’’اردو صحافت کل، آج اور کل‘‘مقالہ کا مکمل متن

بہار اردو اکیڈمی کے کل ہند سیمینار میں معیشت کے مدیردانش ریاض مقالہ پڑھتے ہوئےجبکہ اسٹیج پر شگفتہ یاسمین،مشتاق نوری،اشرف فرید وغیرہ کو دیکھا جاسکتا ہے(تصویر: معیشت)
بہار اردو اکیڈمی کے کل ہند سیمینار میں معیشت کے مدیردانش ریاض مقالہ پڑھتے ہوئےجبکہ اسٹیج پر شگفتہ یاسمین،مشتاق نوری،اشرف فرید وغیرہ کو دیکھا جاسکتا ہے(تصویر: معیشت)

دانش ریاض

بہار اردو اکیڈمی کے سکریٹری ،دیگرذمہ داران ،سیمینار کے منتظمین ،صحافی دوستو!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
اللہ کابڑا کرم ہے کہ عظیم آبادکی سر زمین پر میں لب کشائی کی جرات کر رہا ہوں ۔قیوم خضرمرحوم اور انجم مانپوری مرحوم کے خانوادے سے تعلق ہے لہذا اردو صحافت سے موروثی رشتہ رہا ہے۔اسی کے ساتھ جب صادقپور، قربان گاہِ آزادی وطن بنا تو ہمارے اسلاف نے اپنی بساط بھر وہ تمام کارنامے انجام دئے جسے آج بھی سنہری حروف میںصفحہ قرطاس پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے محترم ڈاکٹر ریحان غنی جیسا استاد نصیب ہوا،جنہوں نےصحافتی میدان میں’ کچھ‘ کرنے کےلئے مجھے پٹنہ سے ممبئی کی راہ دکھائی اور ا ب بہار اردو اکیڈمی کے سکریٹری جناب مشتاق احمد نوری صاحب نے ممبئی سے پٹنہ بلاکر اس صحافتی اجلاس میں شرکت کا موقع عنایت کیا ہے، جو میرے لیے نہ صرف باعث افتخار ہے بلکہ آزمائش سے بھی بھر ا ہوا ہےکہ میں حق بھی ادا کرپائوں گا یا نہیں۔!!
محترم حاضرین!
ماضی میں اردو صحافت نے ہمارے معاشرے میں نہ صرف ملکی سطح پر دور رس اثرات مرتب کیے ہیں بلکہ ریاستی سطح پر غلام سرور مرحوم کی ادارت میں شائع ہونے والا روزنامہ سنگم لوگوں کےلئےتاج و تخت کے حصول میں بھی اہم فیصلے کا سبب بنتا رہا ہے۔جنگ آزادی میں اردو صحافت کی خدمات ،تقسیم ہند میں اردو صحافت کا کردار جیسے موضوعات پر اب گفتگو سوائے وقت کے ضیاع ،کچھ اور نہیں کہ اس کی حقیقت سب پر کھل چکی ہے۔ لہذا ضرورت اس اَمر کی ہے کہ آج کی اردو صحافت نے فی زمانہ کیا خدمات انجام دی ہیں؟ ہم اس کا جائزہ لیں تاکہ نئی نسل نہ صرف اس سے واقف ہو بلکہ اسے اس کی اہمیت کا اندازہ بھی ہوسکے۔
ایک دہائی قبل تک ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اردوصحافت اپنی موت آپ مر جائے گی اور متعصب سیاسی ٹولہ اس کی اَرتھی اٹھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑے گا۔مختلف ریاستوں کے اخبارات کی اشاعت کا بند ہونا خود ’’قومی آواز‘‘ جیسے قومی اخبار کی سیاسی سرپرستی سے محرومی مخدوش حالات کا پتہ دے رہی تھی۔اردو کے بالمقابل دوسری زبانوں کے اخبارات کی سیاسی سر پرستی نے یقیناً اسے نقصان پہنچایا تھالیکن عوام میں اردو کی مقبولیت اور مدارس و مکاتب میں اردو کی خواندگی نے ماحول میں تبدیلی پیدا کی اور کارپوریٹ اداروں کے ساتھ جدیدتکنیک نے لب دَم اردو صحافت کو ایسا تریاق دیا کہ’’ فاتحہ خوانی‘‘ کرنے والے ’’جشن‘‘ منانے پر مجبور ہونےلگے۔ ملکی پیمانہ پر روزنامہ راشٹریہ سہارا کے بارہ اڈیشن کا اجرااور روزنامہ انقلاب کا جاگرن گروپ کے ذریعہ دو سو کروڑ میں سودا، اسی جشن کے منظر نامے ہیں ۔
اردو صحافت اس دور میں
یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو صحافت آج بھی اپنے دور رس اثرات سے محروم نہیںہے۔ملّی مسائل پر اس کی نمائندگی قوم و ملت کے لئے نئی جہت سے کم نہیں ہے ۔ایک طرف جبکہ قومی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی سازشی ٹولے کا ہتھیار بن کر اپنا شکارکر رہا ہے تووہیں اردو صحافت ، اس ٹولے کا بھرپور جواب دینے کی کوشش کر رہی ہے۔

دہشت گردی کے نام پر جب سازشی ٹولہ ملکی مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اردو صحافت ہی ہے جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی عام قارئین کے سامنے پیش کرنے کا کام کررہی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے نام پر جب بے گناہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور قومی میڈیا نے ان کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی تو یہ اردو کے اخبارات ہی تھے جنہوںنے حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرکےنہ صرف ملزمین کی بے گناہی کو عوام میںواضح کیا بلکہ سازشی ٹولے کے بارے میں ملت کو آگاہ بھی کیا کہ اب مسلم نوجوانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف ملک میں بنائے گئے ماحول سے اگر کوئی عوام کو آگاہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اس میںحالیہ اردو صحافت کا بڑا عمل دخل ہے۔
ملک گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار بنا رہے اور یہاں اخوت و محبت کی فضا قائم رہے جبکہ سیکولر قدروں کی امانت کو آج بھی اردو میڈیاہی نے سنبھال رکھا ہے۔
اردو صحافت خواہ وہ مہاراشٹر کی ہو،دہلی و اتر پردیش کے ساتھ بہار یا پھر مغربی بنگال کے ساتھ آندھرا،تلنگانہ وکرناٹک کی ۔ان تمام مقامات پر اس نےاپنےاثرات مرتب کئے ہیں اور سماجی سروکار کے ساتھ سیاسی رابطے کی کڑی کے طور پر اپنا وجود منوایا ہے۔
حالیہ اردو صحافت کےمسائل
حالیہ اردو صحافت نے ملک میں مثبت اثرات تو مرتب کئے ہیں لیکن اسی کے ساتھ وہ مسائل سے بھی گھری ہے۔سرکاری سطح پر معاملہ یہ رہا ہے کہ حکومت نے اسے روپئے میں چار آنے کا بھی اشتہار دینے کی کوشش نہیں کی ہے۔
ملک مہنگائی کی مار جھیل رہا ہے لیکن دوسری زبان کے صحافی اس مہنگائی میں بھی بآسانی پر تکلف زندگی گذار رہے ہیںالبتہ اردو کے صحافیوں کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ انہیں دو وقت کی عزت کی روٹی بھی میسر نہیں آتی جبکہ علاج و معالجہ اور بچوں کی تعلیم و تربیت پر تو وہ خرچ کرنے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے۔بیشتر اردو اخبارات میں صحافیوں کی محنت کی بالائی یا تو مالکان کھا جاتے ہیں یا چالاک ایڈیٹر اسے صرف اپنی جیب تک محدود رکھتا ہے۔رپورٹر ،سب ایڈیٹر اور ڈی ٹی پی آپریٹر کی حالت نہ صرف تکلیف دِہ ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات تو ناقابل بیان بھی۔
اسی کے ساتھ اردو اکیڈمیاں جو اردو کے فروغ کے لیے قائم ہوئی ہیں لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑ رہی ہے کہ مذکورہ اکیڈمیاں بھی اب صرف سیاسی آلہ کاروں کی حاشیہ بردار بن گئی ہیں اور وہ بھی صحافیوں کے لیے خاطر خواہ اقدام نہیں کرتیںجب کہ ان اکیڈمیوںکے قیام کا اصل مقصد تو اردو او راہل اُردو کو مستحکم کرنا اور ترقی دینا ہے ۔
ان مسائل میں تاریک اور تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ وہ لکھاری جنہیں قلم پکڑنے کا صحیح سلیقہ بھی نہیں وہ سیاسی و سماجی ابن الوقتوں کی حاشیہ برداری کرکے نہ صرف اس پیشے کے تقدس کو پامال کرر ہے ہیں بلکہ خوددار ،تحقیقی وتفتیشی صحافت کوبھی نقصان پہنچار ہے ہیں ۔
صحافت آئندہ دنوں میں
مذکورہ مسائل کو دیکھتے ہوئے حضرت عامر عثمانی نے کیا سچ کہا ہے: ـ
یہ قدم قدم بلائیں یہ سوادِ کوئے جاناں                                                                
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری                                                             
لیکن تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے خوشا کہ اردو صحافت آج بھی عالمی صحافتی برادری کے مابین اپنے ہونے کا ثبوت دےرہی ہے۔امریکہ ،برطانیہ ،جاپان،حتی کہ اسرائیل جیسے ممالک اردو زبان میں پریس ریلیز جاری کرتے ہیں اور اردو زبان جاننے والا میڈیا ایڈوائزر رکھتے ہیں۔عرب ممالک کے اندر بھی اردو کی سرکاری ویب سائٹس کام کررہی ہیں جبکہ ایران اردو میں اپنی نشریات دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے۔
اردو صحافت کا مستقبل اس طور پر بھی روشن نظر آتا ہے کہ اردو صحافت نے اپنے آپ کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کر لیا ہے۔ مطبوعہ صحافت کا مستقبل تو تمام زبانوں کے لیے آزمائشوں بھرا ہے لیکن الیکٹرانک صحافت نے اپنا وجود منوانا شروع کر دیا ہے۔لہٰذا اردو کے بھی وہ اخبارات زیادہ پڑھے جاتے ہیں جنہوں نے زمانہ کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیا ہے لہذا پرنٹنگ کے ساتھ ویب سائٹ پر اپڈیٹ اور موبائل ایپ پر موجودگی بھی قارئین کی تعداد میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔اردو جسے آزادی کے فوراً بعد ہی ملک میں ایک خاص مذہب و سماج کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھااب گزرتے وقت کے ساتھ اپنے مداحوں میںاضافہ کرتی جارہی ہے۔گذشتہ برسوں میں’’ جشن ریختہ ‘‘میں غیر مسلموں کی بڑی تعداد میں شرکت جبکہ بالی ووڈ میں اردو زبان و ادب کا دبدبہ اب اردو کو غیروں میں مقبول بنا رہا ہے لہذا رسم الخط کی لڑائی کے ساتھ اردو نے ہندی پر فوقیت کا عمل شروع کردیا ہے اور اس کا اثر اردو صحافت میںبھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔
کارپوریٹ اداروں کو اردو سے اسلئے محبت ہوگئی ہے کہ انہیں اردو حلقے میں بڑا بازار نظر آرہا ہے ۔اردو جاننے والوں کی قوت خرید میں اگراضافہ ہوا ہے تو اردو صحافت کو بھی اس کا فائدہ ملا ہے کہ اب گراہکوں کو رجھانے کے لیے اشتہارات اردو زبان میں بھی قارئین کی نذر کئے جا رہے ہیں۔ ماضی قریب میں جہاں میڈیا کاحجم بڑا ہونے والا ہے تو وہیں اردو صحافت کو بھی اس کا فائدہ ملنے والا ہے۔جب صحافت، انقلابی مزاج اور حزب اختلاف کی نمائندگی کے بجائے محض تجارتی ذریعہ بن جائے تو پھر اس سے ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ معیشت کا یہ دروازہ ہمیں ایک اورشاہراہ دکھا رہا ہے۔
ذرا اس پہلو پر بھی غور کیجئے کہ کل تک جس اردوصحافت میں تجارت و معیشت کی خبریں ناپید رہتی تھیں یا خال خال ہی ان پر توجہ دی جاتی تھی اب بعض اخبارات کہیں مکمل صفحہ تو کہیں آدھا صفحہ اس کے لیے مختص کر رہے ہیں۔جب کئی برس قبل میں نے معاشی و تجارتی رسالہ ماہنامہ بین الاقوامی معیشت جاری کیا تھا تو صحافیوں کی بڑی تعداد نے حوصلہ افزائی کی بجائے محض راستے کے خطرات سے آگاہ کیا تھا لیکن مجھے یہ کہنے میں فخر محسوس ہو رہا ہے کہ اب وہی صحافی میری ویب سائٹ سے معاشی و تجارتی خبریں اڑا لے جاتے ہیں اور بطور شکریہ حوالہ دینے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے۔
اردو اخبارات میں کارپوریٹ اداروں کی دلچسپی نے جہاں نئے باصلاحیت صحافیوں کو متعارف کروایا ہے وہیں ’’جی حضوری‘‘کرنے والے صحافیوں کے لیے مسائل بھی کھڑے کر دئے ہیں لہذا صحافت سے وابستہ انتظامی امور ہوں یا ادارتی ڈیسک ،ان تمام مقامات پر کم از کم ان لوگوں کو جگہ دی جارہی ہے جوموجودہ دور کے تقاضوں کو سمجھتے ہوں۔
ڈیجیٹل صحافت میں اردو کا حلقہ بھی پیش پیش نظر آرہا ہے اب تو اردو کے اتنے سارے پورٹل کھل چکے ہیں کہ قارئین کو دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہےکہ وہ کسے پڑھے اور کس کی خبر چھوڑ دیں۔واٹس ایپ صحافت بھی کہیں نہ کہیں قارئین کو متاثر کر رہی ہے اور عوام اسے بھی اردو میں پڑھنے کی متمنی رہتی ہے۔
خلاصہ کلام
اردو صحافت سے متعلق مذکورہ بالا جائزوں کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ کہیں یاس و بزدلی نے اردو صحافیوں کو اپنے حصار میں لےلیا ہے تو وہیں امید کی کرن بھی ہے جو نئے آنے والوں کو حوصلہ بخش رہی ہے۔ زندگی بھر اردو صحافت کی روٹی کھانے والے گوکہ اردو کی بقا و تحفظ کے تعلق سے تذبذب کا شکار ہیںلیکن انگریزی اداروں میں پڑھے ہوئے اردو کے شیدائی آج بھی نئے آئیڈیاز کے ساتھ آرہے ہیں اور پرانی لکیر کے بالمقابل نئی لکیر کھینچ رہے ہیں۔
حالات لاکھ خراب ہوں ،ماحول میں کشیدگی ہو ،سانس لینا بھی دشوار ہو رہا ہولیکن جب عزم و حوصلہ ہوتوزمانے کا رخ بدلتےدیر نہیں لگتی۔ اکبر الہ آبادی نے بجا فرمایا تھا کہ ………………………کھینچونہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو                                                           

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *