’’ امریکہ میں روزگار کے زیادہ تر مواقع چھوٹے کاروبار میں ہیںـ‘‘

انویتا اروڑہ (بائیں) نئی دہلی میں’’پائیدار ترقی کے لئے منتظم کاری ‘‘ پر ایک تقریب میں۔ تصویر بہ شکریہ انویتا اروڑہ
انویتا اروڑہ (بائیں) نئی دہلی میں’’پائیدار ترقی کے لئے منتظم کاری ‘‘ پر ایک تقریب میں۔ تصویر بہ شکریہ انویتا اروڑہ

اسٹیو فاکس
انویتا اروڑہ کی تعلیمی ادارہ چھوڑ کر اپنا کاروبار شروع کرنے کی داستان۔
تنِ تنہا تین بچوں کی پرورش کرنے والی انویتا اروڑہ کو اس بات کا علم تھا کہ درس و تدریس کی پُر عافیت نوکری چھوڑ کر اپنی ذاتی کمپنی قائم کرنے کا فیصلہ کرکے وہ ایک بڑا جوکھم مول لے رہی ہیں ۔ انویتا ایک آرکی ٹیکٹ ہیں اور انھیں شہری نقل و حمل کی منصوبہ بندی میں مہارت حاصل ہے۔ انھوں نے آئی آئی ٹی سے پی ایچ ڈی بھی کی ہے۔ مذکورہ پس منظر کی وجہ سے انویتا کے پاس علم و دانش کا بڑاخزانہ تھا ۔ کاروباری انتظام کی بات کریں تو اس کا کوئی تجربہ نہیں رکھنے کے باوجود انویتا کو اس شعبہ میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔تاہم امریکی محکمہ ٔ خارجہ کے انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام کے تحت ایک مرتبہ تین ہفتے کے لئے امریکہ کے دورے نے کاروباری انتظام کے لئے ان کے عزم کو مستحکم کر دیا۔
انویتا بتاتی ہیں ’’اس سے پہلے میں امریکہ نہیں گئی تھی ۔ میں امریکہ کو سمجھنا چاہتی تھی کیوں کہ وہاں کاروباری تنظیم کے ذریعہ لوگوں کے کامیاب ہونے کی روایت ہے ۔ میں کاروباری منتظم خواتین کے بارے میں خاص طور سے جاننا چاہتی تھی۔ امریکہ سے واپسی کے بعد میں اپنی پسند کے بارے میں پہلے سے زیادہ پُراعتمادہوگئی۔ میں جن حالات سے گزر رہی تھی ان میں مجھے اپنی پسند کالگاتار دفاع کرنا پڑتا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ اپنا کاروبار کرناخطر ناک ہے۔ یہ بات بھی سننی پڑتی کہ سلیقے کی نوکری کر رہی ہوں تو مجھے کاروبار کرنے کی کیوں پڑی ہے لیکن میں نے امریکہ میں جو وقت گزارا اس نے مجھے بہت اعتماد بخشا،مجھے محسوس ہوا کہ میں یہ کام کر سکتی ہوں۔ ‘‘
انویتا درست تھیں۔ انھوں نے ۲۰۰۸ میں اِننو ویٹِو ٹرانسپورٹ سَولو شنس (آئی ٹرانس) پرائیویٹ لیمیٹیڈ شروع کی ۔ یہ کمپنی اب ورلڈ بینک، ایشیَن ڈیولپمنٹ بینک، حیدر آباد میٹرو ریل لیمیٹیڈ ، شکتی فاؤنڈیشن ، دہلی فائنانس کمیشن اور ایم سی ڈی کوپائیدار شہری نقل و حمل کے معاملات سے متعلق مشاورتی خدمات فراہم کرتی ہے۔
تبادلہ پروگرام کے ذریعہ، جس میں خواتین اور کاروباری منتظمین پر تمام تر توجہ مرکوز کی گئی تھی،’آئی ٹرانس‘ کی سی ای او او ر ایم ڈی انویتا نے دوسرے ملکوں سے آئی اٹھارہ خواتین سے ملاقات کی ۔ یہاں انھیںیہ جاننے کا موقع ملا کہ امریکہ میں عورتوںکو اپنا کاروبار شروع کرنے اوراسے چلانے میں کن دشواریوں کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔
انویتا بتاتی ہیں ’’ ایک نمایاں تجربہ یونیورسٹی آف کولوریڈو بزنس اسکول کا ہے ۔ یہاں ہماری ملاقات وائس چانسلر سے ہوئی جو ایک خاتون تھیں ۔ ان کے ساتھ کاروبار چلانے کے عملی پہلوؤں پر بہت دیر تک تبادلہ ٔ خیال ہوا۔ پورٹ لینڈ میں ہم خاتون کاروباری منتظمین سے ملے ۔ہم نے ان سے جاننا چاہا کہ انھیں کاروبار شروع کرنے کے لئے کیا کرنا پڑا ؟ وہ اپنی کمپنیاں کیسے چلا رہی ہیں ؟ اور جب انھوں نے کاروبار شروع کیا تو وہ زندگی کے کس مرحلے میں تھیں ؟ ان کے علاوہ ایک ایسے شہری منصوبہ ساز کی حیثیت سے ، جسے بہت سارا کام چیزوں کو دوبارہ قابلِ استعمال بناکر کرنا پڑتا ہے ، میں یہ جان سکی کہ پورٹ لینڈ میں اس مسئلہ سے کیسے نمٹا جاتا ہے کیوں کہ یہ طریقہ ٔ کاربہت ہی عمدہ ہے۔‘‘
اگرچہ ہندوستان میں بہت سے لوگ بڑی کمپنیوں میں عمر بھرکے لئے ملازمت کرنے کی تمنا کرتے ہیں لیکن انویتا نے پایا کہ امریکہ کا منظر نامہ ذرا مختلف ہے۔وہ بتاتی ہیں ’’میں نے سیکھا کہ امریکہ میں روزگار کے زیادہ تر مواقع چھوٹے کاروبار میں ہیں ۔ امریکہ میں چھوٹاکاروبار اور خواتین معیشت میں بڑا کردار ادا کرتی ہیں ۔ وہ حاشیہ کی زینت بن کر نہیں رہتیں۔ جب کہ ہندوستانی منظر نامہ جداگانہ ہے جہاں زیادہ تر لوگ بڑی کمپنیوں میں کام کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر اب ہندوستان میں بھی حالات بدلنے لگے ہیں جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ ۹ سے ۵کی معمول کی ملازمت کے حصار سے باہر نکلنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور اپنی ذاتی کوششیں کر رہے ہیں ۔ ‘‘
انویتا نے ۲۰۱۲ میں امریکہ میں جو سیکھا اس کی بنیاد پر انھوں نے اپنے کام کاج کے طریقے میں کچھ تبدیلیاں کیں۔ وہ اعتراف کرتی ہیں ’’ مجھے احساس تھا کہ مجھے منصوبوں کا انتظام کرنے میں لطف آتا ہے ۔ میری دلچسپی کاروبار چلانے کے دیگر پہلوؤں سے زیادہ منصوبوں کے مشمولات میں ہے ۔ اس لئے میں نے کاروبار میں ایسے لوگوں کو شریک کیا جن کی ہنرمندی میرے ہنر کا تکملہ کرتی ہو تاکہ مجھے اس چیز پر توجہ دینے کی مہلت ملے جس میں مجھے مزہ آتا ہے۔مجھے یہ بھی لگا کہ میرا کاروبار بڑا نہیں ہونا چاہئے۔مجھے سو ملازمین رکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ میرے لئے زیادہ ضروری یہ ہے کہ کام اور گھریلو ذمہ داری کے درمیان زیادہ لچک موجودہوتاکہ بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملتا رہے ۔ اسی توازن اور لچک کو یقینی بنانے کے لئے میں نے اپنا کاروبار شروع کیا۔ ‘‘
انویتا نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ امریکہ میں زندگی صرف کمانے کا نام نہیں ہے۔ وہ بتاتی ہیں ’’ امریکہ میں خدمتِ خلق کے جذبے کا احترام پایا جاتا ہے ۔ یہ انتہائی منفرد شئے ہے ۔ امریکہ میں انسان دوستی کی بنیاد پر دست گیری کی تاریخ بڑی پرانی ہے ۔ خدمتِ خلق وہاںکاروباری اور انفرادی طرزِ حیات کا حصہ ہے۔ ‘‘

اسٹیو فاکس کیلی فورنیا کے ونچورا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلم کار، ایک اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔
(بہ شکریہ اسپین میگزین)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *