آہ! یہ بے چارےہند کے مسلمان۔۔۔!

ڈاکٹر عابد الرحمن ( چاندور بسوہ)
پچھلے سال وزیر اعظم نریندر مودی نے لندن دوران صوفی ازم کی سراہنا کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ اگر صوفی ازم کا پیغام صحیح طور پر سمجھا جاتا تو دہشت گردی کا مسئلہ ہی پیدانہیں ہوتا۔‘ مودی جی کے اس بیان کے بعد ضروری تو یہ تھا کہ انہیں یاد دلایا جاتا کہ حضور صوفی ازم اور رام رحیم کا یہ درس پہلے آپکی پارٹی کے کارکنان ، لوک سبھا میں آپکے ساتھی اور ان کابینی رفقاء کے لئے اشد ضروری ہے جو آئے دن مسلمانوں یا اقلیتوں یا اپنے سیاسی و سماجی مخالفین کے خلاف ہزیان بکتے ہیں فرقہ وارانہ اشتعال انگیزیاںکرتے ہیںاور جھوٹی سچی باتوں کے ذریعہ اکثریتی فرقہ کو اقلیتوں کے خلاف مشتعل کرتے ہیں ۔ان لوگوں کے لئے بھی ضروری ہے جنہوں نے دادری میں ایک نہتے معمر شخص کو اس کے ہی گھر میں گھس کر صرف اس لئے مار ڈالا کہ کسی نے اس کے متعلق یہ جھوٹی افواہ پھیلا دی تھی کہ اس نے گائے ذبح کی ہے ،صوفی ازم کا پیغام ان لوگوں کے لئے تو اشد ضروری ہے جو گائے کی حفٖاظت کے نام پر بہت دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے قانون شکنی کرتے پھر رہے ہیں ۔لیکن ہوا اس کے الٹ مودی جی نے صوفی ازم کا ذکر کیااور ہم بے چارے مسلمان بھی اسی کام سے لگ گئے ۔ مودی جی کے بیان کے فوراً بعد ہم نے اپنے آپ کو داعش کی دہشت گردی سے الگ کر نے کے لئے کہ داعش کو’ خالص سلفی ‘تنظیم قرار دیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ جو کچھ ظلم و ستم اور دہشت گردانہ وارداتیں وہ کر رہی ہے وہ دراصل اس کے سلفی یا وہابی نظریات کی وجہ سے ہی کر رہی ہے ۔

یہی نہیںبلکہ ہم نے داعش کی کارروائیوں کا جائزہ لئے بغیر اور اس پر غور کئے بغیر کہ اسکی ان کارروائیوں سے فائدہ کس کا اور نقصان کس کا ہورہا ہے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ امریکہ و اسرائیل کی ایجنٹ ویجنٹ بھی نہیں ہے ۔ گویا مودی جی نے دہشت گردی کے مقابل صوفی ازم کا نعرہ بلند کیا اور ہم نے سلفیت یا وہابیت کو دہشت گردی قرار دے کر اپنا ہی بازو کاٹنے کی کوشش شروع کردی۔اور چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق اپنی صفائی پیش کردی کہ حضور ہم اگر صوفی نہیں بھی ہیں تو دہشت گرد بھی نہیں کیونکہ دہشت گردی تو سلفی یا وہابی کرتے ہیںاور ہم ان کو مسترد کرتے ہیں۔ اور صاحب بات یہیں ختم نہیں ہوئی ہم اس سے بھی آگے بڑھ گئے ہم نے دہشت گردی کے خلاف ایک کل ہند کانفرنس منعقد کی جس میں یہ اعلان کردیاکہ انڈیا میں داعش مختلف ناموں اور بینرس تلے فعال (Active )ہے اور داعش کے یہ ٹکڑے ( جنہیں سعودی عرب اور قطر سے مالی امداد ملتی ہے ) انڈیامیں کانفرنس اور پروگرامس منعقد کرتے ہیں تاکہ اپنے مالی معاونین کو انڈیا میں اپنی موجودگی دکھلائی جاسکے ۔ اس میں ہم نے وہابی ازم کی مذمت کی اور حکومت سے مطالبہ بھی کیا گیا کہ وقف بورڈ اور اقلیتی تعلیمی اداروں پر سے وہابی اور دیو بندی پیروکاروں کے غلبہ کو کم کیا جائے ۔ دیکھئے بات کہاں صوفی ازم بمقابل دہشت گردی سے شروع ہوئی تھی اور ہم نے اسے کہاں صوفی ازم بمقابل سلفیت اور پھر دیوبندیت تک پہنچا دیا۔ بات یہاں بھی نہیں تھمی ہم نے ایک بین الاقوامی صوفی کانفرنس بھی منعقد جس کا افتتاح وزیر اعظم مودی جی کے دست مبارک سے کروایا اس میں دہشت گردی کی مذمت کی گئی اور حکومت سے کچھ اچھے مطالبات بھی کئے گئے لیکن یہ کانفرنس بجائے خود مسلمانوں میں تفریق اور پھوٹ کا ذریعہ بن گئی اس سے مسلمانوں کی صوفی اور غیر صوفی تقسیم تو اجاگر ہوئی ہی خود صوفی ازم کے ماننے والوںمیں بھی پھوٹ پڑ گئی کہ بہت سے صوفیاء کرام نے اسے مسلمانوں کو تقسیم کر نے کا حکومت کا سیاسی شعبدہ قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی تھی۔ یہ ہم مسلمانوں کی بے چارگی بے وقوفی اور بے شعوری نہیں تو اور کیا ہے کہ مودی جی نے صوفی ازم کو وہابییت یا سلفیت یا ہمارے کسی اور فرقہ کے ذکر کے بغیر صرف دہشت گردی کے مقابل استعمال کیا تھا لیکن ہم مسلمانوں نے تووہ کچھ کہنا شروع کردیا جو خود مودی جی نے بھی نہیں کہا تھا ۔مودی جی نے دہشت گردی سے مقابلے کی بات کی تھی اور ہم مودی جی کی بات میں ہی ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہو گئے ہیں اور خود اپنے ہی ہاتھوں اپنے بازو کاٹنے لگے ہیں@حیراں ہو دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں!داعش یا کوئی بھی دہشت گرد تنظیم سے ہم مسلمانوں کو من حیث القوم کسی بھی قسم کی کوئی ہمدردی نہیں ہے اورہونی بھی نہیںچاہئے بلکہ ان کی مذمت و مخالفت کرنا اور اسلام کی شبیہ خراب کرنے والے اور اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر نے والے اور امت مسلمہ کو مسلکی اور نظریاتی بنیادوں پر منتشر کر نے والے ان کے پروپگنڈے کو ناکام کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے ہمیں کسی حکومت یا کسی نریندر مودی کی اکساہٹ یا واہ واہی کی بھی ضرورت نہیں ہونی چاہئے اور اگر کہیں سے یہ اکساہٹ مل رہی ہے تو ہمیں اس کے منظر و پس منظرکو سمجھنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہئے اور اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی مسلک اور عقائد کی بنیاد پر نہ ہو وگر نہ اس سے تو پہلے ہی سے منتشر امت مسلمہ مرحومہ مزید بکھر جائیگی اوریہ وطن عزیز سمیت پوری دنیا میں ہمارے خلاف سازشیں کر نے والوں اور ان سازشوں میں شریک ہونے والوں اور ہمیں تقسیم در تقسیم کر کے سیاسی و سماجی فوائد بٹورنے والوں کی مدد ہوگی ۔ لیکن ہم بے چاروں کو اتنی فرصت کہاں۔ صاحب ہمارا حال تو یہ ہے ہم کو صرف اپنے ذاتی فوائد عزیز ہیں قوم بھاڑ میں جائے اس کی ہمیں کوئی فکر نہیں۔ اسی طرح ’بھارت ماتا کی جئے ‘کا بھی معاملہ ہے ۔ پچھلے دنوں جے این یو معاملے کے پس منظر میں سنگھ سربراہ نے کہا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ ہم نئی نسلوں کو بھارت ماتا کی جئے نعرہ سکھائیں۔اور صاحب ہمارے ذی علم و ذی وقارفاضل و قابل اور بہترین صلاحیتوں کے مالک سیاستداں بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب نے ایک ریلی میں بالکل سنگھ ہی کی اسٹائل میں کہہ دیا کہ وہ بھارت ماتا کی جئے نہیں بولیں گے چاہے ان کے گلے پر چاقو ہی کیوں نہ رکھ دیا جائے ۔ اور انہی کی پارٹی کے ایک ممبر کو مہاراشٹر اسمبلی نے صرف اس لئے سسپنڈ کردیا کہ انہوں نے بھارت ماتا کی جئے کہنے سے انکار کردیا تھا ۔ ’بھارت ماتا کی جئے‘ صرف سنگھ کا نظریہ ہے ملک کا آئین نہیں اور حب الوطنی کیا ہے اور کیا نہیں ہے یہ سنگھ طئے کرنے والا کون ہوتا ہے؟ اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمانوں نے حب الوطنی کا اظہار ہمیشہ عملی طور پر کیا ہے اور اب بھی کئی شعبوں میں کر رہے ہیں۔ بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ سنگھ نے دراصل اپنی مسلم مخالف آئیڈیا لوجی کے اظہار کے لئے ہی اچھالا تھا اور سنگھ یہ نعرہ ملک کے ہر ہندو کے ذہن میں پوری طرح بٹھانے میں بھی کامیاب ہو گیا ہے ،اور یہی نعرہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ ماحول بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔اور اب محترم اویسی صاحب کے ردعمل کے بعد اس میں مزید شدت آگئی ہے ۔ اس نعرے کی شرعی اور قانونی حیثیت اپنی جگہ ،ہم مسلمان اسے نہیں بول سکتے یہ بات اپنی جگہ ہے لیکن اس پر ہونے والی سیاست کو بھی نظر میں رکھنا چاہئے ۔ اگر اویسی صاحب سنگھ سر براہ کی بات کو جواب نہ دیتے تو بات جہاں کی تہاں ختم ہو جاتی تھی ،اویسی صاحب کے ردعمل سے مسلمانوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ روہت ویمولا کی خود کشی اور جے این یو معاملہ کے بعد ملک میںدیش بھکتی اور دیش دروہ کے تنازعہ میں پہلی بار آر ایس ایس اور دلت اور اکثریتی ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ آمنے سامنے آگئے تھے اور سنگھ اس سے بچنے کے لئے موقع کی تلاش میں تھا کہ اویسی صاحب کے بیان نے انہیں وہ موقع فراہم کردیا اویسی صاحب کے ردعمل کع بہانہ بنا کر وہ اس معاملہ سے ہندوؤں اور دلتوں کو ہٹا کراسے روایتی ہندو مسلم تنازعہ کی شکل دینے میں کامیاب ہوگئے ۔ اویسی صاحب کے ردعمل کے بعد ہی بی جے پی نے اپنی نیشنل ایکزیکیٹیو میٹنگ میںبھارت ماتا کی جئے نہ بولنے کو آئین ہند کی بے عزتی قرار دے کر دراصل اکثر یت کو بھارت ماتا کی جئے نہ کہنے والوں ( مسلمانوں ) کے خلاف پولرائز کر نے کی کوشش کی، بی جے پی بھی جانتی ہے کہ بھارت ماتا کی جئے کہنا آئین ہند کے مطابق ضروری نہیں لیکن اس نے محض سیاسی فوائد کے حصول کے لئے اور روہت ویمولا اور جے این یو معاملہ اور دوسرے سیاسی و سماجی اشوز سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے یہ چال چلی اور افسوس کہ اس کا محرک مسلمانوں کے ایک قابل لیڈر بنے۔اسی طرح اویسی صاحب کی وجہ ایک عرصہ سے بی جے پی سے توتو میں میں ‘ میں گرفتار شیو سینا کو بھی مسلم مخالف اشتعال انگیزی اور پاکستان یا قبرستان کی سیاست کا موقع مل گیا دراصل بی جے پی یا سنگھ یا ہندوتوا کی سیاست کر نے والوں کو اپنی مسلم دشمن سیاست کے لئے بھی کسی مسلم چہرے کی ضرورت ہے اور اس سے ان لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ جس لہجہ میں وہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کرتے ہیں مسلمانوں میں سے بھی کوئی اٹھے اور اسی لہجے میں ان کے خلاف بولنے لگے تاکہ ہندو مسلمانوں کو خطرہ سمجھ کرہندوتوا کا جاپ کرنے والے ان لوگوں کو اپنا محافظ سمجھیںاور سیدھے ان کے خیمے میں چلے آئیں اور دوسری طرف مختلف پارٹیوں میں بٹے مسلمانوں کی کچھ تعداد اپنی طرف سے بولنے والے کی طرف جھک کر مزید تقسیم کا شکار ہوجائے ۔ اویسی صاحب ایک قابل لیڈر ہیں اور پارلمنٹ میں جس بے باکی سے وہ مسلم مسائل کو پیش کرتے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ مسلمانوں کے سچے ہمدرد بھی ہیں۔ لیکن ان کی اشتعال انگیزی اور جذبات کی سیاست سے کس کا فائدہ اور کون نقصان ہوگا انہیں یہ سوچنا چاہئے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ بی جے پی سے سانٹھ گانٹھ کئے ہوئے ہیں ہم اس پر تو کوئی رائے نہیں دیتے لیکن کیا وہ اس طرح کے نان اشوز کو اچھال کر سنگھ اور بی جے پی کے آلہء کار نہیں بن رہے ہیں ؟ یہ بات صدق دل سے انہیں بھی سوچنی چاہئے اور امت مسلمہ کوبھی ۔ dr.abidurrehman@gmail.com