دربھنگہ میں منعقدہ ’’بہار میں اردو صحافت سمت و رفتار‘‘ کی باتیں

سابق مرکزی وزیر جناب علی اشرف فاطمی سیمینار کو خطاب کرتے ہوئے جبکہ اسٹیج پر کالج کے پرنسپل جناب رحمت اللہ،جناب مشتاق احمد نوری وغیرہم کو دیکھا جاسکتا ہے(تصویر:معیشت)
سابق مرکزی وزیر جناب علی اشرف فاطمی سیمینار کو خطاب کرتے ہوئے جبکہ اسٹیج پر کالج کے پرنسپل جناب رحمت اللہ،جناب مشتاق احمد نوری وغیرہم کو دیکھا جاسکتا ہے(تصویر:معیشت)

دانش ریاض
برادرم ڈاکٹرمنصور خوشتر اورالمنصور ایجوکیشنل ویلفیئر ٹرسٹ کے ذمہ داران کی دعوت پر ملت کالج دربھنگہ میںمنعقدہ’’بہار میں اردو صحافت سمت و رفتار‘‘سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جو میرے لیے اس طور پر اہم تھا کہ جوضلع نابغہ روزگار شخصیات کا حامل رہا ہے، علم و ادب کی قندیلیں جہاں سے روشن ہوئی ہیںآج اسے قریب سے دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔بہار اردو اکیڈمی کے سکریٹری جناب مشتاق احمدنوری ،روزنامہ پندار کے چیف ایڈیٹر جناب ڈاکٹر سید ریحان غنی ،فاروقی تنظیم کے نمائندہ جناب نور اللہ، راشٹریہ سہارا کے ریسیڈنٹ ایڈیٹر جناب سید شہبازوغیرہم کی معیت میںجب دربھنگہ کے ملت کالج میں داخل ہواتو یہ دیکھتے ہی میری پیشانی پر بل پڑگئے کہ آخر کالج کے ’’لوگو‘‘ پر ’’چھ کونی ستارہ ڈیوڈ‘‘ کی موجودگی کے کیا معنی ہیں؟واضح رہے کہ ’’چھ کونی ستارہ ڈیوڈ‘‘ کا استعمال صیہونی علامتی طور پر اپنے لیے کرتے ہیں۔ کالج کے پرنسپل جناب رحمت اللہ کی ضیافت کے بعد جب ہم سیمینار ہال میں پہنچے تو بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات کی موجودگی اس بات کا پتہ دے رہی تھی کہ طلبہ علم و ادب کے گرویدہ ہیںلیکن سابق مرکزی وزیر علی اشرف فاطمی کی گرما گرم گفتگوکے باوجود جب طلبہ و طالبات اپنی نشستوں سے اٹھ کر جانے لگے تومذکورہ احساس بھی کافور ہوگیا اور محسوس ہوا کہ شاید انہیں زبردستی پروگرام کا حصہ بنایا گیا تھا۔ممکن ہےجنتا دل میں مسلم چہرہ کے بطور نمائندگی کر رہے جناب علی اشرف فاطمی کی گفتگو ہی ایسی ہو کہ انہیں نوجوان نسل سننا نہ چاہ رہی ہو۔ کیونکہ جناب علی اشرف فاطمی نے جیسے ہی اپنا کلیدی خطاب شروع کیا تو سب سے پہلے اردو صحافت کے سیکولرزم پر سوال کھڑا کردیا۔انہوں نے کہا کہ ’’اردو صحافت سیکولرزم کی علمبردار نہیں ہے‘‘پھر تھوڑا اور بڑھتے ہوئے انہوں نے بہار کے مسلمانوں کو ’’داعش‘‘کی کہانیاں سنانی شروع کردیںاور پھر مسلم نوجوانوں کو یہ کہہ کر کٹہرے میں کھڑا کردیا کہ یہ لوگ اسامہ بن لادن کو ہیرو سمجھتے ہیں۔وہ اتنے پر ہی نہیں رکے بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ ’’بہت سارے لوگ ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں آخر بتائیں کونسا مسلم ملک آپ کو پناہ دے گا؟‘‘۔اس کےبعد انہوں نے لگے ہاتھوں مسلم سلاطین کو بھی ظالم قرار دے ڈالا اور شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر ؒ پر لب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر اورنگ زیب ظالم نہیں ہوتے تو ان کی حکومت کا خاتمہ نہیں ہوتا‘‘۔
شاید یہ وہ آخری جملہ تھا کہ میرے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیالیکن جناب منصور خوشتر کی عزت افزائی کا خیال رہا کہ پروگرام کے دوران لب کشائی یا ہنگامہ آرائی کہیں میزبان کو پریشانی میں نہ ڈال دے۔شاید علی اشرف فاطمی اگلی صف میں بیٹھے ان میتھلی برہمنوں کو خوش کرنا چاہ رہے تھے جو آج صیہونی مقتدرہ کا حلیف بن کر ہندوستانی مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ بات اب پوشیدہ نہیں کہ برہمنوں کی ایک خاص لابی صیہونی مقتدرہ کی ہندوستان میں حلیف ہے اور مختلف صاحب اثر لوگوں کو اپنے جال میں گرفتار کر رہی ہے۔ہندوستان میں ’’فرینڈس آف اسرائیل ‘‘کے بینر تلے ان کے پروگرام روز مرہ کامعمول ہیں ۔دراصل افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے خودساختہ لیڈران (یہاں یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جنہیں سیاسی پارٹیاں خاص مقاصد کے لیے پروان چڑھاتی ہیں)بغیر کچھ سمجھے بوجھے اپنے معمولی مفادات کے لیے کسی اور کا آلہ کار بن جاتے ہیں اور دوسروں کے الفاظ کو اپنی زبان عطا کر دیتے ہیں۔
سابق مرکزی وزیر علی اشرف فاطمی نے مذکورہ اجلاس میں جہاں یہ باور کرایا کہ وہ پچاس باون ملک گھوم چکے ہیں اور بڑے جہاں دیدہ ہیں وہیں وہ یہ بھول گئے کہ آخر ان ممالک سے جو کچھ اکتساب کیاتھا اسے اپنے حلقہ انتخاب میں کس حد تک نافذ کیا؟دراصل یہ کوئی ایک مسلم سیاسی لیڈر نہیں ہیں جنہیں ’’آزمایا‘‘جا رہا ہے بلکہ یہاں تو قطار لگی ہے جو مسلمانوں کو ذہنی پسماندگی میں مبتلا کرنے کے لیے وہ تمام مثالیں پیش کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے جس کو انہیں گھول گھول کر پلایا جاتا ہے۔
حالانکہ ملت کالج کے طالب علموں کو موقع دیا جانا چاہئے تھا کہ وہ یہ سوال کرتے کہ ’’آخرہندوستان میں وہ کونسے لوگ ہیں جو اسامہ کی موت کے بعد بھی اس کو یاد رکھے ہوئے ہیں؟ آخروہ کون لوگ ہیں جو ملک سے ہجرت کرنا چاہتے ہیں؟ آخر وہ کونسے اردواخبارات ہیں جو سیکولرزم کے علمبردار نہیں؟ شاید وہ ان سوالوںکا جواب دینے کے موڈ میں نہیں ہوتے کیونکہ اسی درمیان اگر کوئی یہ پوچھ بیٹھتا کہ جس اورنگ زیب ؒ کو آپ ظالم قرار دے کر مندروں کو ڈھانے والا بتا رہے ہیں، بہار کے ہی خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری سے شائع ہونے والی کتاب میںانہیں تمام مذاہب کا احترام کرنے والا اور مندروں کو جاگیریں الاٹ کرنے والا عادل بادشاہ قرار دیا گیا ہے اور یہ باتیں ثبوتوں کے ساتھ بیان کی گئی ہیں،تو وہ اپنا منھ آپ لے کر رہ جاتے۔ دلچسپ بات تو یہ رہی کہ اس کا عملی مظاہرہ اسی وقت دیکھنے کو مل گیا جب کسی نے بھی ان کی گفتگو کی پذیرائی نہیں کی،حتی کہ کوئی ان سے سلام و دعا کے لیے مصافحہ بھی کرنے نہیں گیا جیساکہ مختلف پروگراموں میں سیاسی لیڈروں کے ساتھ عموماً لوگ کرتے ہیں۔
دراصل بہار ایک ایسا سیکولر اسٹیٹ ہے جہاں کسی بھی طرح کی شر پسندی لوگ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔جب وہاں ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے اپنا جھنڈا گاڑنا چاہا تو انہیں بھی ویسے کھدیڑ دیا گیا جیسے کئی دہائیوں سے آر ایس ایس اور ان کے حمایتیوں کو کھدیڑا جا رہا ہے۔
مذکورہ اجلاس میںجناب علی اشرف فاطمی اردو صحافت پر کوئی گفتگو کرتے تو شاید طلبہ و طالبات کے بھی کام آتا اور لوگ ریفرنس کے طور پر بھی استعمال کرتے لیکن معلوم نہیں کیوں انہوں نے اس موقع کویونہی گنوا دیا۔خیر خوشی تو اس وقت ہوئی جب ہم نے یہ دیکھا کہ’’ بہار میںاردو صحافت ‘‘پر گفتگو کرنے والے بیشتر احباب نوجوان ہیں اور نئی نسل ان تمام امور پر گفتگو کر رہی ہے جو کسی سیمینار کا خاصہ ہوا کرتا ہے۔خود پروگرام کے آرگنائزر ڈاکٹر منصور خوشتر جوانی کی دہلیز پر پہنچے ہیں اور جواں عمری میں ایسا علمی کام کر رہے ہیں جو عمر رسیدوں سے خراج وصول کرنے والا ہے۔اردو زبان و ادب پر کام کرنے والے جوانوں کی بڑی تعداد دربھنگہ کی سر زمین پر بستی ہے جبکہ کئی رسالے اسی سرزمین سے شائع ہو رہے ہیں۔شاید یہ مٹی کی ہی خاصیت ہے کہ علما وفضلا کی بڑی تعداد وہاں سے وابستہ ہےاور ملک و ملت کے زمام کو سنبھالے ہوئے ہے۔ملّی کاموں کے لیے بھی مذکورہ سرزمین بڑی زرخیز رہی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *