بنگلہ دیش میں سخت سکیوریٹی کا انتظام، جگہ جگہ پر پولس تعینات، عوام میں شدید غم و غصہ کی لہر
ڈھاکہ : (ایجنسی ) جماعت اسلامی کےبنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمان نظامی کو۱۹۷۱ کی جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم کے ارتکاب پر پھانسی دے دی گئی ہے۔ان للہ و انا الیہ راجعون
وزیرقانون انیس الحق کے مطابق ۷۲سالہ مطیع الرحمان نظامی کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب تختہ دار پر چڑھایاگیا۔اس موقع پر دارالحکومت ڈھاکہ سمیت ملک بھر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جبکہ ڈھاکہ کی سینٹرل جیل کے باہر مطیع الرحمان نظامیؒ کے حامیوں کی جانب سے مظاہرہ بھی کیا گیا۔ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت کے ۷۲ سالہ سربراہ کو جنگی جرائم کے خصوصی ٹریبونل نے گذشتہ برس نسل کشی، قتل، تشدد اور عصمت دری کے ۱۶ الزامات کے تحت سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔
گذشتہ ہفتے بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمان نظامی کو سنائی گئی سزائے موت برقرار رکھنے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی اپیل مسترد کر دی تھی۔
مطیع الرحمان نظامی ۱۹۷۱ میں جماعت اسلامی کی ایک ذیلی تنظیم سے منسلک تھے اور ان پر الزام تھا کہ انھوں نے ’البدر‘ نامی ملیشیا کے کمانڈر کے حیثیت میں آزدی پسند بنگالی کارکنوں کی نشاندہی کرنے اور انھیں ہلاک کرنے میں پاکستانی فوج کی اعانت کی تھی۔۲۰۱۰ میں قائم ہونے والے جنگی جرائم کے ٹربیونل نے مطیع الرحمان نظامی کے علاوہ جماعت اسلامی کے دیگر اہم رہنماؤں کو بھی پھانسی کی سزا سنائی تھی جن میں سے عبدالقادر ملّا، قمر الزماں سمیت کئی افراد کو تختہ دار پر لٹکایا بھی جا چکا ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت جنگی جرائم کے ٹریبونل کو اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ بھی کہہ چکی ہے کہ اس عدالت کا طریقۂ کار بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے۔دوسری جانب برسرِ اقتدار جماعت ’عوامی لیگ‘ کا کہنا ہے ملک کے ماضی کو دفن کرنے کے لیے جنگی جرائم کی تفتیش ضروری ہے۔مطیع الرحمان نظامی کو ملک کے شمالی حصے میں ان کے آبائی گاؤں میں دفن کیا جائے گا۔بنگلہ دیشی اخبار ڈیلی سٹار کے مطابق پھانسی سے قبل ان کے خاندان نے ان سے ملاقات کی تھی اور وہ ذرائع ابلاغ سے بات چیت کیے بغیر واپس چلے گئے تھے۔
واضح رہے کہ مطیع الرحمان نظامی کو ایسے وقت میں پھانسی دی گئی ہے جب ملک میں لبرل، سیکولر، غیرملکیوں اور مذہبی اقلیتوں کے قتل کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔
ہندوستان میں جیسے ہی سوشل میڈیا پر مذکورہ خبر عام ہوئی تو لوگوں نے تعزیتی پیغامات کا سلسلہ شروع کردیا۔ جماعت اسلامی اور اس کے افکار سے محبت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ایک ایسی تحریک جس نے دعوت و تبلیغ کے ذریعہ ہمیشہ اسلامی پیغام کو عام کیا ہے اس کے رہنما کو تختہ دار پر لٹکانا دراصل اسلام سے کھلی دشمنی کا اعلان ہے۔
فیس بک،ٹوئٹر ،واٹس ایپ پر جہاں عوامی لیگ کو نشانہ بنایا جارہا ہے وہیں یہ کہا جارہا کہ برسراقتدار حکومت ان تمام لوگوں کا خاتمہ چاہتی ہے جو اس کے افکار کے مخالف ہیں یا مستقبل میں جن سے خطرات کا اندیشہ ہے۔
واضح رہے کہ جماعت اسلامی مفکرِ اسلام اور مفسرِ قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی انقلابی فکر و عمل کا حاصل ہے۔ انہوں نے ۲۶ اگست ۱۹۴۱ ء کو لاہور (پاکستان )میں “جماعت اسلامی” قائم کی تھی جس میں ہندوستان سے ۷۵ آدمی شامل ہوئے تھے۔ اس اجتماع میں سید مودودیؒ کو جماعت کا سربراہ منتخب کیاگیا تھا۔ مولانا مودودیؒ تاریخ کی اُن چند شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے تاریخ لکھی بھی ہے، اس پر اثرانداز بھی ہوئے ہیں اور اسے بدلا بھی ہے۔مولانا مودودی ؒنے جس وقت اپنے کام کا آغاز کیا تھا اس وقت غلامی نے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کے خمیر کو بدل دیا تھا۔ یہ طبقہ نہ صرف مغربیت کا اشتہار بن چکا تھا بلکہ اس نے غلامی کونعمت بنا لیا تھا۔ دوسری جانب مسلمانوں میں کچھ غلامی اور کچھ مغربی فکر کے زیراثر یہ خیال عام ہوگیا تھا کہ اسلام کا ریاست و سیاست سے کوئی تعلق نہیں، اسلام کا کوئی معاشی تصور نہیں، اسلام کا کوئی عالمی تناظر نہیں۔ چنانچہ مسلمانوں سے کہا جارہا تھا کہ تم خود کو عقائد و عبادات اور چند اخلاقی اصولوں تک محدود سمجھو۔ مولانا مودودی نے اس اسلام دشمن فکر کو پوری قوت سے چیلنج کیا تھا۔