اسے متوازی نقسان(Collateral damage) کے طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جبکہ ایک بھی مغربی باشندے کی موت خبروں کی سرخیاں بنتی ہیں اور دنیا بھر میں ٹی وی پر بحث کا عنوان بھی۔ ہمارے ملک عزیز میں یہ ایک عام منظر ہوتا ہے کہ آر ایس ایس کے اراکین لاٹھیاں اٹھائے ہوے سڑکوں پر گشت کرتے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ انھیں دیکھ کر خوش بھی ہوتے ہیں۔ بہت سے ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ یہ لوگ لاٹھیاں کس کے خلاف لئے ہوے ہیںاور یہ کہ اگر ایک گروپ جس میں سب لوگ ایک ہی مذہب کے ماننے والے ہیں اپنے بازو کی طاقت اس طرح دکھا سکتا ہے تو دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لئے ایسا کرنا خراب بات کیوں ہے۔ اسی سے ملتے جلتے سوال بین الاقوامی سطح پر بھی ذہنوں میں اٹھتے ہیں۔ ہم سب واقف ہیں کہ مع 1.7 ارب مسلمانوں کے دنیا میں99% سے زیادہ لوگ سیدھے سادھے ہیں۔ لیکن2-3 دہائیوں سے ایک چھوٹی سی تعداد میں افرادجن میں کافی مسلمان بھی ہیںراہ راست سے بھٹک جاتے ہیں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی جرات کرتے ہیں ‘ یہ موجودہ سماج کی ایک لعنت ہے اور اس سے سختی سے نپٹنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی جانی چاہئے۔ لیکن کیا آج کی ترقی یافتہ دنیا اپنے سارے ذرائع کا استعمال صرف پوسٹ مارٹم کرنے میں ہی لگا ئے رکھے گی ؟ کیا اس کی ضرورت نہیں ہے کہ ہارورڈ‘ کورنیل‘ ییل‘ آکسفرڈ‘ کیمبرج (Harvard, Cornell, Yale, Oxford, Cambridge)و دیگر یونیورسٹیوں میں قرینہ سے غیر جانب دارانہ تحقیق کی جائے جس سے معلوم ہو کہ وہ کون سے اشوز ہیں جو موجودہ اور مستقبل کی نوجوان نسلوں میں سے کچھ کو دہشت گردی کی طرف راغب کر نے کا احتمال و باطنی توانائی(Potential) رکھتے ہیں اور اس تحقیق کی بنیاد پر عالمی لیڈروں کو کشادہ ذہنی سے کیا ایسے اقدامت نہیں کرنے چاہئیں جس سے نوجوانوں کی آئندہ کی نسلیں اپنے ساتھ دنیا کے برتائو کو سوتیلا سمجھ کے بھڑکیں نہیںبلکہ وہ راہ راست پر برقرار رہیں؟

اپریل 2005 میں حکومت ہندنے مسلمانوں کی سماجی‘ اقتصادی و تعلیمی سطح پرتحقیق کر کے رپورٹ تیار کرنے کے لئے وزیر اعظم کی اعلیٰ سطحی کمیٹی کی تشکیل کی۔اس کی صدارت سابق چیف جسٹس راجندر سچر نے کی اور اس کے اراکین میں قومی شہرت یافتہ ماہر تعلیم‘سماجیات‘ اقتصادیات‘ حکمرانی‘ اعداد و شماروپلاننگ شامل تھے‘ کمیٹی نے 30نومبر 2006 کو اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو سونپ دی اس کے بعد جلد ہی وہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کر دی گئی‘ اس رپورٹ کو ملک میں اس موضوع پر 21 ویں صدی کے مستند دستاویز کے طور پر تسلیم کیاگیا ہے ۔ کمیٹی نے پایا کہ ترقی کے ہر میدان میں مسلمان ملک کے باقی تمام باشندوں کے مقابلہ میں پیچھے ہیں ۔اس کی سفارشوں کا مرکزی و صوبائی حکومتوں نے کچھ نہ کچھ نفاذ بھی کیا۔ بعد اذاں 2014 میں وزیر اعظم بننے کے بعد پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر کے دوران جناب نریندر مودی نے مزید توثیق کی کہ ملک میں اقتصادی و دیگر میدانوں میں مسلمان پیچھے چل رہے ہیں اورانھوں نے اُن کی حالت کو سدھارنے کی ضرورت سے اصلاحی چارہ گری (Remedial measures)کے لئے اپنے عظم مصمم کا اظہار کیا۔ اس طرح مسلمانوں کی ڈھارس بندھی اور ان کی حوصلہ افزائی ہوی۔ دنیا کو چاہئے کہ خوش مزاجی کے اس ہندوستانی ماڈل سے سبق لے اور اسے اختیار کر لے۔

امریکہ کے سین برٹرینڈنو میں حملے کے بعد اُس ملک میں مسلم مخالف رد عمل کے ضمن میں صدر اوبامہ نے 12 دسمبر2015 کو وھائٹ ہائوس میں اپنے ہفتہ وار خطاب میں کہا کہ دنیا میںتعصب و تفریق سے داعش کو مدد مل رہی ہے اور اس کی وجہ سے ’ہماری قومی سلامتی کی جڑیں کھوکھلی ہورہی ہیں‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ تشدد کا جواز تعمیر کرنے کے لئے داعش نے جو موڑ تروڑ کر اسلام کی تصویر پیش کی ہے اس کی بنیاد پر مسلمانوں کے بارے میں نقش و تصور قائم کرنے اور رائے بنانے والے بڑی غلطی کے مرتکب ہیں۔ اس سے قبل 16نومبر کو ترکی کے شہر انطالیا میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران اوباما نے زور دیا تھا کہ گذشتہ کئی برسوں میں دہشت گردی کے مظلوموں میں اور خاص طور پر داعش کے مظلوموں میں بھی بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہی ہے۔ داعش اسلام کی عکاسی نہیں کرتا ہے‘ نہ وہ مسلمانوں کی بڑی اکثریت کے رویہ یا وضع کی نمائندگی کرتا ہے‘ دنیا کے مسلم لیڈروں نے بھی زور دے کرایسا ہی کہا ہے جن میں ترکی کے صدر ایدروگن اور انڈونیشیا و ملیشیا کے صدور شامل ہیں‘ ان ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن انھوں نے باہمی رواداری (Tolerance)کو اپنایا ہے اور انھوں نے اپنے یہاں سیاسی سسٹم میں سب کو شامل رکھا ہے۔ لہٰذا پیرس کے حملوں کو اگر کوئی اسلام سے جوڑتا ہے تویہ خیال بالکل غلط ہے۔ اور اس سے دہشت گردی پر کنٹرول کرنے کی راہ میں دقتیں بھی آئیں گی۔ اس کو دہشت گردی کے بجائے اسلام سمجھنے سے دہشت گرد تنظیموں کو اپنے لئے اور زیادہ بھرتیاں کرنے میں آسانی بھی ہو جائے گی۔یہاں قارئین کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں بہت جگہ ایسی بہت سی حرکتیں ہوتی ہیں جن کو کرنے والے کے مذہب کا ان حرکتوںسے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ ہیرو شما اور ناگاساکی پر بم گرانے والے ایک مذہب کے تھے اور اس سے جو لوگ مرے وہ مختلف مذہب کے تھے لیکن کسی نے نہیں کہا کہ یہ فلاں مذہب کی دہشت گردی ہے۔ سربرینکا کے جنرل ریٹکو ایملیڈک(Gen Ratko Mladic of Srebrenica) نے 7,500 مسلمانوں کا قتل کروا دیا تھا لیکن پھر بھی کسی نے اس کی اس دہشت گردی کو اس کے مذہب سے نہیں جوڑا۔ مہاتما گاندھی کا قتل کرنے والے کا کوئی مذہب تھا اور بابری مسجد شہید کرنے والوں کا بھی کوئی مذہب تھا لیکن ان دونوں دہشت گردیوں کو بھی دہشت گردوں کے مذہب کے آئینہ میں نہیں دیکھا گیا ۔ بلکہ اس کے بجائے بابری مسجد کے منفرد ملزموں کے خلاف باقاعدہ مقدمہ دائر ہوااور عدالتی کاروائی چل رہی ہے۔

اسی طرح دنیا میں فی الحال چل رہی دہشت گردی کو بھی صرف قلیل مدتی پوسٹ مارٹم اور کائونڈر ٹررزم(Counter terrorism) تک ہی محدو نہیں رکھا جانا چاہئے بلکہ اس کی وجوہاتی کارپردازیوں (Factors)کی طویل مدتی تحقیق کر کے ان کی بنیاد پر ترقی یافتہ و ترقی پذیر دنیا کے ممالک کی سیاسی پالسیوں میں رد و بدل کیا جانا چاہئے تا کہ آج کے10-15 برس کے بچہ کے ذہن میں اگلے 10 برسوں میں ایسا کچھ نہ جائے کہ وہ 25 برس کی عمر میں دہشت گرد بن جائے۔یہی پالسی تمام ان ملکوں میں بھی اپنائی جانی چاہئے جہاں مختلف مذاہب کے لوگ کثیر تعداد میں رہائش پذیر ہیں اور جہاںاندرونی بین طبقاتی نااتفاقیاں چل رہی ہیں‘ ہمارا ملک اس پالسی کی توسیع کا بڑا امیدوار ہے۔ لیکن فی الحال گفتگو چل رہی ہے دنیاوی سطح پر موجودہ دہشت گر دی کے طویل مدتی حل کے لئے تحقیقی جدو جہد کی۔ اگر آج کے ترقی یافتہ لیڈروں نے اس طرف توجہ نہیں دی تو آگے آنے والی نسلیں یہی فیصلہ کریں گی کہ ان لیڈروں کو بنی نوع انسان کی فلاح و بہبودسے زیادہ فکر اپنی کرسی برقرار رکھنے کی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *