
’’ خلیل آئس کریم والااور دیپوچمار کا بیٹا۔۔۔؟‘‘

ندیم صدیقی،ممبئی
بھیونڈی کے محمد ابراہیم انصاری ( 1984 میں بھیونڈی کے فساد میں جن کا مکان وغیرہ جلا دِیاگیا تھا۔) کے نام سے ہمارے پرانے لوگ ناواقف نہیں ہونگے۔ اس مرحوم کرم فرما نے ہمیں ایک دن بتایا تھا کہ میں نے (بھیونڈی کے)نارپولی علاقے میں کرانے کی ایک بڑی دُکان کھولی جہاں اکثریت گجراتی برادرانِ وطن کی تھی۔ ایک مدت گزر گئی مگر یہاں کے لوگوں نے میری دُکان کی طرف نگاہِ غلط انداز بھی نہیں ڈالی۔ تو میں نے یہاں کےکچھ شناسا لوگوں سے اس کی وجہ پوچھی تو ، جواب ملا کہ آپ لوگوں سے ہم کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں خریدتے۔ میں نے کہا : مگر ساری چیزیں تو پیکPack کی ہوئی ہیں۔ تو اُس شناسا نے تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ ہماری طرف دیکھا اور مَلِچھ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا اور آخر ایک دن ہمیںیہ دُکان بڑھانی ہی پڑی ۔
آج برسوں بعد یہ بات ہمیں ایک تازہ خبر نے یاد دِلا دی۔ اس خبر میں بھی ہم آپ کو شریک کرتے ہیں :
’’ ایک گاؤں میں 42 سالہ خلیل نامی آئس کریم فروش کو مسلمان خواتین اور بچوں کو آئس کریم بیچنے پر کچھ لوگوں نے مارا پیٹا۔ خلیل کو مارتے ہوئے اس گروہ نے نعرہ بازی بھی کی کہ تم اچھوتوں میں سے ہو،اس لئے تم کو اس کی اجازت نہیں کہ ہمارے بیچ کھانے پینے کی اشیا فروخت کرو۔خلیل نے بتایا کہ 17 مئی 2016 کو وہ آئس کریم بیچنے کیلئے گیا، دو افراداسکے پاس آئے اور چوڑا کہتے ہوئے ذِلت آمیز الفاظ استعمال کرنے لگے (چوڑا اُس علاقے میں نچلی ذات کیلئے استعمال کیا جاتاہے۔)۔خلیل نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے مجھے چوڑا ہی نہیںکہا بلکہ مجھ پر الزام لگانے لگے کہ میں ان کے بچوں اور خواتین کو گندی اور ناپاک اشیا بیچ رہا ہوں،میں نے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسا نہیں ہے لیکن انہوں نے میر ی بات سنی ہی نہیںاور کوئی 20 افرادکے قریب ہجوم ہوگیا اور ان سب نے غصے میں مجھے مارنا پیٹنا شروع کردیا،مجھے مارا ہی نہیں بلکہ میری سائیکل بھی توڑ ڈالی اور میری آئس کریم بھی زمین پر بکھیر دی۔ ہجوم سمیت پاس کھڑے مسلمان مرد اور خواتین تکبر کے نعرے لگاتے رہے ا ور کہتے رہے کہ تم ا چھوت ہو ، تم ہمارے نبی کو نہیں مانتے۔تم کو مسلمانوں میں کھانے پینے کی اشیا بیچنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔۔۔‘‘
یہ واقعہ کہیں اور کا نہیں بلکہ اس ملک(پاکستان) کاہے جو اسلام ہی کے نام پر وجود میں آیا ہے۔ہمارا قاری حیرا ن ہوگا کہ آخر ماجرا ہے کیا کہ آئس کریم بیچنے والا تو خلیل ( یعنی مسلم)ہے۔!! یقیناً یہ خلیل ہے مگر کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ پاکستان میں خاصی تعداد میں عیسائی آباد ہیں اور ان کے اکثر نام ہی نہیں بلکہ رہن سہن اور لباس تک بالکل مسلمانوں جیسے ہیں۔ یہ سنی سنائی نہیں بلکہ ہمارامشاہدہ بھی ہے یہ عیسائی بہت اچھی اُردو بھی بولنے پر قادر ہیں۔
ہم نے ابراہیم انصاری مرحوم کے واقعے کا ذکر کیا ہے، اللہ نے انھیں نوازا تھا انہوں نے دوسرا کاروبار اختیار کر لیا۔ مگر وہ لوگ جو چھوٹے چھوٹے پیشے اور کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ان کےلئے یہ مرحلہ کس قدر روح فرسا ہوگا!! اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
وہ خلیل مسیح کی آئس کریم کی سائیکل ہو یا ابراہیم انصاری کی کرانے کی دُکان۔ ہم نے تو یہ سوچا کہ ایسا ہوتا کیوں ہے، اس کی جڑ بنیاد کہاں اور کیوں ہے۔؟ ہمیں اپنے بزرگوں کا دَور یاد آتا ہے جو اپنے ہم مذہب پیشہ ور لوگوں کے تعلق سے نہایت منفی رویہ روا رکھتے تھے۔ مثلاً نائی( اب سلمانی کہلاتے ہیں)، کپڑا بننے والے یعنی جُلاہے ( انصاری وغیرہ ) جیسی برادری کے لوگوں کے ساتھ۔
اپنے ایک بزرگ کا بہت ہی طمطراق کے ساتھ سنایا ہوا واقعہ بھی نذرِ قارئین کرتے چلیں۔
’’ہمارے دادا جان گاؤں کے زمیں دار تھے۔ گاؤں کے دیپو چمار کا بیٹا شہر سے کچھ پڑھ و ڑھ کر گاؤں لوٹا ۔ گرمی کا موسم تھا ،شام سے کچھ قبل ہمارے دادا جان برآمدے میں نیم دراز تھے، انہوں نے دیکھا کہ دیپو چمار کا بیٹاسامنے سے گزرا اور اس نے دادا جان کی طرف دیکھتے ہوئےدونوں ہاتھ جوڑ کر’’ میاں! سلام‘‘ کہا اور آگے بڑھ گیا۔
دادا جان کو بہت گراں گزرا۔ انہوں نے اپنے قریب ہی دو چار مسٹنڈے جو اینڈ رہے تھے اُنھیں اشارہ کیا کہ ذرا دیپو چمار کے اس کپوت کو گھسیٹ لاؤ۔ اُس کی یہ مجال’ سلام مار کے آگئے بڑھ گیا‘۔ دادا جان کے مسٹنڈے آن کی آن حکم بجا لائے۔ اب مسٹنڈوں کو حکم ہوا کہ ذرا میری نعلین شریف سے اس کی دس بار ’تاج پوشی‘ کرو۔ دِیپو چمار کا بیٹا کہتا ہی رہ گیا کہ میاں جی! ہم سے کیا گلتی ( غلطی)ہوگئی؟ اور مسٹنڈے ہاتھوں میں نعلین اٹھائےگنتے جاتے اور اس کی تاج پو شی کرتے جاتے تھے۔ اب حکم ہوا کہ جاؤ اس کے باپ دیپو ؔ کو بلا لاؤ۔ باپ بھی دوڑا دوڑا آیا ، اس کی بُدھی تیز تھی معاملہ سمجھ گیا ۔ دادا جان نے غیظ و غضب سے بھری آواز میں ڈانٹا کہ ’’ شہر میں یہی پڑھوانے کےلئے بھجوایا تھا کہ یہ گاؤں کی ریت رواج بھول جائے۔ لے جاؤ، آج اس نے صرف دس جو تیاں کھائی ہیں اگر اس نے آئندہ ایسا کیا تو اس کا کیا حشر ہوگا ،سو چ لینا۔۔۔‘‘
انگریزوں کے جا نے کے بعد نہ زمیں داری رہی اور نہ میاں جی کا طمطراق اور یہ بھی دیکھا گیا کہ دیپو چمار جیسوں کے بیٹوں نے تعلیم ہی نہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور میاں جی کی اولادیں محض فخر و غرور کے قصے ہی سناتی رہیں اور میاں جی کی تیسری نسل کا حال تو مت پو چھئے۔ دیپو چمار کے بیٹے بڑے بڑے عہدوں تک پہنچے اور اب سوچئے کہ دیپو چمار کے بیٹوں نے میاں جی کی نعلین اور اپنی تاج پوشی بھلا دِ ی ہوگی۔۔۔! ۔۔۔اور اس وقت ذرا ہمیں اپنا احتساب بھی کرنا چاہیے کہ ہم اپنے ہی ہم مذہب جو تعداد میں کم یا کسی طور پچھڑے ہوئے ہیں ان سے کس طرح پیش آتے ہیں اور ذرا یہ قولِ صادق بھی یاد کریں کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ہم زمانے کو ادلتے بدلتے بھی رہتے ہیں۔