
کتاب اور اُردو صحافت

ـــــــ محمد عارف اقبال
ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی
اُردو صحافت کی تاریخ کا ذکر ہوتا ہے تو بات مولوی محمد باقر کے محاسن سے شروع ہوتی ہے، پھر محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد، سرسیّد احمد خاں اور دیگر اکابر صحافیوں اور دانشوروں کی مشنری صحافت پر ختم ہوجاتی ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانے میںاردوصحافت ’مِشن‘ ہوا کرتی تھی۔ تاہم صحافت کے پردے میں اس بات کو فراموش کردیا گیا ہے کہ جس پریس سے اردو اخبار شائع ہوا کرتا تھا، اس کا اصل مقصد علمی، تحقیقی اور ادبی کتابوں کی اشاعت تھا۔ اس وقت اخبار کی اشاعت کا جذبہ کلیتاً تحریکی اور مشنری تھا۔ صحافت کا استعمال ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی اور ظلم سے آزاد کرانا تھا۔ بالآخر وہ دَور بیش بہا قربانیوں کے ساتھ ختم ہوگیا۔
’اردو صحافت‘ نے جب آزاد ہندوستان میں بھی اپنے ’مشن‘ کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کیا تو اس کے ’مشن کی ترجیحات‘ میں زمینی تبدیلیاں واقع ہوچکی تھیں۔ اب اس کی ترجیحات میں چند اقدار پر مبنی اردو اخبارات کو چھوڑ کر تین بنیادی چیزیں تھیں: سیاست و اقتدار، سستی شہرت، دولت کا حصول۔ اردو کے بیشتر اخبارات (روزنامہ، ہفت روزہ وغیرہ) نے اپنی ترجیحات کے پیش نظر ان کی آرائش پر خصوصی توجہ مرکوز کی تاکہ اردو کے قارئین ’صبح کی چائے‘ کی طرح ان اخبارات کے بھی گرویدہ اور عادی ہوجائیں۔ یہاں ذکر فی الوقت ’اردو صحافت‘ کا ہے۔ لہٰذا اسی دائرے کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ اس ’مشن‘ میں دیگر زبان کے اخبارات بالخصوص انگریزی اخبارات بھی شامل ہیں۔ لیکن ان کا انداز اردو اخبارات سے جُدا ہے۔ کیونکہ ان کی ’خرابیاں‘ بھی اردو اخبارات کو میسر نہیں اور ’خوبیاں‘ تو شاید اردو صحافت کے نصیب میں ہی نہیں ہیں۔ آج سے تقریباً 45 برس قبل اردو دنیا کے لاثانی ادیب و تخلیق کار ابن صفی کے ایک ناول ’پاگلوں کی انجمن‘ (جون 1970) کا ایک مکالمہ ملاحظہ کیجیے:
’’ہم اردو کے اخبار نہیں دیکھتے!‘‘
’’دیکھا کیجیے۔۔۔ ایمان تازہ ہوتا ہے۔۔۔ ایک صفحہ پر درسِ قرآن پڑھیے اور دوسرے صفحہ پر ننگی چھپکلیوں کی تصویریں بھی دیکھ لیجیے!‘‘
اس سے تین سال قبل لکھے گئے ابن صفی کے ایک ناول ’دیوپیکر درندہ‘ (اگست 1967) کا یہ مکالمہ بھی پڑھئے:
’’بڑی عجیب بات ہے!‘‘ کرنل گراہم سرہلاکر بولا۔ ’’میں نے آج کا اخبار نہیں دیکھا!‘‘
’’دیکھتے بھی تو کیا ہوتا۔ اخبارات تو صرف اغوا اور عصمت دری کے واقعات سے بھرے ہوتے ہیں اور اندازِ بیان اتنا لذت انگیز ہوتا ہے کہ آج کل فحش ناول نگار بیٹھے مکھیاں مار رہے ہیں!‘‘
حمید سانس لیے بغیر بولتا چلا گیا۔
’’کیا خیال ہے آپ کا، اخبارات کی روِش کی بنا پر چَٹ پٹے ناولوں کی سیل کم ہوگئی ہے۔۔۔ اور۔۔۔ بازاروں میں حیرت انگیز کیپسول کی بھرمار ہوگئی ہے۔۔۔ ایک کیپسول کھالیجیے۔۔۔ بارہ مسالے کی چاٹ!‘‘
اندازہ کیجیے کہ آج کی اردو صحافت پر ’اردو میڈیا‘ ہونے کا نشہ طاری ہوا تو اس نے کیا گل کھلایا ہے— موجودہ اردو صحافت جو قومی انگریزی میڈیا سے اپنے فن، پروفیشن اور علمی و ادبی وقار کے لحاظ سے کوسوں دور ہے، اس کی تقلید میں نہیں بلکہ ’نقالی‘ میں یدطولیٰ رکھتی ہے۔ بات یہاں ان مشروم کی طرح پھیلے ہوئے چھوٹے اردو اخبارات کی نہیں ہے جو مشکل سے 50 عدد چھپتے ہیں، حتیٰ کہ عوام ان کے دیدار سے بھی محروم رہتے ہیں لیکن ان کا اندراج DAVP میں تیس سے چالیس ہزار ہوتا ہے۔ یہاں ذکر ملک کے ان اہم اردو اخبارات کا ہے جن کا ’مشن‘ انہی تین چیزوں کا حصول ہے یعنی سیاست و اقتدار، سستی شہرت، دولت کا حصول (اب ذریعہ حصول کی بھی کوئی قید نہیں)۔ ظاہر ہے کہ ان کے حصول کے لیے مختلف الخیال عوام کے ’ذوق‘ کا لحاظ ضرور کیا جاتا ہے۔ اگر اردو کے یہ اخبارات ’عوام کے ذوق‘ کو ملحوظ نہ رکھیں تو ان کی ’ضمانت بھی ضبط‘ ہوسکتی ہے۔ ان اخبارات کے مالکان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ’تاریخ رقم‘ کر رہے ہیں لیکن اس بات کو فراموش کربیٹھتے ہیں کہ ان کے ’اعمالِ صالحہ‘ کو ضبطِ تحریر میں بھی لایا جارہا ہے اور تعمیری لحاظ سے تاریخ ان کا ساتھ کبھی نہیں دے سکتی۔ آپ غور کیجیے کہ ہمارے سماج میں اخلاقی اقدار کا حامل ایک ادیب جب یہ کہتا ہے کہ ’’اردو اخبارات دیکھا کیجیے۔۔۔ ایمان تازہ ہوتا ہے۔۔۔ ایک صفحہ پر درسِ قرآن پڑھیے اور دوسرے صفحہ پر ننگی چھپکلیوں کی تصویریں بھی دیکھ لیجیے!‘‘ چند الفاظ میں ایک ادیب نے ’اردو صحافت‘ پر کتنا بلیغ تبصرہ کیا ہے۔ کتنا لطیف استعارہ ہے ’ننگی چھپکلیوں‘ کا۔ ’اردو صحافت‘ نے خاص طور پر گزشتہ چار دہائیوں سے مذکورہ تینوں عنوانات سیاست و اقتدار، سستی شہرت، دولت کے حصول کے تحت اپنے ’مشن‘ کو جاری رکھا ہے۔ پہلے عنوان کے تحت ہر چار پانچ سال میں ترجیحات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ بقیہ دو عنوانات سدا بہار ہیں۔ پہلے عنوان کے تحت بعض اوقات اردو صحافت ’قومی میڈیا‘ پر بھی چڑھ دوڑتی ہے لیکن ’مانگے کا اجالا‘ ہمیشہ اسی سے حاصل کرتی ہے۔ آج کی اردو صحافت معلومات، فن اور تکنیکی اعتبار سے اس درجہ پس ماندہ ہے کہ اس کا انحصار محض ’غیر ضروری خبروں اور مضامین‘ پر ہوگیا ہے۔ گزشتہ تقریباً دو دہائیوں سے بیشتر اردو اخبارات کا شکم ’بے ہودہ اور فحش اشتہارات‘ تعزیتی بیانات اور کسی سیاسی خبر پر ردّعمل کے طور پر ارسال کیے جانے والے بیانات سے پُر کیا جاتا ہے۔ حیرت ہے کہ کسی اہم شخص کے مرنے کی بعض اوقات مکمل خبر بھی شائع نہیں ہوتی، تاریخ وفات بھی نہیں بتائی جاتی لیکن اس شخص کے مرنے کے تعزیتی بیانات کا سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہتا ہے۔ دوسری طرف اخبارات کی سرخیوں اور بین السطور میں اغلاط کی بھرمار رہتی ہے۔ خبروں میں تکرار اس قدر ہوتا ہے کہ جس خبر کو اردو اخبار کا رپورٹر دوسو الفاظ میں تیار کرتا ہے، اگر فن و تکنیک کا ماہر ایڈیٹر اسے تیار کرے تو اس خبر کے لیے تیس سے چالیس الفاظ کافی ہوں گے۔ اردو زبان و ادب اور قواعد کے لحاظ سے اردو کے یہ اخبارات انتہائی پستی کی طرف جارہے ہیں۔ ان سے وابستہ مدیران کو ایڈیٹنگ کا شعور بھی نہیں ہوتا۔ رہی سہی کسر انٹرنیٹ نے پوری کردی ہے کہ تساہلی اور پس ماندگی کا دَر وا ہوچکا ہے، کچے پکے مضامین کا حصول آسان ہوگیا ہے، جو اکثر ایڈٹ کیے بغیر شائع کردیے جاتے ہیں۔
موجودہ اردو صحافت کو بلاشبہ اپنی پس ماندگی اور زوال کا بخوبی احساس ہے لیکن اپنی اس کمزوری کا بہ وجوہ اظہار نہیں کرتی۔ اس لیے اردو صحافت آئے دن ’مسالہ دار موضوعات‘ کو ’قومی مسئلہ‘ بناکر پیش کرتی ہے۔ ان دنوں ’مدارسِ اسلامیہ‘ کے نام پر خصوصی نمبر شائع کرنے کا رجحان عام ہوگیا ہے۔ اس کے برعکس ملک کے عوام غربت و افلاس، تعلیمی مسائل، معاشی مسائل، رہائش کے مسائل، روزگار کے مسائل، صنعت اور کارخانے کے مسائل اور نہ جانے کتنے مسائل میں مبتلا ہیں، لیکن اردو اخبارات کے پاس ایسی ’تفتیشی ٹیم‘ بھی نہیں جو ان مسائل کو منظرعام پر لاتی اور اردو قارئین کو اپنے سروے اور تجزیے سے باخبر کرتی۔ ہاں! نقالی میں وہ کبھی کبھی ’دوسرے کے مال‘ کو ’اپنا مال‘ بناکر پیش کرنا ان کا ’طرہ امتیاز‘ ہوگیا ہے۔
اب ان اخبارات کے مالک یا مالکان کی ایک مہم یہ بھی ہے کہ وہ اردو زبان و ادب کی بقا کا ضامن بھی خود کو سمجھنے لگے ہیں۔ ان کے نزدیک جو بھی اردو کا اخبار خرید کر نہیں پڑھتا وہ ’اردو کا دشمن‘ ہے۔ ان پر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اردو کی بقا صرف تعلیم میں ہے اور تعلیم کا راست تعلق کتاب سے ہے۔ اردو زبان اور اردو عوام کے ساتھ یہ کتنا پُرفریب مذاق ہے کہ ’کتاب کے فروغ‘ کی جگہ اب باسی، چبائے ہوئے لقمے، غیر معیاری اور کسی درجے میں فحش تحریروں کو ’اردو کی بقا‘ کا ضامن قرار دیا جارہا ہے۔ حالانکہ دانشوروں کا یہی قول معتبر ہے کہ: ’’کتاب تنہائی کی بہترین دوست، زندگی کا سرمایہ اور انسانی وِرثہ کے تسلسل کی ضمانت ہے۔‘‘