شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

نظامی مطیع الرحمن

دانش ریاض
جہد مسلسل کے علمبردار بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے امیر مولانا مطیع الرحمٰن نظامی کو اب رحمۃ اللہ علیہ لکھنا پڑ رہا ہے اسی کے ساتھ عالم اسلام نے انہیں شہید کا لقب بھی دیاہے ۔۷۲ سالہ بزرگ اگر اپنی طبعی عمرگذارکر اللہ کو پیارے ہوتے تو شایدکسی ایک لقب سے محروم ہوتے لیکن کسی کی ذات کا لاحقہ و سابقہ اگر شہید و رحمۃ اللہ علیہ ہوجائے تو اس ذات با برکات کے کیا کہنے۔لہذااب دنیاا نہیں شہید مطیع الرحمٰن نظامی رحمۃ اللہ علیہ لکھے گی ۔
ابلیس کے کارندے میدان کارزار میں طاقت و سطوت کا مظاہرہ کرکےقتل و خون کا بازار گرم کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ کامیاب ہو رہے ہیں .لیکن حضرت ہابیل سے یہ سنت چلی آرہی ہے کہ قابیل بظاہرجیت کر بھی ہارتا چلا جارہا ہے۔ابلیس کی جیش کا پہلا فوجی بھی ہاراتھا ،حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خاک و خون میں لت پت کرنے والا بھی ہاراتھااور اب بنگلہ دیش عوامی لیگ کی سر براہ حسینہ واجد بھی ہار گئی ہے کیونکہ امت کبھی ابلیس کے کمانڈروں کو معاف نہیں کرتی ۔

نظامی پوتہ

یہ بات درست ہے کہ ہمارے دلوں میں وہن لگ چکا ہے۔ہم موت سے خوفزدہ رہنے لگے ہیں ۔ہم جہاد و شہادت کی دعائیں تو کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی تعبیرات تلاش کر لیتے ہیں۔لیکن پوری امت تعبیرات کے خول میں ’’مطلوب‘‘کائنات پر عمل آوری نہ کر رہی ہو ایسا بھی نہیں ہے۔ورنہ شہید مطیع الرحمن نظامی ؒ جیسے لوگ ہمارے درمیان نہیں ہوتے۔معاملہ تو یہ ہے جب اس طرح کےحالات آتے ہیں تب یہ ادراک ہوتا ہے کہ کون سنت ِ رحمان پر ہے اور کون نقش شیطان پر۔
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی اپنے فیس بک پوسٹ میں لکھتے ہیں’’ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے امیر مولانا مطیع الرحمٰن نظامی کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیاانا للہ و انا الیہ راجعون لیکن کیا اس طرح وہ جس نظریے کے حامل تھے، اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے؟ اور اسے پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے؟ حکومت و اقتدار پر قابض لوگوں نے ہمیشہ اپنی طاقت و قوت کے نشے میں چور ہو کر کم زوروں پر اپنا حکم چلانے اور ان کے افکار پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ انھیں کبھی کام یابی نہیں ملی ہےسقراط کو زہر کا پیالہ پلادیاگیا ، لیکن کیا اس کا نظریہ فنا کے گھاٹ اتر گیا؟ ابن رشد کو قیدو بند سے دوچار کیا گیا، لیکن کیا اس کے فلسفیانہ نظریات پر بندھ باندھا جا سکا؟ حضرت زکریا علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا، حضرت یحیی علیہ السلام کا سر قلم کر دیا گیا، اصحاب کہف کو پہاڑ کی کھوہ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا گیا، اصحاب الاخدود کو آگ کی کھائیوں میں جھونک دیا گیا، لیکن کیا یہ حضرات جس پیغام کے علم بردار تھے اسے دفن کیا جا سکا؟ دور کیوں جائیے؟ بیسویں صدی کے ربع اول میں مصر میں اخوان المسلمون کے نام سے اسلام کے احیاء کے لیے جو تحریک قائم ہوئی، اس کے بانی کو سر راہ گولی مار دی گئی،طبی سہولیات میں رکاوٹ ڈالی گئی، یہاں تک کہ ان کی روح پرواز کر گئی، پھر سخت کرفیو لگا کر عوام کو ان کے جنازے میں شریک ہونے سے روک دیا گیا، چنانچہ گھر کی عورتوں نے ان کا جنازہ اٹھایا اور ان کی تدفین کی، پھر اخوان کے رہ نماوں میں سے عبد القادر عودہ کو ان کے پانچ ساتھیوں کے ساتھ اور سید قطب کو ان کے تین ساتھیوں کے ساتھ پھانسی پر لٹکا دیا گیا، لیکن کیا ان کے نظریے کو زنجیریں پہنائی جا سکیں؟ اور اسے پھیلنے سے روکا جاسکا؟ آج نہ صرف مصر، نہ صرف مسلم ممالک، بلکہ پوری دنیا میں اخوان کا فکر عام ہے۔
تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے مطیع الرحمٰن نظامی کو رات تقریبا بارہ بجے پھانسی دی گئی،عوام کو ان کی نماز جنازہ میں شرکت سے روکنے کے مقصد سے صبح 6:40 بجے ان کی نعش گھر والوں کے حوالے کی گئی اور انھیں پابند کیا گیا کہ 20 منٹ کے اندر اندر ان کی تدفین سے فارغ ہو جائیں، لیکن کیا اس طرح نظامی جس نظریہ کے علم بردار تھے، اس کو پابند سلاسل کیا جا سکتا ہے؟یا اس کو پھانسی دی جا سکتی ہے؟

 بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے امیر مولانا مطیع الرحمٰن نظامی کفن میں لپٹے ہوئے
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے امیر مولانا مطیع الرحمٰن نظامی کفن میں لپٹے ہوئے

طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا ظالموں اور جباروں کو معلوم ہو جانا چاہیے کہ وہ جسموں کو پھانسی پر لٹکا سکتے ہیں، روح اور بدن کے آپسی رشتے کو کاٹ سکتے ہیں، لیکن کسی نظریے کو پھانسی پر لٹکانا اور اسے موت کے گھاٹ اتارنا ان کے بس میں نہیں بلکہ نظریہ تو خون سے سیراب ہوتا ہے۔اس کے علم بردار جتنا اسے اپنے خون سے سینچیں گے، اتنا ہی وہ پروان چڑھے گا، لہلہایے گا اور بڑھتے بڑھتے تناور درخت بن جائے گا –
اسلامی نظریہ کے علم بردار قید و بند اور دار و رسن سے گھبراتے ہیں نہ موت سے ڈرتے ہیں ۔وہ اسے راہ دعوت و عزیمت کا ایک مرحلہ سمجھتے ہیں اور اس کے لیے ذہنی طور پر ہر وقت تیار رہتے ہیں۔اسلامی نظریہ کے علم بردار تو شہادت کی تمنا میں جیتے ہیں اور اسے اپنی زندگی کی معراج سمجھتے ہیں۔ان کے دشمنوں کو اگر اس لذت کا اندازہ ہوجائے جو وہ شہادت میں پاتے ہیں تو وہ انھیں پھانسی پر چڑھانا بند کردیں۔
مولانا نظامی نے اپنی مراد پالی۔انہوں نے اپنے قول سے بھی حق کی گواہی دی اور عمل سے بھی، یہاں تک کہ اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا۔وہ بارگاہ الہی میں سرخ رو ہوگئے۔اب وہ اپنے رب کے پاس اس کی عطا کردہ نعمتوں سے شادکام ہو رہے ہوں گے۔ان کے بعد اب ان کے کاز سے وابستہ لوگوں کی ذمے داری ہے کہ وہ بھی اسی راہ پر چلتے رہیں جو راہ مولانا نظامی نے دکھائی ہے۔ اے اللہ! تو گواہ رہ ،ہم اپنے عہد پر قائم ہیں،ہم مر جائیں گے، لیکن ایمان کا سودا نہ کریں گے، ہم تیرے دین کی اقامت کے لیے تن من دھن کی بازی لگادیں گے،اس کے بدلے میں ہم امید رکھتے ہیں کہ تو نے جن جنتوں کا ہم سے وعدہ کیا ہے ان سے ضرور بہرہ ور ہوں گے۔
مفکر ومفسر قرآن ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی اپنے بیان میں کہتے ہیں ،نظامی صاحب! آپ کی حق پسندی اور بے باکی کو ہمارا سلام!ہمیں یہ تو معلوم تھا کہ نظامی صاحب غیرمعمولی صلاحیتوں کے انسان ہیں۔ اور موجودہ حکومت سے پہلے خالدہ ضیاء کی حکومت میں وہ 2001ء سے لے کر 2006ء تک تقریباً 6؍سال وزیر رہ چکے ہیں۔ کچھ سال وزیر زراعت رہے۔ اور کچھ سال وزیر صناعت رہے۔ اس عرصے میں نہایت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اور نہایت کامیابی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوتے رہے۔ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ 2000ء سے وہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی امارت سنبھالے ہوئے ہیں۔
نظامی صاحب کی یہ ساری خوبیاں اور یہ ساری بلندیاں ہمارے علم میں تھیں، مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنے زیادہ خوش قسمت اور خدارسیدہ انسان ہیں، کہ ایک ہی جست میں وہ دنیا اور اہل دنیا کو چھوڑ کر شہداء وصدیقین کی صف میں جاکھڑے ہوں گے۔
سرخاک شہیدے برگہائے لالہ می پاشم
کہ خونش بانہال ملت ماسازگار آمد
بنگلہ دیش سے آنے والی خبروں کے مطابق نظامی صاحب کو اس ظالمانہ فیصلے کی اطلاع ایک دن پہلے، یعنی سوموار ہی کو دے دی گئی تھی۔ اور انہیں یہ بتادیا گیا تھا، کہ اب ان کی جان بخشی کی بس ایک ہی شکل ہے کہ وہ اپنا جرم تسلیم کرلیں، اور صدرمملکت سے رحم کی اپیل کریں۔ظاہر ہے انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا، جس کی وہ معافی مانگتے۔ اور حسینہ واجد بھی جانتی ہے کہ ان کا کوئی جرم نہیں تھا، جس کی معافی منگوائی جائے۔مگر اسی کو بنیاد بناکر نظامی صاحب کو تختۂ دار پر چڑھادیا گیا، اور ان سے پہلے بھی جماعت اسلامی کے متعدد رہنماؤں کے ساتھ ایسا ہی کیا جاچکا ہے۔ایسا کرکے حسینہ واجد نے ان لوگوں کا تو کچھ نہیں بگاڑا، بلکہ ان کے لیے سرفرازی کی راہ ہموار کردی۔ البتہ اپنے حق میں اس نے بہت برا کیا، اس نے اپنے لیے جہنم کی ایسی آگ دہکائی ہے، جو کبھی ٹھنڈی ہونے والی نہیں!
اطلاعات کے مطابق پھانسی سے پہلے نظامی صاحب کی گھروالوں سے ملاقات کرائی گئی۔ گھروالوں کو تسلی دیتے ہوئے نظامی صاحب نے فرمایا:اس کائنات میں بس ایک ہی دربار ہے، جہاں سے رحمتیں تقسیم ہوتی ہیں۔ میں نے وہاں رحم کی اپیل داخل کردی ہے۔ اس کے علاوہ مجھے کسی کے رحم کی ضرورت نہیں۔زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اس نے مجھے شہادت کی خلعت پہنانے کا فیصلہ کیا ہے، تو ہمارے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟نظامی صاحب! آپ کی حق پسندی اور بے باکی کو ہمارا سلام! آپ کے صبرواستقامت نے پوری ملت اسلامیہ کا سر اونچا کردیا ہے، اللہ تعالی آپ کو زیادہ سے زیادہ بلندیاں عطا کرے ؂
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *