اردو زبان کے ارتقاء میں مدارس اسلامیہ کا حصہ

urdu Media

آج کے تمام ہندوستانی اخبارات فضلائے مدارس کی خدمات سے گراں بار ہیں۔
اکثر اردو اخبارات میں فضلائے مدارس جہاں اہم عہدوں پر فائز ہیں وہیں فضلائے مدارس کی نئی کھیپ نے اردو صحافت کو وقت شناس پُر جوش قلم کے تحفہ سے نوازا ہے۔
مدثر احمد قاسمی
اردوزبان کی شیرینی کا اعتراف جہاں اس زبان کی نزاکت و لطافت،زیرو بم، الفاظ و معانی، گہرائی و گیرائی اور سادگی و غنائیت سے واقف حضرات کرتے ہیںوہیں اس زبان سے نا آشنا اور اس زبان کے طفلِ مکتب بھی کرتے ہیں۔ اگرچہ اردو زبان کی تاریخ دوسری عالمی زبانوں کے مقابلہ میں زیادہ پُرانی نہیں ہے لیکن اس زبان نے ہندو پاک کے علاوہ عالمی سطح پر اپنی وجود و ارتقاء کی ایک حیرت انگیز تاریخ رقم کی ہے،یہی وجہ ہے کہ مشرق سے لیکر مغرب تک اور شمال سے لیکر جنوب تک دنیا کے مختلف حصوں میںاس زبان کے فقرے اور مشہورِ زمانہ اشعار آپ ان لوگوں کی زبانوں سے بھی سنیں گے جو اس زبان کے ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس زبان کی سحر آفرینی اور اثر انگیزی میں جہاں اس زبان کی وسعتِ دامنی کا اہم کردار رہا ہے وہیں اس زبان سے محبت کرنے والوں کے جنون اور بے لوث خدمات نے بھی اس زبان کو باغ و بہار بنایا ہے۔
اردو زبان و ادوب کے چمن کی خوش قسمتی یہ رہی ہے کہ اسے جہاں عصری درسگاہوں سے تعلیم یافتہ حضرات نے اپنی خونِ جگر سینچا ہے اور مسلسل اس کو پروان چڑھا نے کے عمل میں لگے ہوئے ہیں وہیںدینی درسگاہوں کے فضلاء نے اسے ایک پائیدار اور مستند مقام عطا کیا ہے اور مستقل اس زبان کے لئے اپنی بے لوث خدمات پیش کر رہے ہیں۔ اس زبان کے قدردانوںکے لئے یہاںیہ وضاحت ضروری ہے کہ اردو و زبان و ادب کی خدمات کے حوالہ سے مدارس اور عصری درسگاہوں کے الگ الگ کردار ہیں اور یہ دونو ہی کردار اس زبان کی نشو و نما اور ارتقاء میں ایک گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں۔عصری درسگا ہوں میںجہاں اردو زبان و ادب کو نصابی شکل دیکر ایک خاص مقام عطا کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر یہاں کے فضلاء منظم شکل میں اس زبان کے نگہبان بنے ہوئے ہیں اور اس زبان کو اپنا کر ان میں سے کچھ افراد با عزت روزگار سے بھی جڑے ہوئے ہیں، وہیں دینی مدارس میںگرچہ اردو زبان صرف ابتدائی درجوں میں داخلِ نصاب ہے لیکن ہند و پاک کے ۹۹؍فیصد سے بھی زائد مدارس میں ابتدائی درجوں سے لیکر عالمیت و فضیلت تک اور اس کے بعد افتاء،تفسیر اور دیگر تخصصات کی جماعتوں میں ذریعہ تعلیم اردو ہی ہے،اسی وجہ سے مدارس کے اساتذہ طلباء کی ذہنی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے ہر درجہ میں اردو زبان کو افہام و تفہیم کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں مدارس میں پڑھائے جانے والے تمام فنون کا ذریعہ تعلیم اردو ہے وہیںدنیا بھر میں جہاں کہیں بھی برِ صغیر کے لوگوں کے مدارس ہیں چاہے افریقہ میں ہوں یا یورپ میں وہاںبھی کسی نہ کسی درجہ میں ذریعہ تعلیم اردو ہے۔
دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جس زمانہ میں جس زبان نے بھی ا پنی بالادستی قائم کی اس زبان کے ماہرین نے دوسری زبانوں کی کتابوں کا ترجمہ اس زبان میں کیا اور بالا دستی قائم کرنے والوں نے اس زبان کو ترجمہ کی شکل میں ایک عظیم ذخیرہ دیا اور بعد میں اس ذخیرہ نے اس زبان کے لسانی اور ادبی باب میں ایک نمایا مقام حاصل کیا۔ چنانچہ کبھی یونانی کتابوں کا ترجمہ فارسی میں کیا گیا تو کبھی فارسی کتابوں کا ترجمہ عربی میں کیا گیا اور اسی طریقہ سے کبھی عربی کتابوں کا ترجمہ انگلش میں کیا گیا تو کبھی انگلش کتابوں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کیا گیا۔ مدارس کے اردو زبان کی خدمت کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ مدارس کے فضلاء نے فارسی اور عربی زبان کی ہزاروں کتابوں کا نہ صرف یہ کہ اردو میں ترجمہ کیا ہے بلکہ ادبی اعتبار سے بہترین اردو شروحات بھی سپردِ قرطاس کیا ہے۔
کسی بھی مذہب کے اسرارو روموز کے سمجھنے میں زبان کا اہم کردار ہوتا ہے،اگر اس پہلو کو سامنے رکھا جائے تو ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ا سلامی علوم و معارف کو فضلائے مدارس نے اردو زبان کا پیرہن عطاء کرکے اردو داں طبقہ کے لئے روح کی غذا کے طور پرخاصا مواد فراہم کر دیا ہے۔چنانچہ اردو زبان میںجہاںکئی کئی جلدوں میںتفاسیرِ قرآنِ کریم اور تشریحاتِ حدیث شریف موجود ہیںوہیں توضیحاتِ شریعت اور احکام و مسائل پر بہترین اردو کتابیں بھی موجود ہیںاور مستقل ہر سال فضلائے مدارس کی سیکڑوں کی تعداد میں نئی اردو کتابیں منظرِ عام پر آتی ہیں۔
اگر خالص ادبیات کی بات کی جائے تو فضلائے مدارس میں اچھی خاصی تعداد ادیبوں اور شاعروں کی مل جائے گی چنانچہ مولانا ابو الکلام آزادؒ نے جہاں غبارِ خاطر میں اردو ادب کو ایک انوکھی اور نئی بلندی عطا کی ہے وہیں مولانا مناظر حسن گیلانیؒ نے النبی الخاتم میں اردو ادب کو ایک خوبصورت اسلوب عطا کیا ہے اور حالیہ وقت میں ایک نمایا نام مولانا نور عالم خلیل امینی کا ہے آں موصوف نے ـوہ کوہ کن کی بات میں سوانحی ادب کا شاہکار پیش کیا ہے۔ فضلائے مدارس کے درمیان صاحبِ دیوان شاعروں کی بھی متعدد بہ تعداد موجود ہے چنانچہ جہاں مولانا حالیؒ شاعری کی دنیا میں اپنے منفرد مسدس کے لئے مشہور ہیں ۔ فضلائے مدارس کے درمیان اردو زبان کے ادباء اور شعراء کے تذکرہ کے لئے مستقل تصانیف کی ضرورت ہے۔
اردو زبان و ادب کی خدمت میںصحافت کا امتیازی کردار رہا ہے،یہ صحافت کی ہی دنیا ہے جس کے ذریعہ اس زبان کے ہر صنف کو نمائندگی ملتی ہے۔چنانچہ اردو صحافت کے میدان میںبھی فضلائے مدارس نے کلیدی رول ادا کیا ہے ، الہلال، نئی دنیا ،متاعِ آخرت کے بانئین سے لیکربصیرت آن لائن اور ملت ٹائمز کے بانئین تک علماء کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے اردو صحافت میں فعال کردار اداکیاہے۔اگر فضلا ئے مدارس کے درمیان صحافتی قلمکاروں کی بات کی جائے تو مولانا عبد الماجددریابادیؒ، مولانا محمد علی جوہرؒ اورمولاناقاضی اطہر مبارکپور یؒ سے لیکر اس زمانہ میںمولانا خالدسیف اللہ رحمانی اور مولانا اسرار الحق قاسمی تک ان گنت افراد ہیں جنہوں نے اردو صحافت کو اپنی تحریروں کے ذریعہ انمول بنایا ہے۔ مدارس کے صحافتی کردار کے حوالہ سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر بڑے مدارس سے ماہنامے اور سالے شائع ہوتے ہیںجنکے مدیراور قلمکارعلماء ہی ہوتے ہیں۔ میرا یہ دعویٰ حقیقت کی عکاس ہے کہ آج کے تمام ہندوستانی اخبارات فضلائے مدارس کی خدمات سے گراں بار ہیں۔اکثر اردو اخبارات میں فضلائے مدارس جہاں اہم عہدوں پر فائز ہیں وہیں فضلائے مدارس کی نئی کھیپ نے اردو صحافت کو وقت شناس پُر جوش قلم کے تحفہ سے نوازا ہے۔ میں نے تحفہ کا تذکرہ اس حقیقت کے اعتراف میں کیا ہے کہ اردو صحافت میں نوجوان قلمکاروں کو کوئی معاوضہ نہیں ملتا ،حالانکہ انکی تحریریں انمول ضرور ہوتی ہیں لیکن بے مول نہیں۔
کسی زبان کی ترویج و اشاعت میں تقریرو خطابت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا،فن خطابت کے ذریعہ جہاں بلاواسطہ مقرر و خطیب سامعین کو کوئی خاص پیغام دیتے ہیں وہیں ان کی سماعتوں کو زبان و ادب کی حلاوت سے بھی روشناس کراتے ہیں۔ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ فضلائے مدارس نے فنِ خطابت کے ذریعہ جو اردو زبان و ادب کی خدمات انجام دی ہیں وہ لاثانی ہے۔ بشمول مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے، فضلائے مدارس کی ایک ایسی کھیپ ہے جنہوں نے اپنی خطابت میں ادبی فقرے،محاورے،اصطلاحات اور بر محل شعری استعمال کا ایک زبردست نمونہ پیش کیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ فضلائے مدارس نے اپنے حدود میں رہتے ہوئے اردو زبان و ادب کی جوخدمات انجام دی ہیں وہ اس زبان کی فروغ کے لئے حکومتی تعاون سے چلائے جارہے اداروں سے کم نہیں ہے۔ ہاںیہ سچائی ہے کہ ان کی خدمات کو حکومتی سطح پر اور اردو زبان و ادب کے ادروں کے ذریعہ وہ پذیرائی نہیں ملی جسکے وہ مستحق ہیں۔اردو زبان و ادب میں خدمت کے لئے ایوارڈ بھی دئے جاتے ہیں لیکن یہ فضلائے مدارس اپنی گرانقدر خدمات کے باوجود اس طرح کے
ایوارڈ سے ہمیشہ محروم ہی رہتے ہیں۔اردو زبان و ادب سے وابستہ افراد اگر حقیقتاً اردو سے محبت کرتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ فضلائے مدارس کی خدمات کو بھی سراہیں اور ان کی خدمات پر مشتمل تحقیقاتی مواد کو منظرِ عام پر لائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *