ملت کی شیرازہ بندی کے لیے صحابۂ کرام کا اسوۂ حسنہ مشعل راہ!

جامع مسجد اورنگ آباد(مہاراشٹر) میںجمعہ کی نماز کے بعدمدارس اسلامیہ کے سفراء کرام چندہ کے لیےلائن لگاکر بیٹھے ہوئےہیں-کیایہ ملت کا زوال نہیں ہے کہ دینی رہنماووں کو اسلامی قلعوں کی حفاظت کے لیے مسجدوں میں فقیروں(معذرت)کی طرح بیٹھنا پڑرہا ہے۔(تصویر:معیشت)
جامع مسجد اورنگ آباد(مہاراشٹر) میں جمعہ کی نماز کے بعدمدارس اسلامیہ کے سفراء کرام چندہ کے لیےلائن لگاکر بیٹھے ہوئےہیں-کیایہ ملت کا زوال نہیں ہے کہ دینی رہنماووں کو اسلامی قلعوں کی حفاظت کے لیے مسجدوں میں فقیروں(معذرت)کی طرح بیٹھنا پڑرہا ہے۔(تصویر:معیشت)

ہارون موزہ والا
تاریخ شاہد ہے کہ بعثت نبوی علی صاحبھاالف الف تحیۃً وسلاما سے قبل ہر طرف ظلم وستم کا دور دورہ تھا، قتل وغارت گری، خوں ریزی لوٹ مار، فحاشی اور بے حیائی ، شراب خوری نشہ بازی اوردرندگی سے یہ دنیاایک جہنم کدہ بنی ہوئی تھی، اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں خالقِ کائنات نے اپنے محبوب ﷺ کو’اقرا‘کے پیغام کے ساتھ مبعوث فرمایا۔
جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں’اقرا‘ کی جو صدا بلند ہوئی، کون اندازہ لگا سکتاتھا کہ براہِ راست ظلم وستم کے خلاف علم جہاد بلند کئے بغیرحصول علم کی طرف رغبت دلانے ،متوجہ کرنے اورساتھ ہی اپنے رب کے نام کے ساتھ علم حاصل کرنے کے اِس پیغام میں ایسا جادو پوشیدہ ہے جو گناہ وطغیانی کے سیلاب کا رُخ موڑ سکتاہے جوحیوانی جذبات کے شکار انسانوں کوملکوتی صفات سے متصف کرسکتاہے، جوسفاکی کورحمدلی میں ،جولوٹ مار کو ایثار وقربانی میں تبدیل کرسکتاہے۔
وہ انقلابی پیغام الحمدللہ ہمارے پاس جوں کا توں موجود ہے، ضرورت ہے کہ ہم اُس کی طرف سچے دل سے رجوع ہوں، اپنے دماغ میں اپنے آپ کو’کچھ‘سمجھنے کے پندار سے آزاد ہوںاوربارگاہِ الٰہی میں ایک عاجز بندے کی حیثیت سے ہم صرف جسمانی اعتبار سے سر جھکانے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ اپنے فکروفہم اورعلم و دانش کوبھی مکمل طورپر اطاعت وفرماں برداری کے لیے پیش کردیں ،ہماری سوچ رضائے الٰہی کی سوچ بن جائے،ہمارے جذبات اپنے خالق ومالک کی مرضی کے تابع ہوجائیں، ہمارے سائنسی علوم ہم پر جہاں کائنات میں پھیلی قدرت کی عظیم ترین صناعی اورحکمت ودانش سے معمور صنعت تخلیق سے فیضیاب ہونے کے ابواب روشن کرے وہیں ہمیں زہریلے بموں کی تخلیق سے باز رکھتے ہوئے مخلوق کے لیے مفید اورصحت بخش مصنوعات ایجاد کرنے کے ہنر سے نوازے۔
ہمارے پاس وہ پیغام الٰہی توضرور موجود ہے لیکن ہماری محرومی یہ ہے کہ ہم سرکار دوعالم ﷺکی صحبت عالیہ سے محروم ہیں، اس محرومی کی تلافی اِس طرح ہوسکتی ہے کہ سب سے پہلے ہم ’اقرا‘کے حکم پر عمل پیرا ہوکراپنے آپ کو علم سے آراستہ کریں۔یہ علم بھی باسم ربک الذی خلق کے حکم کے تحت ہمیں ہر وقت ہر لمحہ اپنے رب کے حکم کا تابعدار بنائے، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے مکی دور میں صرف اورصرف رضائے الٰہی کی خاطر صبر اور عزیمت کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم فرمائیں جب کہ اُن میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے جیالے اوربہادر موجود تھے، لیکن اپنے جذبات کوکچلنے اوررب عظیم کو راضی کرنے کی خاطر اپنے آپ کو تقریباً مٹا کررکھ دیاتھا رات دن اُن کے سامنے بربریت اورسفاکیت کے مظاہرے ہوتے تھے، لیکن اُنہوں نے اپنے اندر قوت برداشت کی ایسی نشوونما کی اوراپنے نفس کو کنڑول کرنے کی ایسی صلاحیت پیدا کی کہ رب کریم نے اُنہیں اس قابل قرار دیاکہ 60فیصد دنیاپر وہ حکمرانی کرسکیں۔
سرور کائنات ﷺ اپنے جسد اطہر کے ساتھ ہمارے سامنے موجود نہیں ہیں، لیکن اُن کی پاکیزہ تعلیمات سے ہم اپنی روح کا تزکیہ کرسکتے ہیں، اپنے نفس کوسنوار سکتے ہیں، ہمیں ہر قدم اُٹھانے سے قبل اپنے ضمیر کو بے دار کرتے ہوئے پوچھنا چاہئے کہ آیا یہ نعرہ بازی میرے نفس کی برتری کی آواز ہے یا تقاضائے شریعت ہے، آیا میرے جذبات ترجمانِ دین ہیں؟یامیری اَنا اوربرتری کے؟مدینہ منورہ میں جب کہ جنگ کی اجازت مل چکی تھی،اِس کے باوجود اہل کتاب جوسازشی اندازمیں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان کو ڈگمگانے اورگمراہ کرنے کی کوشش کررہے تھے، اُن سے عفو ودرگزر سے کام لینے کا حکم دیاگیا تھا، اوراُن کی سازش کا مقابلہ کرنے کی خاطر اقامت صلوۃ کا نظام قائم کرنے اورنظم زکوٰۃ کومستحکم کرنے ہی کو اُن کی سازشوں کے سدّباب کاعلاج قرار دیا گیا۔(سورۃ بقرہ ،آیت۱۰۹)
آج ہم مدنی دورمیں نہیں ہیں بلکہ مکی دور جیسے حالات میں جی رہے ہیں، ہمیں ہمارے اقامت صلوٰۃ کے نظم کو مستحکم کرنا چاہئے، ہماری مساجد میں آنے والے نمازیوں کورحماء بینھم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بے انتہا خیر خواہ بن کرہمدردی کے ساتھ پیش آناچاہئے، بدگمانی ،بداندیشی اور خیانت کے جرم سے گلوخلاصی حاصل کرلینے کے لیے ہمیں اپنے اندر اِس احساس کو خوب تروتازہ کرتے رہناچاہئے کہ جورب کریم ہمیں ہر آن سانس لینے کے لیے مسلسل آکسیجن فراہم کررہاہے، وہ لازماًہمارے نفس میں پیدا ہونے والے جذبات سے واقف ہے، مجھے میرے رب کو راضی کرنے کی خاطر کسی انسان کے بارے میں بدگمانی نہیں رکھنی کسی کا برا نہیں چاہنا ہے،اپنے نفس کی ماننے کی بجائے قرآن کریم کی تعلیم پر رسولِ اکرم ﷺکی تفہیم کے مطابق مجھے چلنا ہے،میں آزادیٔ نفس سے کام لوں گا تومجھ سے بہت سے بندوں کی حق تلفی ہوگی، کتنے پیارے ہیں ہمارے حبیب پاک ﷺ جنہوں نے اپنے میں ایک ’امیر‘کومقرر کرنے کی ہدایت سے نوازا، سفرمیں تین اشخاص ہوں تواُن میں سے ایک کو امیر مقررکرنا لازمی قرار دیاگیا۔
اِس دورمیں ہمارے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈکوپورے بھارت کے مسلمانوں کے لیے نمائندہ بورڈ قرار دے دیاہے،ہمیں صرف یہ کرناہے کہ ہر مسلک کے پیرو، بورڈ کے اپنے مسلک کے علماء کی ہدایت کے مطابق عمل کریں، مثلاً ہمارے شیعہ برادران مولانا کلب صادق صاحب کو اپنا امیر تسلیم کرلیں، اہل سنت والجماعت میں سے دیوبندی حضرات حضرت مولانا سالم صاحب یاکسی اوربزرگ کے زیر قیادت ہونا تسلیم کرلیں اوربریلوی مسلک کے عقیدتمند ان حضرت مولانا عبیداللہ اعظمی صاحب یا کسی اوربزرگ کے زیر قیادت ہوجائیں، اہل حدیث حضرات مولانا عبدالوہاب خلجی صاحب کو اپنا امیر قرار دے لیں، جماعت اسلامی کے حضرات حضرت مولانا صدرالدین اصلاحی صاحب کو اپنا امیر بنائیں، یہ سب امرأ حضرات اپنے میں سے کسی کو امیر مقرر کرلیں، پھراُنہی کے مشورے کے مطابق میڈیا میں نمائندگی کے لیے چند حضرات طے کئے جائیں تاکہ مختلف زبانوں کے ماہرین باہم شورائیت کے ساتھ انتہائی لوجیکل اندازمیں اپنی بات کو پیش کرسکیں، اس طرح حسب ضرورت ملت کے مختلف ماہرین سے خدمات لی جائیں، اوقاف کے ماہرین ،لیگل ایکسپرٹ، اکنامکس کے ماہرین جوملت کو معاشی طورپر خود کفیل بنانے کے لیے اپنی علمی مہارت سے فیض پہنچاسکیں، تعلیمی میدان کے ماہرین اصحاب خیروغیرہ سب پر مشتمل ایسا ٹھوس نظام مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ماتحت قائم ہونا چاہئے جوملت کو تمام سازشوں سے بچاتے ہوئے ٹھوس تعمیری محاذ پر نمایاں خدمات انجام دینے پر فائز کردے۔
قارئین کرام میں بہت سے مختلف میدان کے ماہرین بھی یقیناہوں گے وہ زیادہ ٹھوس اندازمیں ملت کوشیرازہ بند کرنے کی خاطراپنی تجاویز آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ میں بھجوائیں۔ اللہ کرے ہزاروں خطوط کاطومار بوڑ کے ذمے داروں کو متحرک ہونے پر آمادہ کرے۔آمین۔
اپنی تجاویز اسی ای میل پر آپ بھیج سکتے ہیں: E-mail:aimplboard@gmail.com
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *