رگھو رام راجن کے جانے سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچے گا

raghuram Rajan

نئی دہلی (ایجنسی و معیشت نیوز) ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے گورنر رگھو رام راجن کے دوسری مدت کے لئے انکار کرنے پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس نے نریندر مودی حکومت کی سخت تنقید کی اور کہا کہ انہیں ایک برس سے نشانہ بنایا جا رہا ہے. کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے کہا کہ مودی حکومت کو ڈاکٹر راجن جیسے ماہر نہیں چاہئیں. مسٹر گاندھی نے ٹوئٹر پر ڈاکٹر راجن کو شکریہ بھی کہا ہے. پارٹی کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر غلام نبی آزاد نے کہا کہ ڈاکٹر راجن کو گزشتہ ایک برس سے نشانہ بنایا جا رہا ہے. مسٹر آزاد نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ گزشتہ ایک برس سے ڈاکٹر راجن کو نشانہ بنا رہے ہیں. انہوں نے کہا کہ جس طرح سے بی جے پی حکومت نے آر بی آئی گورنر کے ساتھ سلوک کیا ہے، وہ تکلیف دہ ہے.
سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم پہلے ہی کہ چکے ہیں کہ ’’مودی حکومت راجن کے لائق ہے بھی یا نہیں یہ بھی سوچنے کا پہلو ہے‘‘ انہوںنے کہا کہ’’ یو پی اے حکومت میں دنیا کے معروف و ممتاز ماہر اقتصادیات کو آر بی آئی کا گورنر بنایا ۔ اس وقت ہم نے ان پر پورا بھروسہ کیا اور آج بھی ہمیں ان پر پورا بھروسہ ہے۔‘‘ممبئی کے معروف سینئرصحافی حسن کمال کہتے ہیں ’’رگھو رام راجن کے جانے سے ملک میں ہورہی سرمایہ کاری کو راست نقصان پہنچے گا۔ عالمی مالیاتی ادارے رگھو رام راجن پر بھروسہ کرتے ہیں اور اسی مناسبت سے سرمایہ کاری بھی ہورہی ہے جبکہ ملک میں لگا پیسہ بھی رگھو رام راجن کے مرہون منت ہے لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ راجن کا جانا ملک کے لیے نیک شگون نہیں ہے ان کے جاتے ہی بیرونی سرمایہ کار اپنا پیسہ بھی ملک سے نکال لیں گے جس سے شدید مالی بحران کا اندیشہ ہے‘‘۔اردو چینل کے مدیر اپنے فیس بک پوسٹ پر لکھتے ہیں’’ہارورڈ یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سے معطل کیے گئے سبرامنیم سوامی آج رگھو رام راجن کے جانے کی خوشی میں بغلیں بجا رہے ہیں. اسے ملک کی بدبختی ہی کہیں گے کہ دنیا کے بڑے اکنامسٹ میں سے ایک راجن کے مقابلہ سوامی جیسے اوچھے لوگ بی جے پی حکومت میں اس قدر طاقت ور ہوگئے ہیں‘‘.
دریں اثنا کانگریس نے مودی حکومت پر روزگار، صنعت، زراعت اور اقتصادی ترقی سمیت تمام محاذوں پر ناکام رہنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ دو سال کے دوران عام لوگ ہی نہیں بلکہ بی جے پی کی اتحادی جماعتیں بھی اس سے خوش نہیں ہیں۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے مالی خسارے، کوئلہ اور کھاد کی پیداوار میں بہتری کے حکومت کی کوششوں کو مثبت بتایا لیکن کہا کہ دیگر تمام محاذوں پر وہ ناکام ثابت ہوئی ہے۔صنعتی، زرعی، روزگار، سالانہ ترقی کی شرح وغیرہ کی سطح پر دو سال کے دوران منفی نتائج دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اس محاذ پر وہ پوری طرح ناکام رہی ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد،لاکھوں نوجوان روزگار کی تلاش میں باہر آ رہے ہیں لیکن ان کے لئے روزگار کہاں ہے۔ مودی سرکار دو سال کے دوران روزگار فراہم کرنے میں سب سے پھسڈی ثابت ہوئی ہے۔ زرعی شعبے میں حکومت کا ریکارڈ مایوس کن ہے اور اس میں 2013-14 کے دوران ترقی کی شرح منفی تھی اور اب اس میں معمولی بہتری آئی ہے۔
ملک میں خشک سا لی کے حالات کااکثر سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ حکومت اس سے نمٹنے کے اقدامات کرنے میں ناکام رہی تو حالات زیادہ پیچیدہ ہو گئے۔ دیہی علاقوں میں خشک سالی کے سبب کسان بے حال ہیں اور اس کے سامنے زندگی کا بحران کھڑا ہو گیا ہے۔مسٹر چدمبرم نے کہا کہ کمپنیوں کی سالانہ فروخت کی شرح منفی درج کی گئی ہے، جس کی وجہ سے قرض کی مانگ دو دہائی کے نچلے سطح پر پہنچ گئی ہے۔ برآمد کے شعبے میں کمی آئی ہے اور صنعتی پیداوار کی ترقی کی شرح 2015-16 کے دوران محض 2.4 فیصد رہی ہے۔
میک ان انڈیاکی موجودہ صورت حال کو انہوں نے بے سمت قرار دیا اور کہا کہ ایک مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ ملک میں سروس کے علاقے میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے لیکن مینوفیکچرنگ کے شعبے میں اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 1137 منصوبے گزشتہ دو سال سے زیر التوا میں ہیں اور گرین فیلڈ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کاکوئی نتیجہ سامنےنہیں آ رہا ہے۔سابق وزیر خزانہ نے سوال کیا کہ زراعت اور صنعت کے شعبے میں ہی جب مایوسی کا ماحول ہے تو حکومت کے دو سال پورے ہونے پر جشن میں کس بات کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی کامیابیوں سے عام آدمی تو دور اس کی اتحادی شیو سینا بھی خوش نہیں ہے ۔
کانگریس نے حکومت کے دعوؤں پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنے دو برس کے دور اقتدار میں ملک کی ترقی کی شرح کے 6ء7 فیصد کی سطح پر پہنچنے کا دعوی کررہی ہے، لیکن ماہرین اور عام لوگ اس بات سے حیران ہیں کہ جب اتنی ترقی ہوئی ہے تو وہ نظر کیوں نہیں آرہی ہے۔ کتابچہ میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا ہے صنعتی کامیابی اور ایکسپورٹ سب کچھ منفی ہے تو یہ نظر کہاں سے آئے گا۔
کتابچہ میں کہا گیا ہے کہ دو برس کی میعاد کار سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ مودی حکومت صرف بڑے بڑے دعوے اور پرکشش وعدے کرتی ہے۔ موجودہ حکومت نے دو برسوں میں کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا ہے بلکہ وہ صرف پرانی اسکیموں کا نام بدل کر انہیں نیا بناتی رہی ہے۔ کانگریس کے ذریعے تیار کردہ اشیاء اور سروس ٹیکس (جی ایس ٹی) جیسے بلوں کو حکومت پاس نہیں کرانا چاہتی ہے، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے کہنے پر وہ اس سے ہاتھ پیچھے کھینچ رہی ہے اور اسے پاس نہ کرانے کا الزام کانگریس پر لگارہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *