
آخرداعش سےامت مسلمہ کو فائدہ پہنچ رہا ہےیانقصان ؟
! ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
داعش ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس کا فی الواقع اسلام سے کوئی واسطہ نہیں یہ بات الگ کہ وہ اسلام کے نام پر ہی اپنی ساری کا ر ر و ا ئیاں کر رہی ہے۔یہ جہاد جہاد کا شور تو مچاتے ہیں لیکن ان کا نشانہ زیادہ تر مسلمان ہی رہے ہیں ۔داعش کو اگر جہاد فی سبیل اللہ ہی کرنا تھا تو اسے فلسطین اور غزہ کیوں نظر نہیں آیا جہاں مظلوم ترین مسلمان اسرائیل جیسی سپر پاور سے ٹکرا رہے ہیں ۔ داعش کو یہ کیسے بردا شت ہو رہا ہے کہ اس کی بغل میں غزہ کے نہتے مسلمانوں پر آگ برسائی جارہی ہو؟یہ کیسا جہاد ہے کہ آپ اپنی بغل کے مظالم پر آنکھیں بند کئے رہیں اور دور دراز کے مظالم کے لئے شور پکار کریں؟ ایسا لگتا ہے کہ داعش کا مقصد اسلام اور توحید کی سربلندی اور مظلوم مسلمانوں کی مدد نہیں بلکہ ساری دنیا خاص طور سے مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں میں آپسی جنگ و جدل کروا کر صہیونیت کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اور اس کی اب تک کی کارروائیاں تو اسرائیل کو تقویت پہنچانے والی یا اس کے خلاف کئے گئے اقدامات کا بدلہ لینے والی ہی نظر آ تی ہیںمثلاً فیس بک کی ایک پوسٹ نے اس کی بہت صحیح نشاندہی کی ہے کہ فرانس کی پارلمنٹ نے جب فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی پہل کی تو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے مشرق وسطیٰ میں دہشت گردوں کی جانب سے سر قلم کر نے کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے اسے وارننگ دی تھی کہ فرانس کی پارلمنٹ کا یہ فیصلہ بڑی غلطی ہوگی ۔پھر بھی جب فرانس کی پورلمنٹ نے فلسطین کو تسلیم کر نے کا فیصلہ کر ہی لیا تو فرانس دہشت گردوں کے نشانے پر آگیا پہلے وہاں چارلی ہبڈو کے دفتر میں دہشت گردانہ حملہ ہوا اور اب پیرس کے مختلف مقامات پر ۔اسی طرح جب جاپان نے اسرائیلی بم باری سے کھنڈر ہوئے غزہ کی تعمیر نو کے لئے سو ملین ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا توچند ہی دنوں میں داعش نے جاپان کے دو شہریوں کے سر قلم کردئے ۔اسی طرح عراق و شام میں داعش کی گھناؤنی کارروائیوں کی وجہ سے فلسطینی کاز کا ایک اور نقصان یہ ہوا کہ فلسطین کے نہتوں کے خلاف اسرائیل کے خوفناک مظالم پر پردہ پڑ گیااور بیت المقدس بھی مسلمانوں کے اذہان سے نکلا چلا جا رہا ہے ،اب اسے اسرئیل کی مددنہیں تو کیاکہا جائے؟ اورجہاں تک مغرب اور امریکہ کا سوال ہے تو سب سے پہلے تویہ کہ وہ اسرائیل سے الگ نہیں ہیں اور دوسرے یہ کہ غالب گمان ہے کہ انہوں نے شام میں بشارالاسد کے خلاف اٹھنے والی عوامی بغاوت کی حمایت کے بہانے اسد حکومت کے خلاف بر سر پیکار دوسری تنظیموں کے ساتھ ساتھ داعش کو بھی استعمال کیا، پیسہ اور ہتھیاروں سے ان کی مدد کی۔ اگر ایسانہیں کیا تو کم از کم اسے نظر انداز توضرور کیا کیونکہ شروع میں جب داعش نے سر اٹھایا تھا اس وقت اس کے خلاف کوئی خاص کارروائی نہیں کی گئی تھی بلکہ سارا معاملہ عراقی حکومت اور فوج کے سپرد ہی رکھا گیا تھا شایداس لئے کہ مرنے اور مارنے والے سب مسلمان تھے ۔داعش کے خلاف کارروائی اس وقت شروع کی گئی جب اس نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں اور یزیدیوں کو بھی مارنا شروع کردیا اور اس کے بعد بھی داعش کے خلاف انہوں نے جو کارروائی کی وہ بھی سنجیدگی سے نہیں کی یہ لوگ تقریباً ایک سال سے زائد عرصہ کی بمباری میں بھی وہ کچھ حا صل نہیں کر پائے جو روس نے چند دنوں کی بمباری میں حاصل کر لیایعنی ان کی نیت ہی داعش کے خاتمہ کی نہیں تھی بلکہ شاید ان کی کارروائیو ں کا مقصد داعش کو مسلمانوں کے علاوہ دوسری قوموں کے خلاف کارروائی سے باز رکھنا ہی تھا ۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ داعش اسرائیل و امریکہ کی پروردہ ہے اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی حفاظت کی خاطر اس کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کر رہی ہے ۔اوراگر یہ مان لیابھی جائے کہ داعش اسرائیل و امریکہ کی ایجنٹ نہیں ہے تو بھی داعش اور ان ممالک کے درمیان بالواسطہ (Indirect)رشتے سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، یہ کیسے مان لیا جائے کہ خلافت کی دعویداری کر نے اور خود کو ساری دنیا کے مسلمانوں کا محافظ کہنے والی داعش کو اس بات کا بھی ادراک نہیں کہ اس کی کارروائیوں سے فائدہ کسکا ہو رہا ہے اور نقصان کس کو پہنچ رہا ہے ۔ اس تنظیم کی اب تک کی کارروائیوں سے ایسا لگتا ہے کہ یہ تنظیم دراصل مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے ہی برپا ہوئی یا کی گئی ہے شروعات میں تو اس نے نہ صرف عرب بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کوشیعہ سنی کے دو خانوں میں بانٹ کر ایکدوسرے کے مقابل کھڑا کردیا تھا۔اس نے شام کے عوامی انقلاب کو بھی شیعہ سنی تنازعہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ لیکن اب اس تنظیم کی وجہ سے سنی مسلما نو ں کی تفرقہ آرائی بھی منظر عام پر آ رہی ہے ۔اب یہ کہا جا رہا ہے کہ داعش امریکہ و اسر ا ئیل کی ایجنٹ ویجنٹ نہیں بلکہ خالص سلفی تنظیم ہے جس کے نزدیک اس کے علاوہ دوسرے مسلمان اور تنظیمیں سب مرتد و کافر ہیں۔ مغربی دنیا بھی اس تنظیم کے ساتھ اس کے عقیدے ’سلفیت ‘کو اجاگر کرتی ہے شاید اس لئے کہ مسلمان انہیں مسترد کردیں یا پھر آپس میں الجھ جائیں ۔ اور ویسے بھی ’جہادی سلفیت ‘یا ’سلفی جہاد‘ کی اصطلاحیں دہشت گردی کے ضمن میں خاص طور سے استعمال کی جاتی ہیںاور وزیر اعظم مودی جی نے بھی لندن میں اپنی تقریر میں ’ صوفی ازم ‘ کا حوالہ شاید ’سلفیت ‘ کے مقابل ہی دیاتھا ۔اور ہماری معلومات کا ذریعہ’ میڈیا‘ تو یہی بتاتا ہے کہ ساری دنیا میں بر سر کار دہشت گرد تنظیموں میں سے زیادہ تر سلفی ہی ہیںاور ویسے بھی سلفی اپنے عقائد میں انتہائی سخت اور بے لچک واقع ہوئے ہیںاور اسلام اسلام کے سارے شور کے باوجود انہوں نے مصر میں محمد مرسی کے مقابل مغرب و اسرائیل کے حمایت یافتہ فوجی جنرل السیسی کی حمایت کی تھی لیکن اس کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ وقت عمومی طور پرسلفیت کو لعن طعن کر نے کا نہیں ہے کہ ہم قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ سلفیت ہی داعش ہے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ سلفیوں نے اس پر کیا ردعمل ظاہر کیا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ داعش کو کسی استثنیٰ کے بغیرسلفیت کہہ دینادانستہ طور پر سارے سلفیوں کو دہشت گرد کہنا ہے یہی نہیں بلکہ بھارتی مسلمانوں کی بڑی تعداد کو سلامتی ایجنسیوں کے نشانہ پر لے آنا ہے کہ وطن عزیز صوفی ازم کے ماننے والوں کے علاوہ بقیہ سب مسلمانوں کو وہابی (سلفی) ہی سمجھتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ سلامتی ایجنسیو ں نے دہشت گردی کے نام ہمارے ساتھ کتنا گھناؤنا کھیل کھیلا ہے۔ اور ۸ جولائی ۲۰۱۵ کے آن لائن انڈین ایکسپریس کے مطابق آر ایس ایس کے اخبار ’آرگنائزر‘ نے مودی حکومت اور مسلم لیڈران کومسلمانوں کو ’وہابیت‘ سے بچانے کا مشورہ دیا تھا اور اس کے لئے دینی تعلیم کی جگہ ماڈرن تعلیم اور فیملی پلاننگ رائج کر نے کا بھی مشورہ دیا تھاکہ’ وہابی دہشت گردی وسیع پیمانے پر اور تیزی سے بڑھ رہی ہے‘۔ ویسے جہاں تک اپنے علاوہ دوسروں پر لعن طعن کا مسئلہ ہے تو یہ صرف سلفیت ہی سے وابستہ نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں کی تقریباً ہر جماعت دوسری جماعتوں کو اگر مرتد و کافر نہیں تو قابل مذمت یا گمراہ ضرور سمجھتی ہے ۔اور خدا خدا کر کے ابھی کچھ ہی دن ہوئے کہ ہمارا بریلوی۔ دیوبندی کا جھگڑا کچھ تھما ہے اب امت کسی اور جھگڑے کی متحمل نہیں ہے۔حالانکہ مقلد اور غیر مقلد کا جھگڑا تو بہر حال اب بھی جاری ہے ایسے میں اسے سلفیت اور غیر سلفیت کے نام سے ہوا دینا عقلمندی نہیں ہے داعش کی کارروائیوں کا جائزہ تو یہ بتاتا ہے کہ اس کا مقصد عالم اسلام بالخصوص اوربالعموم ساری دنیا میں بسنے والی ملت اسلامیہ میںشدید مسلکی اور عقا ئد ی انتشار پیدا کر کے امت کا شیرازہ بکھیر دینا ہے ایسے میںہماری سب سے بڑی ذمہ داری اسے اس مقصد میں کامیاب ہونے سے روکنا ہے اور اگر ہم اس کی مذمت یا مخا لفت میں مسلک اور عقائد کے جھگڑے نکال لیں تو یہ داعش کا مقابلہ نہیں بلکہ اسکی مدد کرنا ہوگی ۔اور اگر خدا نخواستہ، سو بار، خدا نخواستہ داعش امت مسلمہ میں انتشار پیدا کر نے کے اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوگئی تو اس کی جتنی ذمہ دارداعش ہوگی اتنے ہی ذمہ دارہم بھی ہوں گے ۔ ہمارا کہنا تو یہ ہیکہ ہم سارے ازم ،فرقوں اور جماعتوںسے اوپر اٹھ کر’ مسلمان‘ ہو جائیں ،خالص مسلمان ۔کہ یہی ہماری راہ نجات ہے اور اسی سے داعش اور اس جیسی دہشت گرد تنظیموں کو کامیاب ہونے سے روکا جا سکتا ہے اور ان کے پس پردہ عناصر کو شکست فاش دی جا سکتی ہے ۔ اور فی الوقت یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ جمعہ ( ۱۸،دسمبر ۲۰۱۵) dr.abidurrehman@gmail.com