ممبرا(معیشت نیوز)مہاراشٹرضلع تھانےکے شہرممبرا میں انہدامی کارروائی کے نتیجہ میں اب تک ۳۰۰کروڑ کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔تھانے میونسپل کارپوریشن کی جانب سے جاری انہدامی کارروائی میںہوٹلس،کپڑے کی دکان،روزمرہ کے سامان کی دکان سمیت سیکڑوں لوگوں کی دکانیں،کمرشیل گالے منہدم کر کے سڑک کو چوڑا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
کارپوریشن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تعمیرات کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا تھا اور عوام شدید پریشانیوں کا سامنا کر رہی تھی۔ٹریفک نظام کے ساتھ ہی خوانچہ فروشوں نے سڑک پر ہی اپنی دکانیں سجا لی تھیں جس سے آمد و رفت کا سلسلہ تقریباً مشکل ہو گیا تھا یہی وجہ ہے کہ مذکورہ کارروائی کرنی پڑی۔
ممبرا کوسہ کی عوام نے ایک طرف اس کارروائی کو جائز قرار دیا ہے تو دوسری طرف ان کا کہنا ہے کہ اگر کارپوریشن کو کارروائی ہی کرنی تھی تو وہ اتنی مہلت دےدیتے کہ لوگ کہیں اور اپنی روزی روٹی کا انتظام کر لیتے ۔لیکن کارپوریشن کا یہ کہنا ہے کہ مسلسل یاد دہانی کے باوجود بھی جب لوگوں نے نہیں مانا تو مجبوراً کارروائی کرنی پڑی ہے۔
کوسہ ممبرا کی انہدامی کارروائی پر سوشل میڈیا میںزبردست بحث چھڑی ہوئی ہے کوئی اسے درست قرار دے رہا ہے تو کوئی اسے مسلمانوں پر ظلم سے تعبیر کر رہا ہے۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کارروائی سے ممبرا کوسہ کی عوام کا بھر پور نقصان ہوا ہے ایک اندازے کے مطابق تقریباً تین سوکروڑ کا مالی نقصان ممبرا کوسہ کی عوام کو برداشت کرنا پڑا ہے۔
مقامی ایم ایل اے جیتندر اوہاڑ نے بھی گوکہ مذکورہ کارروائی کی مخالفت کی ہے لیکن قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ کہیں نہ کہیں وہ بھی یہ چاہتے تھے کہ اس طرح کی کارروائی ہو تاکہ عوام کو تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
البتہ دلچسپ بات یہ ہے کہ کارپوریشن انتظامیہ صحافیوں کے کسی طرح کے سوالات کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔مثلاً اگر غیر قانونی تعمیرات ہورہی تھیں تو اس وقت انتظامیہ کیوں خاموش تھی ؟ امرت نگر بازار کو بار بار اجاڑنے کے بعد بھی کون لوگ تھے جو اسے دوبارہ بسانے کی اجازت دیا کرتے تھے؟ آخر کارپوریشن انتظامیہ کیوں لوگوں کی غیر قانونی سر گرمیوں پر آنکھ بند کر لیا کرتی تھی؟
گذشتہ برس جب شیل پھاٹاپر بلڈنگ گرنےکا سانحہ پیش آیا تھا اسی وقت غیر قانونی بلڈنگوں کی تعمیر کا سلسلہ رکا ہوا تھا لیکن بلڈنگوں کی جگہ لوگ سڑک پر انکروچمنٹ کرکے اپنی دکان سجا رہے تھے اور انتظامیہ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتا تھا۔مثلاً ہوٹل ساحل کے مالک منّا ساحل کواپنی دکان لب سڑک کرنے اور فٹ پاتھ پر بھی قبضہ کرنے کی صرف اس لیے اجازت ملی ہوئی تھی کہ وہ مقامی ایم ایل اے کے خاص آدمی سمجھے جاتے تھے۔کوسہ قبرستان کے پاس ٹریفک جام روز کا معمول اسلئے بھی تھا کہ دہلی ذائقہ کی وجہ سے بہت ساری گاڑیاں وہا ں پارک ہوتی تھیں جبکہ فٹ پاتھ پر بھی انہوں نے قبضہ جما لیا تھا۔

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت
ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...