دہلی :دہلی حکومت کے ذریعہ اردو زبان میں کی جانے وال پینٹنگ کرنے والوں کو آر آر ایس کے ذریعہ روکے جانے کے معاملے پر دہلی کے وزیر ثقافت کپل مشرا نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے جبکہ اردو اکیڈمی کے وائس چیئرمین ماجد دیوبندی نے اس کو افسوسناک قرار دیاہے۔
دہلی کے وزیر ثقافت کپل مشرا نے آج دہلی پولیس کمشنر کو خط لکھ کر ان آر ایس ایس کارکنوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ، جنہوں نے 20 مئی کو شاہدرہ علاقہ میں جل بورڈ کی ایک عمارت پر اردو لکھنے کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ سرکاری عملہ کے ساتھ بدسلوکی اور مارپیٹ بھی کی تھی ۔ دہلی سکریٹریٹ میں پریس کانفرنس کرکے کپل مشرا نے کہا کہ وہ دہلی کی تہذیبی وراثت اور گنگاجمنی تہذیب پرآنچ نہیں آنے دیںگے۔
ادھر دوسری طرف اردو اکیڈمی کے وائس چیئرمین ماجد دیوبندی کا کہنا ہے کہ فرقہ پرست لوگ کسی بھی طرح ملک میں زبانوں اور دوسرے اختلافات کے ذریعہ ہندوستانیوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، جو بے حدافسوسناک ہے۔
خیال رہے کہ دہلی میں ایک دیوار پر اردو رسم الخط میں کی جانے والی پینٹنگ آر ایس ایس ممبران کو راس نہیں آئی اور انہوں نے پینٹنگ کرنے والے دو فنکاروں کو دھمکی دی ہے۔ آر ایس ایس ارکان کی طرف سے دھمکی ملنے کے بعد انہیں اس سلسلہ میں دلی پولیس کے جارحانہ سلوک کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ آر ایس ایس کے ارکان نے دیوار پر اردو اشعار لکھنے والے دو فنکاروں کو ان کی پینٹنگز انہیں سے مٹوانے اور وہاں اردو کی جگہ ہندی میں سوچھ بھارت ابھیان اور نریندر مودی لکھنے پر مجبور کیا۔
دی وائر کے مطابق، اخلاق احمد اور سیون سیمن شاہدرہ علاقہ میں واقع دہلی جل بورڈ کی ایک دیوار پراردو میں اشعار لکھ رہے تھے۔ اسی دوران آر ایس ایس سے وابستہ دو یا تین افراد آئے اور انہوں نے اردو میں اشعار لکھے جانے کا سبب پوچھا اور پھر انہیں ایسا کرنے سے زبردستی روک دیا۔ آر ایس ایس کے ان ارکان نے کہا کہ ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن اردو اسکرپٹ کو نہیں۔ گزشتہ ہفتے 19 مئی کو دہلی حکومت کی اجازت سے سرکاری عمارتوں کی دیواروں پر ایک غیر ملکی اور ایک ہندوستانی فنکار نے اردو اشعار کو پینٹنگز کی شکل میں پیش کرنے کی ابتدا کی تھی۔
اردو دہلی کی چار سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے اور حکومت دہلی نے ’مائی دلی اسٹوری‘ کے تحت سنہ 2014 میں ایک مہم شروع کی تھی جس میں لوگوں سے دہلی کے بارے میں ان کے تاثرات ٹوئٹر پر لیے گئے تھے۔ان میں سے 40 ٹویٹس کو منتخب کیا گیا تھا اور دوسرے مرحلے میں اب انھیں دہلی کی چار سرکاری زبانوں میں سرکاری عمارتوں پر پینٹ کیا جا رہا تھا۔اس مہم سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ یہ پروجیکٹ دہلی کی تاریخ و ثقافت، فنون لطیفہ، ماحولیات اور کھانوں کو بچانے کی کوشش ہے۔

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت
ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...