عہد حا ضر اور صلح حد یبیہ

Tawaf e Kaba

سید قمر الا سلا م

تار یخ اسلا م میں صلح حد یبیہ نظر یا تی سیا ست کی اعلیٰ تر ین مثا ل ہے ، یہ ایک ایسا و اقعہ ہے جس کے نتیجے میں اسلا م حد و د عر ب سے نکل کر بین الا قو امی حیثیت اختیا ر کر گیا ۔ شو ال سنہ ۶ ہجر ی میں نبی کر یم ﷺ کو خو اب میں بشا ر ت ہو ئی اور ذ و ا لقعد ہ سنہ ۶ ہجر ی میں آ پ مکہ ر و انہ ہو ئے ، سا تھ میں چو د ہ سو صحا بہ کرا م بھی شر یک سفر تھے ، ذ و ا لحلیفہ پہنچ کر عمرہ کا لبا س ز یب تن کر لیا ۔ قر با نی کے جا نو رو ں کو نشا ن ز د کیا اور جب اسلا می کا رو اں ’’ عسفا ن ‘‘ پہنچ گیا ، تو بنو خز ا عہ کے ایک شخص نے آ کر بتا یا کہ قر یش نے اپنے تما م حلیفوں کو اکٹھا کر نا شر و ع کر دیا ہے ، وہ مسلما نو ں کو مکہ میں دا خل ہو نے سے بہر صو ر ت ر و کنا چا ہتے ہیں ۔
رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کہلا بھیجا : ہم عمر ہ کی غر ض سے آ ئے ہیں نہ کہ جنگ کے لیے ۔ جنگ و جد ال نے قر یش کو اند ر سے کھو کھلا کر دیا ہے، ان کے حق میں بہتر یہ ہے کہ ایک مد ت کے لیے ہم سے مصالحت کر لیں اور مجھ کو اہل عر ب کے ہا تھ پر چھو ڑ د یں ، اگر و ہ لو گ اس پر ر ضا مند نہیں ہو تے ، تو اس ر ب کی قسم جس کے قبضے میں میر ی جا ن ہے ، میں ان سے لڑ تا ر ہو ں گا ، یہا ں تک کہ میری جا ن ہے ، میں ان سے لڑ تا ر ہو ں گا ، یہا ں تک کہ میر ا سر تن سے جد ا ہو جا ئے ، یا اللہ اپنا فیصلہ ظا ہر فر ما د ے ۔
جب قر یش کو یہ با ت معلو م ہو ئی ، تو انھو ں نے حیل و حجت کی ، لیکن با لآ خر عر وہ بن مسعو د ثقفی کی فہما ئش پر وہ گفت و شنید کے لیے ر ضا مند ہو گئے ۔ عر وہ ، ر سو ل اکر م ﷺ کے پاس آ ئے ، آ پ سے تبا دلہ خیا ل کیا اور صحا بہ کر ام کی محبت و عقید ت کا دل مو ہ لینے و لا منظر بھی د یکھا ۔ مسلما نو ںکی طر ف سے ر سو ل اللہ نے حضر ت عثما ن ؓبن عفا ن کو سفیر بنا کر بھیجا ، قر یش نے حضر ت عثما ن کو نظر بند کر دیا اور یہ خبر عا م ہو گئی کہ حضر ت عثما ن قتل کر د یے گئے ۔ ر سول اکر م نے اس پر نہا یت کڑ ا ر خ ا پنا یا اور بو لے : خو ن عثما نؓ کابد لہ لینا ہما ر ا فر ض ہے ۔اس کے بعد اصحا ب ر سو ل نے آ پ ﷺ کے ہا تھ پر جا ں نثا ر ی کی بیعت کی اور مر نے ما ر نے کی قسمیں کھا ئیں ، بعد میں معلو م ہو ا کہ یہ افو ا ہ تھی ۔
آ خر کا ر قر یش کی طر ف سے سفا ر ت کے لیے عبد اللہ بن سہیل یا سہیل بن عمر و کو بھیجا گیا اور اس معا ہد ے کی تکمیل ہو ئی ۔ مشہو ر ا سکا لر ڈا کٹر حمید اللہ نے اس کے متن کو من و عن نقل کیا ہے ، ہم اس کا تر جمہ پیش کر ر ہے ہیں :
یہ صلح نا مہ محمد بن عبد اللہ اور عبد اللہ بن سہیل ( یا سہیل بن عمر و ) کے اتفا ق سے طے پا یا ہے ، ان د و نو ں نے د ر ج ذ یل نکا ت پربا ہمی مصا لحت کی ہے :
۱۔ فریقین کے در میا ن دس سال تک جنگ بندرہے گی، امن و ماان بحال ہو گا ۔
۲۔ محمد ﷺ کے اصحا ب میں سے جو شخص حج، عمرہ یا تجا رت کے اراداے سے مکہ آئے گا اس کی جان و مال کو امن حا صل ہو گا ، اسی طرح قر یش کا کو ئی فر د شا م اور مصر کے سفر میں مد ینے کے را ستے سے گز ر ے، تو اُسے بھی جان وما ل کا اما ن ملے گا۔
۳۔ قر یش کاجو شخص اپنے ولی کی اجاز ت کے بغیر محمد ﷺ کے پاس چلا جا ئے ، تو اُ سے قر یش کے پاس واپس بھیج دیا جا ئے گا ، لیکن اگر آپ کے سا تھیو ں میں سے کو ئی قر یش کے پاس آ جا ئے تو اُ سے و اپس نہیں کیا جا ئے گا ۔
۴۔ ہما رے سینے ایک دو سرے کے لیے کشا د ہ ر ہیں گے اور ہم ایک دوسرے کے خلا ف ڈ ھک چھپ کر ، یا کھلم کھلا کو ئی بھی کا رر وا ئی نہیں کریں گے ۔
۵۔ تما م قبا ئل کو یہ اختیا ر ہو گا کہ وہ محمد ﷺ یا قر یش میں سے جس کے سا تھ چا ہیں حلیفا نہ قا ئم کر سکتے ہیں ۔
۶۔ اس سا ل آ پ بغیر عمر ہ کے و اپس جا ئیں گے اور آ ئند ہ سا ل تین د نوں کے لیے آ پ لو گو ں کے لیے ہم مکہ خا لی کر دیں گے ۔ آ پ سفر ی ہتھیا رو ں اور نیام میں ر کھی ہو ئی تلو ا روں کے سا تھ تین ر و ز یہا ں ٹھہر سکیں گے ۔
یہ مصا لحت بہ ظا ہر یک طر فہ تھی ، جس کے سبب اصحا ب ر سو ل ر نجید ہ بھی ہو ئے ، کیو ں کہ وہ اس مصا لحت کو اسلا م کی ذ لت سمجھ ر ہے تھے ، مگر ابھی و ہ وا پس مد ینہ پہنچے بھی نہ تھے کہ اللہ رب العز ت نے اُ نھیں فتح مبین کی خو ش خبر ی سنا دی ۔ اس صلح کے ذ ر یعے مسلما نو ں کو اتنے فا ئدے ہوئے جو بر سو ں جنگ و جد ال کے بعد بھی ممکن نہ تھے ، مثلاََ:
۰ ہجر ت کے بعد سے اب تک مسلما نو ں کے قتا ل میں مصر و ف ر ہنے کی وجہ سے مخا لفین تک اسلا م کی صحیح معلو ما ت نہیں پہنچ سکی تھیں ، لیکن جب صلح میں دس بر س تک جنگ بند ی کا معا ہد ہ ہو ا تو اُ س سے مسلما ن اور مشر کین کے در میا ن کھلی فضا پید ا ہو گئی ، آ مد و ر فت کا سلسلہ شر وع ہوا ، لین د ین کے معا ملا ت ہو نے لگے ، ایک دو سر ے کے اخلاق و کر د ا ر کو قر یب سے د یکھنے کا مو قع ملا ، اس سے پہلے مشر کین کے دل میں مسلما نو ں کے با ر ے جومنفی تصو را ت تھے ، وہ تبد یل ہو نے لگے اور ایک صا ف و شفا ف کر دار اور اعلیٰ اخلاق کی کشش ا ن کے لیے اسلا م سے قر یب کا ذ ر یعہ بن گئی۔
۰ صلح حد یبیہ نے اند ر و ن ملک تصا د م جیسے حا لا ت سے نجا ت د ی اور یہ مو قع فر اہم کر دیا کہ عر ب سے با ہر بھی د عو ت کی ا بتد ا کی جائے ۔ چنا نچہ عمر ۃ القضا ء کے فو راََ ہی بعد یعنی یکم محر م سنہ ۷ہجر ی کو حضو ر ﷺ نے سلا طین و ا مر اکود عو ت د ینا شر و ع کر دیا ۔
۰ مملکت مد ینہ کے لیے قر یش کے علا وہ خیبر کے یہو د بھی مستقل خطر ہ بنے ہو ئے تھے اور بہ یک وقت دو د شمنو ں سے بر سر پیکا ر ہو نا نقصا ن دہ تھا ، اس لیے نہ تو قر یش کی طرف پیش قد می کر نا ممکن تھااور نہ خیبر کو د با نا آ سا ن تھا ،لیکن قر یش سے مصا لحت کے بعد یہو د یو ں پرقا بو پانا آ سا ن ہو گیا اور پھر خیبر ، وا دی ا لقر ی ، تیما ، تبو ک اور فد ک کی یہو د ی بستیا ں یکے بعد د یگر ے فتح ہو تی چلی گئیں ، اِ د ھر و سط عر ب کے قبا ئل بھی د ھیر ے د ھیر ے مسلما نو ں کے تا بع فر ما ن ہو نے لگے ۔
۰ اب قبا ئل عر ب کو یہ اختیا ر مل گیا تھا کہ وہ حکو مت مد ینہ کا سا تھ د ے ، اس کی ر و سے نئے قبا ئل بے ر و ک ٹو ک مسلما نوں کی حما یت کر سکتے تھے ، بلکہ بنو خز اعہ نے تو عین معا ہد ہ کے وقت ہی مسلما نو ں کے سا تھ حلیفا نہ تعلق کا اعلا ن کر دیا ۔
۰ عر ب میں یہ رو اج تھا کہ حر مت وا لے مہینو ں میں جنگیں مو قو ف ہو جا ئیں اور بے رو ک سب کو کعبہ میں حا ضر ی کا اختیا ر ہو تا ، یہ ایک مسلم با ت تھی ۔ لیکن قر یش نے اپنی انا کے ز عم میں مسلما نو ں کو کعبہ تک آ نے نہیں د یا ، اس سے سا ر ی د نیا پر قر یش کی ہٹ د ھر می و اضح ہو گئی اور مسلما نو ں کے تعلق سے ہم در دی اور لگا ؤ پید ا ہو ا ۔
امت مسلمہ کا مو جو د ہ بحر ان اور زصلح حد یبیہ
عا لمی منظر نا مے پر نگا ہ ر کھنے وا لا اچھی طر ح جا نتا ہے کہ مسلم د نیا کس بے کسی میں مبتلا ہے ، اجتما عی اور انفر ا د ی ، سیا سی اور سما جی ، ملکی اور بین الا قو می ہر سطح پر مسلما نو ں کو جس شر مند گی کا سا منا ہے ، وہ سا ر ی د نیا کے سا منے ہے ۔ ہما را ما ننا ہے کہ تا ر یک حا لا ت میں امید کی صرف ایک کر ن ہے اور وہ ہے سر چشمہ ہد ٔ ایت ، سیر ت نبو ی کی طرف وا پسی ، اس لیے کہ ذ ا ت ر سو لﷺ سا ر ی کا ئنا ت کے لیے ’ ربا نی اسو ۂ حسنہ ‘ کا د ر جہ ر کھتی ہے ، جس سے ہٹ کر کو ئی بھی کو شش ، اچھے انجا م تک نہیں پہنچا سکتی ۔
شخصیا ت کے بجا ے مقصد پر نظر ر کھیں
آ ج کچھ لو گ ایسے پید ا ہو گئے ہیں ، جو دین حق سے ز یا دہ چند مشہو ر نا مو ں کے ار د گر د ا پنی اور امت کی تو ا نا ئی صر ف کر رہے ہیں ۔ ذ ہن میں ہر وقت یہ با ت ر ہنی چاہیے کہ د ین کُل ہے ، اس کے علاوہ ہر شے محض ایک جز کا د ر جہ ر کھتا ہے ۔ کو ئی بھی شخص خو اہ علم و فضل میں کتنا بھی عظیم ہو ، و ہ دین و مذ ہب اور مسلک کا مر ا د ف نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کسی بھی عا لم کو ہد ایت و ضلا لت یا کفر و ایما ن کی کسو ٹی بنا یا جا سکتا ہے ۔ یہ حق قر آ ن و سنت کے لیے تا قیا مت محفو ظ ہے ۔ ہما ر ی نگا ہ چند نا مو ں کے بجا ے ، کتا ب و سنت پر ہو نی چاہیے ۔ آ ج ہر شخص اپنی محبو ب شخصیت کو عالم کے لیے و اجب التقلید تصو ر کر تا ہے ۔ شا ید یہی وجہ ہے کہ امت اب تک اتحا د سے محر و م ہے ۔
صلح نا مہ لکھنے کا آ غا ز ہو ا ، رسو ل ﷺ نے حضر ت علی کو حکم د یا لکھو :
سہیل نے کہا کہ ہم ر حمن و رحیم کو نہیں جا نتے، ہما رے یہا ں با سملک اللہ لکھنے کا ر واج ہے ، تو آ پ بھی و ہی لکھے ۔ حضو ر ﷺ نے قبو ل کر لیا ۔ پھر آ پ نے کہا لکھو :
یہ معا ہد ہ محمد رسو ل اللہ اور سہیل بن عمر و کے در میا ن ہوا ۔ سہیل نے کہا : اگر ہم لو گ آ پ کو رسو ل اللہﷺ ما نتے ہو تے ، تو آ پ سے جنگ کیو ں کر تے ؟ اس لیے آ پ اپنا اور اپنے والد کا نا م لکھوا ئیے۔
چنا نچہ حضو ر ﷺ نے اپنے ہا تھ سے اُ سے مٹا کر اس کی جگہ ’’ محمد بن عبداللہ‘‘ لکھو ا یا ۔
صلح حد یبیہ کا یہ منظر ہما ری مخلصا نہ تو جہ کا طا لب ہے کہ نبی کر یم ﷺ کا مقصد اتنا عز یز تھا کہ دو ایسے الفا ظ کو مٹا دیا گیا جن کی صد ا قت میں کو ئی شبہ نہیں ۔ اس سے وہ لو گ عبر ت حا صل کر یں جو چند نا مو ں اور نعر وں کو اصل د ین سمجھ بیٹھے ہیں ۔ ظا ہر ہے کہ کو ئی نا م ان مٹا ئے جا نے وا لے الفا ظ سے افضل نہیں ہو سکتا ۔ تو دین و مذ ہب کا عنو ا ن کسی کو کیو ں کر بنایا جا سکتا ہے ۔اس لیے دا عی کی نگا ہ میں بہر صو ر ت دین کی اہمیت ہو نی چا ہیے ۔
وقتی نقصا ن کے بجا ے د ائمی مفا د کو پیش نظر ر کھنا
جس وقت صلح نا مے میں یہ شر ط لکھی گئی کہ قریش کا کوئی آ د می مد ینہ پہنچ جائے ، تو وہ واپس کر دیا جا ئے گا لیکن اگر کو ئی مسلما ن مکہ چلا جا ئے تو اُ سے وا پس نہیں کیا جا ئے گا ، عین اسی وقت ابو جند ل بیڑ یاں پہنے ہو ئے پہنچ گئے ۔ سہیل نے کہا : اس شرط کے مطا بق یہ پہلا شخص ہے ، جسے آ پ کو ہما رے سپر د کر نا ہو گا۔ حضو ر نے فرما یا : ابھی تو معا ہد ہ ادھو را ہے ، اس لیے ابو جند ل کو اس شر ط سے الگ سمجھا جا ے ۔ سہیل نے کہا : پھر تو صلح ہو ہی نہیں سکتی ، چوں کہ اس صلح میں بہت سی مصلحتیںتھیں ، اس لیے آ پ نے ابو جند ل کو قر یش کے سپر د کر دیا گیا۔
مسلما نوں کے لیے یہ ہیجا ن انگیز منظر تھا اور ابو جند ل کی حا لت ان کے لیے نا قا بل بر د ا شت تھی ، لیکن رسو ل ﷺ کی نظر اس اعلیٰ مقصد پر تھی ، جس سے د ین کے عظیم مفا د و ابستہ تھے ، اس لیے اس در د نا ک منظر کو آ پ نے نہا یت سنجید گی کے سا تھ بر د اشت کیا اور مصا لحت کو قا ئم ر کھا ۔ یہ نکتہ ہما رے لیے بڑ ی اہمیت ر کھتا ہے کہ دا عی کی نگا ہ میں بہر صو ر ت ذ ا ت و سما ج کے بجا ے د ین کا اعلیٰ مقصد ہو نا چا ہیے۔
ٹکر اؤ سے پرہیز اور مصا لحت میں نئے امکا نا ت کی تلا ش
کچھ لو گوں پر اقا مت دین کا نشہ اس قد ر سو ا ر ہے کہ وہ ہرتیسر ے آ د می کو بم با ر و د سے اُ ڑ ا د ینا چا ہتے ہیں ، وہ جہا د کے ذ ر یعے احیا ئے د ین کا خو اب د یکھ ر ہے ہیں ، اس غلط طر ز فکر و عمل نے اسلا م کی شبیہ کو بر ی طر ح دا غ دا ر کر دیا ہے ۔ اللہ اپنی پہچا ن ا ر حم الر احمین کے لفظ سے اور پیغمبر اسلا م کا تعا ر ف رحمتہ للعا لمین کے لقب سے کر و اتا ہے ، لیکن پچھلے چند بر سو ں میں جہا د مقد س کے نا م پر جو تحر یکا ت منظر عا م پر آ ئی ہیں ، ان کے عمل و کر دا ر سے رحمت کا کو ئی مفہو م نہیں پیدا ہو تا ۔ دو سر ی طر ف ایک گر وہ ایسا بھی ہے ، جو اپنے مو قف سے اختلا ف ر کھنے و الو ں کی کر دا ر کشی کی مہم میں لگا ہو ا ہے ، ہر جلسہ ، ہر کا نفر نس اور ہر محفل میں ان کا یہی مشغلہ ہے ، جس کا اثر یہ ہو ر ہا ہے کہ عا م مسلما نو ں کا علما سے جو وا لہا نہ تعلق تھا ، وہ کمز و ر پڑ گیا ہے ۔ چنا نچہ اس قبیح عمل سے بچنے کے سا تھ ، ہمیں سیر ت ر سو ل سے رو شنی لینے کی ضر و ر ت ہے ۔ ایسے لو گ مد عو کی ہد ایت سے زیا دہ اس کو بر سر عا م ر سو ا کر نے کے خو ا ہش مند ر ہتے ہیں اور مخا لفین کی قلعی کھو ل کر وہ فخر و ا نبسا ط محسو س کر تے ہیں ، وہ مد عو سے لڑ جھگڑ کر د عو ت د ینے پر یقین ر کھتے ہیں جو کھلی ہو ئی حما قت ہے ۔
ہجر ت کے بعد سے چھ سا ل تک مملکت اسلا میہ د شمنو ں کے سا تھ بر سر پیکار ر ہی ، اس کی و جہ سے اعلیٰ پیما نے پر د عو تی مہم شر و ع نہیں ہو سکی تھی، اس لیے اب قتل و قتا ل کے بجا ے مصا لحت اور امن وا ما ن کے سا یے میں اسلا می د عو ت پُر ز و ر طر یقے پر شر و ع ہو ئی ، جس کا نتیجہ یہ ہو اکہ اعلا ن نبو ت کے بعد سے اب تک کے انیس بر سو ں سے کہیں زیادہ اسلا می د عو ت کا دا ئر ہ وسیع ہوا ، خا لد بن و لید اور عمر و بن عا ص جیسے سپہ سا لا ر اسلا م کے دامن میں آ گئے ۔
آ ج سب سے بڑ ی ضر و ر ت یہ ہے کہ رسو ل ﷺ کی سیر ت طیبہ با لخصو ص صلح حد یبیہ جیسے واقعا ت سے عبر ت اور نصیحت حا صل کی جائے ، جس میں ہما رے تما م مسا ئل کا حل مو جو د ہے اور اس کے بغیر نہ تو د عو ت میں د ر د و سو ز پیدا ہو سکتا اور نہ ہی اقا مت دین کا خو اب شر مند ۂ تعبیر ہو سکتا ۔ یہ صد ی اسلا م کی صد ی ہے ، لیکن کیا ذ ہنی طو ر پر ہم اسلا م کی فتح مبین کے لیے تیا ر ہیں ؟ یہ سب سے بڑ ا سوا ل ہے .

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *