’یوم مادری زبان‘محبانِ اُردو کے لیے لمحۂ فکر

محمد عارف اقبال
محمد عارف اقبال

ـــــــ محمد عارف اقبال
ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی

اردو ہماری مادری زبان ہے، یہ کہتے ہوئے محبانِ اردو نہیں تھکتے۔ اس بار بھی ’عالمی یوم مادری زبان‘ (21 فروری 2016) کے موقع پر اردو اداروں اور انجمنوں نے مخصوص بیٹھک کرکے رسمی طور پر ہی سہی، مادری زبان کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نئی نسل کی اکثریت اپنے جدید تعلیمی پس منظر کے سبب اس مخمصہ (dilemma) میں مبتلا ہے کہ اس کی مادری زبان کیا ہے؟۔۔۔ اردو، انگریزی، ہندی اور علاقائی الفاظ کے کثرتِ استعمال کے ساتھ بعض اوقات ان کا لب و لہجہ بھی بدلا ہوا ہوتا ہے۔ اردو الفاظ کا تلفظ بھی متاثر ہوا ہے۔ اردو کے وہ ’مہذب تعلیم یافتہ اساتذہ‘ جو مرعوبیت کی وجہ سے انگریزی الفاظ یا جملوں کے سہارے اردو بولنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کامسئلہ مختلف ہے۔ یہاں مسئلہ اس نئی نسل کی مادری زبان کا ہے جس کی تعلیم و تربیت ایک مخلوط کلچر میں ہورہی ہے اور جس کی ادبی دنیا ’مادری زبان‘ سے کٹی ہوئی ہے۔ اس نسل کے اردو گرد ایسے ’اہل اردو‘ پائے جاتے ہیں جنہوں نے صرف انگریزی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنارکھا ہے۔
معروف صحافی سہیل انجم نے اپنے ایک مضمون (انقلاب، 19 اپریل 2015) میں قومی کمپنیوں میں کام کرنے والے دہلی کے تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی اردو زبان کا ایک نمونہ پیش کیا تھا۔ مثلاً ایک نوجوان جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر آتا ہے اور اپنے موبائل پر کسی سے کہتا ہے: ’’بردر سوری! آج ’فرائڈے‘ ہے نا، میں ’مَوسق‘ میں تھا اس لیے آپ کی ’کال اٹینڈ‘ نہیں کرسکا۔‘‘ اس ’اردوئے انگلشیہ‘ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اردو زبان جسے ہم مادری زبان کہتے ہیں، ہمارا سلوک کس قدر بے رحمانہ ہے۔ لیکن اس سے بھی برا سلوک ہم اپنی نئی نسل کے ساتھ کر رہے ہیں جس کی زبان و ادب کے اعتبار سے تربیت میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ ہم کلّی طور پر اِس نسل کو اس کے اسکول یا معاشرے کے ’رحم و کرم‘ پر چھوڑ چکے ہیں۔ اگر اس نسل کو اردو زبان کی چند ابتدائی کتابیں بھی پڑھادی جاتیں تو شاید اس کی حالت قدرے بہتر ہوتی۔ نئی نسل کی یہ صورت حال نہ صرف ہندوستان کے اردو گھرانوں کی ہے بلکہ پاکستانی معاشرے اور وہاں کے میڈیا میں بھی اردو کے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک کیا جارہا ہے۔
اردو کو ’مادری زبان‘ کہنے والے دانشوروں اور علمائے ادب کو شاید اب بھی یہ اندازہ نہیں ہے کہ اردو کا دلّی اور لکھنؤ اسکول فی الواقع معدوم ہوچکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اردو کا تیسرا اسکول اپنے شباب پر ہے اور مسلسل ’دعوتِ سخن‘ دے رہا ہے۔ اپنی گفتگو میں نئی نسل کے ذریعے بولے جانے والے انگریزی الفاظ پر ہم تنقید تو کرتے ہیں لیکن ہمارے پاس اسے دینے کے لیے متبادل بھی موجود نہیں ہے۔ ہم اپنی ادبی مجلسوں میں ایسے ادبا و شعرا پر گفتگو کرتے ہیں جو یقینا اردو زبان و ادب کے بنیاد گزاروں میں تھے، لیکن عہد حاضر کے ابلاغ عامہ اور ترسیل میں ان کی خدمات زیادہ مفید ثابت نہیں ہو رہی ہے۔ بعد کے ادیبوں اور تخلیق کاروں نے تو اردو زبان و ادب کو مزید پیچیدہ بنادیا۔ علامتی شاعری اور کہانیوں کی تخلیق نے اردو زبان کے ارتقا کو بری طرح متاثر کیا۔ تحقیق کے نام پر کلاسیکی شعرا کی فرہنگ تو تیار کی گئی لیکن اردو زبان کے عصری تقاضوں کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ غالباً ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ’اہل اردو‘ کی رغبت اردو میں کم ہوتی گئی۔
اردو سے رغبت کم ہونے یا معدوم ہونے کی ایک بڑی وجہ اردو کو تعلیمی اداروں سے بے دخل کردینا ہے۔ اس ضمن میں شمالی ہندوستان کے ’اہل اردو‘ نے گزشتہ ساٹھ برسوں میں ایسی مجرمانہ غفلت اور کوتاہی کا ثبوت دیا جس کے کڑوے کسیلے پھل اب پیدا ہو رہے ہیں۔ شمالی ہندوستان کے اردو میڈیم سرکاری و نیم سرکاری اسکولوں کے بیشتر اساتذہ اردو ذریعہ تعلیم سے وابستہ طلبا کے کریئر سے کھلواڑ کرتے رہے، جس کے سبب بعض طلبا نے تعلیم سے منہ موڑلیا اور اکثر طلبا کے تعلیم یافتہ والدین نے اپنے بچوں کے تعلیمی کریئر کو محفوظ کرنے کے لیے انہیں انگریزی میڈیم اسکولوں کے سپرد کردیا۔ ایک زمانے میں تعلیم یافتہ اور مالی طور پر آسودہ گھرانوں کے بچے بھی سرکاری یا نیم سرکاری اردو میڈیم اسکولوں میں زیر تعلیم ہوا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ اردو میڈیم اسکولوں کا معیار اس قدر پست ہوگیا کہ وہاں صرف پس ماندہ طبقے کے بچے ہی رہ گئے۔ اس کے بعد اردو مخالف عناصر حکومت کی سطح پر اردو کے زوال کے مزید منصوبے بنانے لگے۔ یہ کام اتنی چالاکی اور ’جمہوری طریقے‘ سے انجام دیا جانے لگا کہ ’اہل اردو‘ ہی اردو سے کترانے لگے۔ عوام میں اردو کی تعریف و توصیف بھی ہوتی رہی اور اردو کی جڑوں کو کمزور بھی کیا جاتار ہا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کام میں اردو سے دشمنی رکھنے والوں کے سب سے زیادہ معاون اردو کے بیشتر اساتذہ، ادبا اور شعرا رہے اور ۔۔۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ ایسی صورت میں نئی نسل کے طرز عمل اور اردو کے ساتھ اس کے کمزور تعلق پر تنقید کرتے رہنا تاریخی غلطی ہوگی۔ اردو سے محبت رکھنے والی یہ نئی نسل تو قابلِ تعریف ہے کہ اردو اب بھی اس کی ’مادری زبان‘ ہے۔ اِس وقت اردو کے مٹھی بھر مخلص دانشوروں اور بیدار مغز ادیبوں کو دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اردو زبان و ادب کے ارتقا اور اس کے عصری تقاضوں پر خاص توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
واضح ہو کہ سرکاری طور پر 1836 میں فارسی زبان کی جگہ اردو کو حاصل ہوئی تھی۔ اردو کا خمیر چونکہ کئی زبانوں کے الفاظ سے تیار ہوا تھا لہٰذا اس میں دوسری زبانوں اور تہذیب کو جذب کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 1857 کے ہندوستان میں رابطے کی زبان اردو ہی تھی۔ جو لوگ اسے ہندوستان میں صرف مسلمانوں کی زبان قرار دیتے ہیں وہ اپنے جھوٹ اور فریب سے خوب واقف ہیں۔ آزادی سے قبل اردو پورے ہندوستان کی سرکاری زبان تھی البتہ علاقائی طور پر جو لوگ تمل، ملیالم، بنگلہ وغیرہ کو اپنی مادری زبان خیال کرتے تھے اور آج بھی سمجھتے ہیں، ان میں مسلمان بھی شامل ہیں۔
’اہل اردو‘ میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر قوم کے افراد بھی شامل ہیں۔ اس لیے اردو کا تاریخی حق ہے کہ اسے بلاتفریق مذہب و ملت ملک کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہو۔ یہ بھی واضح رہے کہ اردو، ہندی کی معاون ہے نہ کہ حریف۔ ہندی زبان کی ترقی کا راز، اردو زبان کی ترقی میں پوشیدہ ہے۔ لہٰذا اس وقت ’اہل اردو‘ کے لیے اس بات پر اصرار کرنا کہ ’ٹیبل‘ کو ’میز‘ یا ’کینسر‘ کو ’سرطان‘ کہا جائے، شاید مناسب نہیں۔ اس کا مفہوم ہرگز یہ نہ لیا جائے کہ اردو زبان میں دیگر زبانوں کے الفاظ کو بلاوجہ ٹھونسنے کی کوشش کی جائے۔ اردو زبان میں بڑی وسعت ہے اور اس میں پھیلنے و جذب کرنے کی صلاحیت ہے۔
یہ وقت کا تقاضا ہے کہ انگریزی ادب کی طرح اردو ادب میں بھی کلاسیکی اور جدید ادب کے درمیان واضح خطِ امتیاز کھینچ دیا جائے۔ نئی نسل کو اُس تخلیقی ادب سے باضابطہ روشناس کرایا جائے جس میں جنگ عظیم دوم کے بعد نئے تجربے کیے گئے اور ’اہل اردو‘ کی اکثریت نے اس کا تہہ دل سے استقبال کیا۔ اس نے غیر اردو داں طبقے کو بھی اردو سیکھنے اور پڑھنے پر مجبور کیا۔ میری مراد اردو دنیا کے لاثانی ادیب ابن صفی کے تخلیقی ادب سے ہے۔ یہ تخلیقی ادب اپنے فن، عصری تقاضے، مکالماتی اسلوب اور ابلاغ و ترسیل کے اعتبار سے ’مثالی ادب‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ابن صفی نے بیسویں صدی میں اکیسویں صدی کے لیے ایسا پُرکشش ادب تخلیق کیا جس میں عصر حاضر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اِس وقت یہ بھی ناگزیر ہے کہ اردو زبان و ادب کا ایک مکمل عصری لغت تیار کیا جائے جس میں عالمی صنعتی انقلاب سے تاحال تشکیل پانے والے الفاظ اور مترادفات کو جمع کرکے انہیں اردو کا حصہ بنایا جائے۔ اس لغت میں عصری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کم سے کم ہر دوسال کے وقفے سے اپڈیٹ کرنے کا نظم بھی کیا جائے۔ اس عظیم کام کو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (NCPUL) بجاطور سے انجام دے سکتی ہے۔ ملک میں اردو کی حقیقی ترقی کے لیے قومی کونسل اس کا استحقاق بھی رکھتی ہے۔ قومی کونسل کا یہ کام اردو سے وابستہ نئی نسل پر عظیم احسان ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *