اندرونی خلفشار ملکی معیشت کے لیے تباہ کن ہوتا ہے

ملک میں بڑھتی بے روزگاری کی وجہ سے بھگوا آتنک واد میں اضافہ ہوا ہے۔ بھولے بھالے نوجوانوں کو دھرم کے نام پر استعمال کرنے کی سنگھی کوشش
ملک میں بڑھتی بے روزگاری کی وجہ سے بھگوا آتنک واد میں اضافہ ہوا ہے۔ بھولے بھالے نوجوانوں کو دھرم کے نام پر استعمال کرنے کی سنگھی کوشش

ملک کے لیے حالاتِ جنگ سے بھی زیادہ سنگین وقت کون سا ہوتا ہے؟ جب معیشت کا پہیہ رک جاتا ہے۔ جب تجارت کا پہیہ رکتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ بس یوں سمجھو کہ ملک اس مریض کی مانند ہو جاتا ہے جو آخری سانسیں گن رہا ہو۔ ایسا کب ہوتا ہے؟ جب تاجر پریشان ہوتا ہے۔ تاجر کب الجھن کا شکار ہوتا ہے؟ جب وطن بدامنی کے کینسر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔جی ہاں! یہ سچ ہے ملک کا اندرونی خلفشار سب سے بڑی آفت ہوتا ہے۔ معاصر حالات میں وطن عزیز کا تاجر ایسے ہی کرب کا شکار ہے۔اس کی وجہ سے وہ خود تو پریشان ہے ہی، ملک بھی اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔مگر اے کاش! کہ یہ بات کارپردازانِ سیاست کی سمجھ میں آ جائے۔ کاش!ملک کے اقتصادی مفادات کو انا کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ آئیے! ایک پریشاں حال تاجر سے گفتگو کرکے اسی مسئلے کی سنگینی کا اندازہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ گفتگو ایک انگریزی ویب سائٹ سے ترجمہ کی گئی ہے۔ یہ ایک ایسے تاجر کے ساتھ ایک نشست کا خلاصہ ہے جسے اس کے بقول:جرم بے گناہی میں قید کیا گیا۔ اس کی تجارتی سرگرمیوں کی بندش کس طرح ملک کے لیے چیلنج بنی؟ آئیے! ملاحظہ کرتے ہیں۔ واضح رہے حاصلِ موضوع کو مقصود بناتے ہوئے شخصیت کی پہچان قصداً حذف کر دی گئی ہے۔
سوال:سب سے پہلے ہمیں اپنی زندگی اور اپنی تجارتی سرگرمیوں سے متعلق مختصراً آگاہ کریں۔
جواب:میری پیدائش 1956ء کی ہے۔ میں نے اپنی تعلیم 1980 ء میں مکمل کی۔ میرا خاندان زیادہ تر صنعت و تجارت کے شعبے سے منسلک ہے۔ میرے والد رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ٹیکسٹائل اور ریڈی میڈ کلاتھز کی اپنی ایک مشہور فیکٹری تھی۔ میں نے تمام کاروباری راز انہی سے سیکھے۔عملی زندگی کی شروعات بھی اپنے والد کے ساتھ کاروبار سے کی۔ میں نے اپنا بزنس 1980 ء کی دہائی کے آغاز میں شروع کیا۔ سب سے پہلے 1986 ء میں ایک سافٹ ویئر کمپنی کی بنیاد ڈالی۔ جو بعد میں اس فیلڈ کی بہت بڑی کمپنی بن کر پھیل گئی۔ اس نے اس وقت کمپیوٹر سسٹم اور سافٹ ویئر کے حوالے سے انٹرنیشنل شہرت حاصل کی۔ چند ہی برسوں میں اس کی سرگرمیاں بڑھ گئیں اور ملک میں اس کی شاخوں کی تعداد پانچ تک جا پہنچی۔میں نے اس کے علاوہ بھی مختلف میدانوں میں قدم رکھ دیے اور کئی دوسری کمپنیوں کی بنیاد ڈال دی۔ میں دس ملکوں کے ساتھ ایکسپورٹ و امپورٹ کے معاملات چلا رہا ہوں۔ میری کمپنی کی برانچز اور ان کی شاخیں بہت بڑھ چکی ہیں۔ کمپنی میں کام کرنے والے ملازمین اور مزدوروں کی تعداد چار سو سے بڑھ کر ہے۔
سوال:آپ کی گرفتاری کے باعث اس قدر وسیع کاروبار بند ہوجانے کے اثرات یقینا ملکی معیشت پر پڑے ہوں گے۔ اس حوالے سے کیا بتانا پسند کریں گے؟
جواب:میرے خیال میں اس کی وجہ سے جن نقصانات کا میرے ملک کو سامنا کرنا پڑا، اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: بے شمار غیر ملکی کمپنیاں ہمارے ملک میں سرمایہ کاری نہیں کرنے آئیں گی، ایک ایسی کمپنی جس کے ساتھ میری ڈیل ہو چکی تھی کہ وہ ہمارے ملک میں آئے اور ایکسپورٹ کے لیے فرنیچر بنائے، لیکن اب وہ معاہدے کے با وجود یہاں نہیں آ رہی، کیونکہ ہمارے حکمرانوں کو تاجروں اور سرمایہ کاروں کی کوئی پروا نہیں ہے۔ میری کمپنی کے علاوہ بھی بہت سی دوسری کمپنیوں کے مالکان، ملک سے رخت سفر باندھ رہے ہیں۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے کیس کی وجہ سے اسٹاک ایکسچینج میں گڑ بڑ شروع ہو گئی اور لوگ بینکوں سے دھڑا دھڑ اپنی رقوم نکالنے لگے۔ تیسرا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے ملک کا امیج دنیا بھر میں خراب ہو گیا۔ معاہدے ٹوٹنے سے لوگوں کو روزگار نہیں مل رہا، کیونکہ فیکٹریاں بند ہو گئی ہیں۔ یہ ایک سنگین صورت حال ہے۔ میں نے بہت ساری کمپنیوں سے ڈیلز کر رکھی تھیں لیکن اب وہ منسوخ کرنی پڑی ہیں، اس کے علاوہ ملکی کمپنیوں سے معاملات طے کر رکھے تھے، وہ بھی منسوخ کرنے پڑ گئے۔ یہ میرے بزنس کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ جب آپ کا بزنس Groth کرنا چھوڑ دے اور نقصان میں جا رہا ہو، اس سے بڑا خسارہ کیا ہو سکتا ہے۔ آپ کی بنائی ہوئی خوبصورت عمارت آپ کے سامنے گرائی جا رہی ہوتو آپ پر کیا گزرے گی؟ ملک میں بزنس کو زندہ رکھنے کے لیے تاجر کو پر سکون رکھنا ضروری ہوتا ہے، ورنہ معیشت کا پہیہ الٹا گھومنے لگتا ہے۔
سوال:آپ کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں امن و امان کی بحالی ناگزیر ہے؟
جواب:کیوں نہیں، بدامنی ملکی معیشت کے لیے زہر قاتل ہے۔ تحفظ اور امن سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ بزنس اور معیشت میں ان دونوں کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ امن اور سلامتی کا سوال ہمیشہ اور ہر طرح کی صورت حال میں سر فہرست رہتا ہے۔ جب امن اور تحفظ نہیں ہو گا تو لوگ بزنس کرنے سے گھبرائیں گے، دلجمعی سے کام نہیں کر پائیں گے۔ دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو کمپنیوں سے روزگار مل رہا ہوتا ہے،امن و امان کی دگرگوں صورت حال اور ناروا حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ان کا رزق بند ہو جاتاہے۔ اس کا اثر ملکی معیشت پر پڑتا ہے۔ کسی ملک کی معیشت کی مضبوطی کے لیے وہاں کے باشندوں کا برسرِ روزگار ہونا ضروری ہے۔
سوال:آپ کی گرفتاری اور آپ کے خلاف الزامات کا اثر آپ کے بزنس پر کیا پڑا؟
جواب:میں اس کے منفی اثرات گِنوا چکا ہوں جو ان واقعات کی وجہ سے میرے بچوں اور میری فیملی پر پڑے، لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے، اس کے مثبت پہلوؤں کو بھی دیکھنا چاہیے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری اور میری فیملی کی اب تک حفاظت کر رہا ہے اور کرتا رہے گا، اگر چہ میرے بچوں نے تکلیف محسوس کی اس ظلم اور نا انصافی کی، مگر یہ بات میرے لیے حوصلہ افزا ہے کہ میرے بیٹے ظلم اور نا انصافی کے سامنے سرنڈر نہ ہوئے۔ ہر باپ کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد بڑی ہو کر اپنے والد کا سہارا بنے۔ الحمد للہ! میری اولاد نے مجھے مایوس نہیں کیا۔ دوسری مثبت بات یہ ہے کہ اچانک حالات کے آنے کی وجہ سے میرے بچے اپنے وقت سے پہلے جوان ہو گئے اور انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہو گیا، میں اب ان پر مستقبل میں اعتماد اور انحصار کر سکتا ہوں۔ تیسری مثبت بات یہ ہے کہ میرے ملازمین، پڑوسی وغیرہ سب نے ہمدردی کا جذبہ دکھایا۔ میرے کلائنٹ، سپلائر اور دوسرے بزنس پارٹنرز نے بھی میری حمایت کی۔ یہ میرے لیے ایک نیک فال تھی۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ جو میں نے اپنی اولاد کی تربیت کی اور اپنے ملازمین کی ٹریننگ کی، اس کا ثمرہ پا لیا۔ انہوںنے غلط کو غلط کہا اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائی۔
سوال:آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ اپنے بزنس کے لیے بینکوں سے پیسہ نہیں لیتے، اس حوالے سے آپ کیا فرمائیں گے؟
جواب:مجھے اس پر فخر ہے کہ میرا بزنس بینکوں کی خیرات اور بھیک پر نہیں چلتا۔ میری تمام کمپنیوں نے قدرتی طور پر اور وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کی ہے۔ یہ سب مارکیٹ میں ہوا۔ میری کمپنیوں نے اپنی پروڈکٹ کا لوہا منوایا۔ جب مارکیٹ میں اپنی پروڈکٹ کے ساتھ داخل ہوتے ہیں، اس وقت آپ کا سفر شروع ہو جاتا ہے، کامیابی کی طرف یا ناکامی کی جانب۔ اگر آپ کی پروڈکٹ اچھی اور معیاری ہو گی تو آپ کی شہرت اور ساکھ بنے گی۔ جو آپ کی کامیابی کا سفر مختصر اور جلد طے کروا دے گی۔مجھے بزنس شروع کیے ہوئے 23 سال کا عرصہ بیت چکا ہے، میرے ساتھ کوئی تجارتی یا مالی فراڈ اور دھوکا نہیں ہوا۔ یہ اللہ کا خصوصی کرم ہے۔
سوال:آپ تاجروں کو کیا پیغام دیں گے؟
جواب:بزنس کی دنیا میں مشکلات بھی ساتھ چلتی ہیں، چاہے وہ سیاسی ہوں یا معاشی، ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔تاہم حکومتیں اور اہل سیاست کبھی اپنے ذاتی اور عارضی مفادات کے لیے ملکی معیشت کو قربان نہ کریں کہ یہی اصل حبّ الوطنی ہے۔

بہ شکریہ شریعہ بزنس

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *