
گستاخ رسول کونام نہاداردو صحافی کی حمایت کیوں حاصل ہے!

نور محمد خان , ممبئی
دنیا میں اسلام کے ظہور کے ساتھ دو بڑی طاقتیں یہود و نصارٰی ہر محاذ پر آمنے سامنے رہی ہیں اور جب جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا میں لوگوں کی ہدایت کے لئے رسول بھیجا تب تب یہ دونوں منا فقین اور کافروں نے اسلام کی مخالفت کی، کیونکہ یہ عمل سب سے پہلے ابلیس نے شروع کیا تھا جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنایا تھا ۔اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا سجدہ کرو، تمام فر شتوں نے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ نہیں کیا، اس کے بعد جب انبیاء کرام علیہم السلام کا سلسلہ شروع ہوا تب یہی قوم رسولوں پر بہتان باندھنے لگی۔ جو ایمان والے تھے انہوں نے اپنے رسو لوں کی اطاعت کی اورجو منکرین تھے ان لوگوں نے نبوت کا انکار کیا اور رسول کی شان میں گستا خی کرنے والوں کی اکثریت بڑھنے لگی چنانچہ اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے آج اکیسویں صدی میں یہودیوں نے بھی مسلمانوں جیسا نام رکھ کر چنندہ لوگ رسول اللہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور گستاخوں کی حمایت میں اب تک حکومت پیش پیش رہتی تھی لیکن اب تو اردو جرنلسٹ بھی سر بسجود نظر آرہے ہیں نعوذ باللہ من ذالک جو مذہب اسلام اور مسلما نوں کے نام پر بدنما داغ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے اور لعنت برسائی جائے کم ہے ۔
اودھ نامہ اردو اخبار کی لیڈی ایڈیٹر نے جھوٹی شہرت کی لالچ میں اپنے ضمیر کا سودا کیا
اول ذکر یہ ہے کہ گزشتہ سال چارلی ہبیڈو میگزین نے رسول اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی جس کے خلاف دنیا بھر کے مسلمانوں نے احتجاج کیا تھا اسی چارلی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ممبئی کے ایک اردو اخبار اودھ نامہ کے کارگزار مدیر شریں دلوی نے بھی رسول اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کی اور خاکہ شائع کرکے مسلمانوں کو تذبذب میں ڈال دیا کہ ایک اردو اخبار جو مذہب اسلام اور مسلما نوں کی بقا کے لئے نشر و اشاعت کا ذریعہ تھا اسی اخبار نے اتنی بڑی گستاخی کی،، لہذا رضا اکیڈمی و دیگر تنظیموں نے ملعونہ شریں دلوی کے خلاف احتجاج کیا ۔حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس اسٹیشن میں دفعہ 295 IPC کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی لیکن عدالت نے دس ہزار روپے کے مچلکہ پر ضمانت دے دی۔
قابل ذکر یہ ہے کہ امسال اپریل میں ممبئی کے چنندہ صحافیوں کی قیادت میں اردو جرنلسٹ ایسوسی ایشن نامی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی ہے جس کا مقصد صحافیوں کی حمایت اور امداد کرنا منشور میں شامل تھا اس میٹنگ میں اردو صحا فیوں نے ملعونہ شریں دلوی کو مدعو کیا اور والہانہ استقبال بھی کیا گیا معاًبعد ملعونہ کی آمد پر کچھ لوگوں کو اعتراض بھی ہوا بحر حال معاملہ صرف اتنا ہے کہ ایک طرف متنازعہ مصنفہ ملعونہ تسلیمہ نسرین کی حمایت میں سابقہ یو پی اے حکومت تھی اور نئی ملعونہ دلوی کوایک مسلمان صحافی جو خیر سے ایک روزنامہ شائع کرتے ہیں نے اردو جرنلسٹ کے پروگرام میں مدعو کرکے رسول اکرم ﷺکی شان میں جوگستاخی کی وہ قابل افسوس ہے چنانچہ اب ہم سطوربالا کو پیش نظر رکھتے ہوئے درج ذیل سطور میں قرآن وحدیث سے استفادہ کرتے ہیں۔
اول یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی مقدس ذات کی قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ کوئی شخص ایمان کی حدود میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک تمام امور میں اللہ کے اس آخرالزمان افضل تر رسول کو اپنا سچا حاکم نہ مان لے اور آپ کے حکم اور فیصلہ پر سنت اور حدیث کو قابل قبول اور حق صریح تسلیم نہ کرنے لگے ،دل اور جسم کو تابع رسول نہ بنادے غرض جو بھی چھوٹے بڑے ظاہر و باطن کل امور میں حدیث رسولﷺ کے اصولوں کو سمجھے وہی مومن ہے (سورہ نساء آیت نمبر 65 64 تفسیر) قابل ذکر یہ ہے کہ سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین چارلی بیبڈو اور شریں دلوی جیسے منافقین ،گستاخی کرکے یہودیت کے دامن میں پناہ لے رکھی ہے لیکن اسی دامن کو تھامنے کے لئے اردو صحافی نے اردو جر نلسٹ کے پروگرام میں دلوی کو مدعو کرکے یہ ثابت کر دیا کہ کہیں نہ کہیں یہ بھی دامن تھامنا چاہتے ہیں افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ جن صحا فیوں سے کل تک ذاتی یا دیگر اخبارات میں اسلام کی بقا سے لیکر اردو اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے جو صدائیں بلند ہوا کرتی تھی کیا وہ صرف ایک دکھاوا تھایا حکومت اور لیڈران کو بلیک میل اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے تھا۔
“اردو زبان و ادب میں صحافت کے معنی و مفہوم کو قرآن و حدیث کے مطابق دیکھا اور پرکھا نہیں جاتا ہے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ اردو میں اخبارات شائع ہوجائے اور اس میں تمام طرح کی خبریں ہوں ایک مضمون اور چند دینی باتیں ہوں اور بالخصوص مسلمانوں کے مفاد میں خبر چھاپ کر مسلمانوں کی واہ واہی حاصل کرتے ہیں جبکہ اگر دیکھا جائے تو معلوم یہ ہوگا کہ جبرئیل علیہ السلام نبی کریم ﷺکے پاس وحی لے کر آتے تھے اور آپ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ کو سنایا اور بتایا کرتے تھے اور انہیں کے ذریعے مومن مسلمانوں تک پہنچتی بھی تھیں اسی طرح صحافت کا معاملہ ہے کہ ایک صحافی کو چا ہیے کہ اس کی خبروں اور مضامین میں سچائی ایمان داری دیانتداری حق پرستی کی مہک ہو، لیکن ممبئی کے ان نام نہاد کچھ اردو صحافیوں نے صحافت کے مقدس چہرے کو مسخ کردیا ہے “۔
اللہ تبارک و تعالٰی ارشاد فرماتا ہے کہ” ہماری مخلوق میں ایک ایسی جماعت بھی ہے جو دین حق کی ہدایت کرتے ہیں اور اسی پر انصاف کرتے ہیں(سورہ اعراف 181) یعنی کہ بعض لوگ حق وعدل پر قائم ہیں حق بات ہی زبان سے نکالتے ہیں حق کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں حق کے ساتھ انصاف کرتے ہیں بخاری و مسلم میں ہے آپ نبی کریم فرماتے ہیں کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ظاہر رہے گا انہیں ان سے دشمنی کرنے والے مجھے نقصان نہ پہنچا سکیںگے یہاں تک کہ قیامت نہ آجائے چنانچہ جو لوگ نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں یا گستاخوں کی حمایت کرتے ہیں ایسے لوگوں کو اس آیت کے پس منظر میں خود کو پرکھنا اور جانچنا چاہیے کہ ملعونہ کو عزت و احترام کے ساتھ میزبانی کرکے اللہ کی رحمت حاصل کرسکتے ہیں یا اللہ کا غضب و غصہ؟
ہندی مسلمان کا نظریہ ہے کہ سیکولر حکومتیں مسلمانوں کی محافظ ہیں اور مسلم لیڈران ان کے قائد ہیں گستاخ رسول سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کے خلاف جب ملک کا مسلمان احتجاج کرتا ہے تو حکومت ایک دو شخص کے لئے کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری کرتی ہے جس کا اندازہ سابقہ حکومت اور اس میں شامل مسلم قیادت سے لگایا جاسکتا ہے ۔
گزشتہ ماہ اردو صحافت کا دوسو سالہ جشن منایا گیا اگر ہم ماضی کے جھروکوں سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان کی حصول آزادی میں اردو صحافت کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا جنھوں نے صحافت کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا عدل و انصاف اور حقوق کے نعروں سے برطانوی قلعہ کی درو دیوار لرز اٹھیں اور ملک کی آزادی میں روشن چراغ ثابت ہوا لیکن اکیسویں صدی میں صحافت کے میدان میں حق و باطل اور صداقت کی محاذ آرائیاں ہورہی ہیں آج لوگوں کے ذہن میں یہ سوال بازگشت کررہا ہے کہ غیروں کے پاس میڈیا ہے مسلمانوں کے پاس کیوں نہیں ہے؟اس سوال کے جملہ الفاظوں سے یہ بات واضح ہوتا ہے کہ زیادہ تر اردو اخبارات اور صحافیوں نے حق و باطل کی تمیز نہیں کی جس کا اندازہ اس مضمون کے شائع ہونے سے لگ جائے گا یقین نہ ہو تو طویل انتظار کے بعد پڑھ کر دیکھ لینا کہ کون سا صحافی حق پرست اور کون سا صحافی باطلان قوم کاہے۔
در اصل بات یہ ہے کہ حکومت اور سیاست ایسی بلا کا نام ہے جو ایک مسلمان کو منکر بنانے میں کوئی تمیز نہیں کرتی اور اسی منکرین کو کامیابی کی طرف گامزن کرنے میں صحافیوں اور اخباروں کا ایک طبقہ مصروف ہے کیونکہ ملک کی تاریخ میں مذہب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کی خاموشیاں اس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ کہیں نہ کہیں ان کی رضامندی شامل ہے جو عام مسلمانوں کے لئے مضر اثرات سے کم نہیں ہے
آخر بات یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے کہ “اے نبی آپ تنگ دل اور مغموم نہ ہوں جس طرح آپ کے زمانے کے کفار آپ سے دشمنی کرتے ہیں اسی طرح ہررسول کے زمانے کے کفار اپنے اپنے رسولوں کے ساتھ دشمنی کرتے رہے ہیں اور پہلے کے پیغمبروں کو بھی جھٹلایا گیا ہے انہیں بھی ایذائیں پہنچائی گئیںجس پر انہوں نے صبر کیا اور تمام نبیوں کو کہا گیا تھا تیرا رب بڑی مغفرت اور ساتھ ہی المناک عذاب کرنے والا بھی ہے اور ہم نے گنہگاروں کو ہر نبی کا دشمن بنادیا ہے (سورہ انعام 112)چنانچہ کلام الہی سے تمام باتوں کی وضاحت ہوگئی اللہ تبارک و تعالٰی منکرین، منافقین، مشرکین، اور کافروں کو ان کے انجام تک پہنچانے کے لئے کافی ہے اللہ سے دعا ہے تمام مومنین کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
مضمون نگار سے رابطہ کے لیے 9029516236 پر ڈائل کریں۔