تین مختلف مضامین مگر ہدف ایک اسلام اور مسلمان

ڈاکٹر ذاکر نائک
ڈاکٹر ذاکر نائک

نور اللہ جاوید
قومی ذرائع ابلاغ میں مسلمانوں کی کردار کشی کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے بلکہ جب سے ٹی آر پی کی جنگ شروع ہوئی ہے اس وقت سے سب سے زیادہ آسان چارہ مسلمان ہی رہے ہیں ۔مسلمانوں سے متعلق منفی خبریں اور مسلم نوجوانوں کو بدنام کرنے کا ہر حربہ ٹی آرپی کیلئے سب سے آسان نسخہ ثابت ہوا ہے ۔مگروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا کے جارحانہ تیور کے انداز بدلتے جارہے ہیں بلکہ اس وقت قومی میڈیا چاہے پرنٹ یا الیکٹرنک دونوں مسلمانوں کے خلاف مہممیں فرنٹ لائن کا حصہ ہے ۔اب الیکٹرانک میڈیا کے جارحانہ تیور کی زد میں مسلمانوں کی لیڈر شپ اور نامور شخصیتیں ہیں اور یہ سلسلہ آگے ہی بڑھتا جارہا ہے جو لوگ آج اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ممکن ہے وہ کل اس کی زد میں ہوں گے گرچہ وہ اس وقت ادارک کی صلاحیت سے عاری ہیں ۔حالیہ دنوں میں تین مضامین مختلف عناوین سے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔گرچہ یہ تینوں مضامین الگ الگ موضوع پر لکھے گئے ہیں مگران میں دو باتیں مشترک تھیں پہلا ان تینوں مضامین کے لکھنے والے مسلمان ہیں ، دوسرے یہ ان تینوں مضامین میں دہشت گردی اورسماج میں منافرت میں اضافہ کی وجہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کو بتایا گیا ہے ۔
پہلا مضمون انگریزی میگزین ’’دی اوپین‘‘کے انٹر نیٹ ایڈیشن میں Call for Jihad’’ جہاد کی دعوت‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا ہے ۔مضمون نگار طفیل احمد ہیں جو بی بی سی سے وابستہ رہ چکے ہیں اس وقت وہ درس وتدریس سے وابستہ ہیںاور ساتھ ہی مختلف رسالوں کیلئے لکھتے ہیں ۔فاضل مضمون نگار نے غزوہ بدر جو ہجرت کے دوسرے سال 17رمضان المبارک کو کفار مکہ کے مظالم و زیادتی کے خلاف بدر کے میدان میں پیغمبر اسلام کی قیادت لڑی گئی تھی کی سالگرہ کے موقع پر اردو اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین پر تبصرہ کیا ہے ۔انہوں نے سوال پیدا کھڑا کیا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا داعش (آئی ایس آئی ایس)کے خطرات سے دو چار ہورہی ہے؟تو 1400سال پرانی جنگ کی یاد دہانی کیا ضرورت ہے؟اس کی وجہ سے مسلم نوجوانوں میں جہاد کے جذبے کے بیدار ہوں گے اور داعش جیسی خطرناک تنظیم کا حصہ بنیں گے؟
دوسرا مضمون بنگلہ دیش کی راجدھانی ڈھاکہمیں یکم جولائی کو ایک کیفے میں دہشت گردانہ حملے کے بعدبنگلہ دیشی اخبار کے ڈیلی اسٹار میں یہ خبر شایع ہونے کے بعد حملہ آوروں میں سے ایک مشہور اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے متاثر اور ان کا مداح تھا۔اس کے فوری بعد ہندوستانی میڈیا نے ان کے خلاف ٹرائیل شروع کردیا ،ملک کے سب سے بڑے دشمن حافظ سعید کے ساتھ رابطے کے تاڑ جوڑے جانے لگے ۔ملک کی جانچ ایجنسیاں غیر معمولی مستعدی کا مظاہرہ کردیا ۔ نیوز چینلوں پر گرما گرم بحث کے دورا اردو کے ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹر نے ’’قصہ ذاکر نائیک‘‘کے عنوان سے جارحیت پرمبنی ایک خصوصی مضمون لکھ کر ذاکر نائیک کے خلاف ایک نیا مورچہ کھول دیا اور بین السطور میں انہوں نے مرکزی ایجنسیوں ، میڈیا ٹرائیل کی حمایت کی۔انہوں نے معروضیت اور صحافتی اقدار و اخلاق کا پاس و لحاظ رکھے بغیر کہا کہ ڈھاکہ سے لے کر مدینہ منورہ تک ہونے والے دہشت گردانہ حملے کیلئے ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے افراد ذمہ دار ہیں ۔انہوں نے بڑی عجلت میں اس مضمون کا ہندی و انگریزی ترجمہ بھی شایع کیا ، ٹی وی بحث میں حصہ لیتے موصوف نے وہاں بھی زہر افشانیوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ٹی وی اینکر رویش کمار کے یہ کہنے کے باوجودکہ تشدد کیلئے صرف مذہب کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے، مگرموصوف ایڈیٹر صاحب مصر تھے کہ صرف مذہب ذمہ دار ہے کیوں کہ مذہب میں جہاد کی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔
تیسرا مضمون بی بی سی اردو اور ہند ی کی ویب سائٹ پر شکیل اختر کا ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف کارروائی کے تناظر میں’’کیا دیوبند اور ندوہ میں حکومت کا دخل ضروری‘‘کے عنوان سے جارحانہ انداز ہے ۔ شکیل اختر بی بی سی اردو سروس سے وابستہ ہیں ، اردو حلقے میں کافی معرو ف ہیں ۔انہوں نے ملک کے ان دو عظیم تعلیمی اداروں اور اس سے وابستہ ہزاروں مدارس کے خلاف جس جارحانہ انداز سے تنقید کی ہے شاید ہی انگریزی اور ہندی میڈیا میںکی جاتی ہے ۔انہوں نے مدارس کے نصاب تعلیم میں حکومتی مداخلت کی وکالت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میںمذہبی منافرت اور انتہا پسند انہ نظریات پر قابو پانے کیلئے ان کے تعلیمی نظام پر حکومت کا کنٹرول ضروری ہے ؟انہوں نے لکھا ہے کہ’’ ان اداروں کے تصورات جمہوریت اور کثیر مذہبی رواداری و ہم آہنگی سے متصادم ہیں ۔انہوں نے لکھا ہے کہ ان اداروں میں تعلیم دی جاتی ہے کہ مذہبی تہذیب و تمدن باطل ہے، ان کا معاشرہ و کردار واخلاقی اقدار سے عاری ہیں ۔یہاں شیعوں اور قادیانی کے خلاف فتویٰ دیے جاتے ہیں ۔ان کی نگاہ میں ملک میں خوفناک حالات پیدا ہونے سے قبل حکومت کو آئین ہند کو بالائے طاق رکھ کر ان اداروں میں مداخلت کرنے کیلئے ریاست کو ہر ممکن قدم اٹھانا چاہیے‘‘۔
یہ تینوں مضامین گرچہ مختلف عنوان سے لکھے گئے ہیں ، مگر تینوں کا خلاصہ اور حاصل کلام ایک ہی ہے ۔ تینوں مضامین کے اشاعت کے وقت اور بیانہ یہ بتاتا ہے کہ ایک خاص مقصدکے تحت یہ محاذ کھولا گیا ہے اور اس مرتبہ اس محاذ کی قیادت نام نہاد مسلم لبرل افراد کے ذمہ سونپی گئی ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مسلمانوں میں مسلکی جنگ کو ہوا دینے کی ناکام کوشش بھی کی جارہی ہے۔گرچہ مضمون نگاروں کی تنقیدوں کا رخ ذاکر نائیک ، مدارس اسلامیہ کی طرف ہے مگر ان کا اصل ہدف اسلام اور اسلام کی تعلیمات ہیں ۔
غزہ بدر و غزوہ احد کے ذکر پر اعتراض کرنے والوں کو کیا یہ معلوم نہیں ہے کہ ملک کے بیشتر انٹر ٹین منٹ چینلوں پر شیواجی، رانا پرتاپ سنگھ جیسے سیریل دکھائے جاتے ہیںاور اس کے ذریعہ تاریخ کوتوڑمروڑ کر مسلمانوں کو ظالم ، درانداز ،غیر روادار ، چور اور ڈاکوثابت کیا جاتاہے، برادران وطن میں مسلمانوں کے تئیں نفرت گھولا جاتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ دادری سانحہ، گجرات فسادات اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات کس ذہنیت کی پیدا وار ہیں ۔؟جب کہ غزہ بدر دنیا کیپہلی ایسی جنگ ہے جس میں انسانیت کو جنگ کرنے کا بھی سلیقہ سکھایا گیا ہے جس میں نہتے، خواتین اور ضعیف العمر اور ہتھیار ڈال دینے والوں پر حملہ نہیں کرنے کی پہلی مرتبہ ہدایت دی گئی‘قیدیوں کو تعلیم کے بدلے رہا کیا گیا‘ان پر ظلم و تشدد کرنے کے بجائے لاتثریب علیکم الیوم کا پیغام سنایا گیا۔
جہاں تک سوال ذاکر نائیک کے اسلام کی تبلیغ کرنے کے طریقہ کار، ان کے ذریعہ ایک خاص مسلک کی تبلیغ اور ان کے نظریات و افکار سے اختلاف کی بات ہے تواس کا حق ہر ایک کو حاصل ہے کہ وہ ذاکر نائیک سے اختلاف کرے،ان کے نظریات و فکر کی تنقید کرے ۔مگر سوال یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ذاکر نائیک کے تار دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی تو ان حالات میںذاکر نائیک کے خلاف مورچہ بندی کا مقصد کیا ہے ؟صرف اس بنیاد پر کہ ان کے نظریات و افکارسے اختلاف ہے اس لیے ان کے خلاف میڈیا ٹرائل اور جانچ ایجنسیوں کی غیر معمولی مستعدی اور عجلت پر مبنی کارروائیوں کی حمایت کرنا کیا انصاف کا متقاضی ہے؟
ہندوستان میںمسلکی تنازعات اور اس کے نام پر جنگ و جدل اور مناظرے کوئی نئی بات نہیں ہے ؟ برصغیر میں اس کی تاریخ کافی قدیم ہے؟ کیا محرم کے مہینے میںمنعقد ہونے والے مجالس میں ام المومین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت علی ؓ کے علاوہ بقیہ تینوںخلفاء راشدین حضر ت ابو بکر صدیق ؓ، حضرت عمرؓاور حضرت عثمان غنی ؓپر تبراء اور لعن وتشنیع نہیں کی جاتی ہے ؟ کیاایڈیٹر موصوف کے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ ان کے اپنے اخبار میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا و تینوں خلفاء راشدین پر کتنے مضامین شائع ہوتے ہیں۔ جب کہ محرم کے مہینے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر صفحات کے صفحات مختص ہوتے ہیں وہ بھی صرف ایک زاویے اور نظریے پر مبنی ہوتے ہیں۔اس معاملے میں صرف ذاکر نائیک ہی قصور وار قراردینا کہیں سے بھی مناسب نہیں ہے؟جب حضرات شیخین کی گالی دینا والا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی توہین کرنے والے خارج از اسلام نہیں ہوتا ہے تو یزید کے کافر نہیں ہونے کا عقیدہ رکھنے والا مجرم کیسے ہوسکتا ہے؟ در اصل ہر ایک سچ کے بولنے کاایک وقت اور موقع ہوتاہے ۔جب سچ موقع اور محل نہیں بولا جاتا ہے تو وہ جھوٹ ہوتا ہے ۔
مدارس کے نصاب تعلیم میں تبدیلی کا مطالبہ کوئی نیا نہیں ہے ، عصر حاضر کے تقاضے سے ہم آہنگ کرنے کی آواز بسااوقات مدراس اسلامیہ سے وابستہ افراد نے بھی بلند کی ہے مگر بی بی سی اردو کے شکیل اختر نے جس جارحیت کے ساتھ مدارس میں انتہاپسندی اور نفرت کے فروغ کا الزام عاید کیا ہے وہ تعجب خیز ہے۔طویل مدت تک صحافت سے وابستہ رہنے والا شخص اگر یہ الزام عاید کرتا ہے کہ مدارس میں عدم رواداری کا درس دیا جاتا ہے تو اپنے آپ ایک بڑا المیہ ہے۔ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں برادران وطن کے شانہ بشانہ بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر چلنے والے اسی مدارس سے وابستہ تھے ۔پارلیمنٹ میں جمہوریت کے استحکام کی صد ا لگانے والے مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کہاں کے تعلیم یافتہ تھے؟فاضل مضمون نگار کو تکلیف ہے کہ مدارس میں مغربی تہذیب و تمدن وکلچر کی تنقید کیوں کی جاتی ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ مدارس کی شان ہے کہ وہ مادر پدر آزاد سماج جہاں زنا کاری و بدکاری عام ہے اس کا کھلے عام تنقید کرتا ہے ۔
در اصل یہ تینوں مضامین کے عنوان مختلف ہیں مگر مقصد و ہدف ایک اسلام اور مسلمان ہے۔ مسئلہ صرف ذاکر نائیک کا نہیں ہے وہ صرف ایک مہرہ ہیں ان کے بہانے مسلمانوں کو وہابی ، سنی ، بریلوی اور شیعہ کے نام پر تقسیم کرکے اسلامی تعلیمات کی روح کو مجروح کرنے کی کوشش ہے ۔آج انہیں ذاکر نائیک سے تکلیف ہے، پھر دیوبند اور ندوہ سے تکلیف ہوگی اور اس کے بعد قرآن و حدیث میں حذف کا مطالبہ زور پکڑے گا اور اس کے بعد قرآن و حدیت کی وہ تشریح تسلیم کرنے پر مجبور کیا جائے جو ان کے مزاج و مفادات سے ہم آہنگ ہوں گے۔یہ تینو ں مضامین ان ہی خطرات کی نشاندہی کرتی ہیں ۔بقول اقبال مرحوم یہ تمام تگ و دو حاصل صرف ایک ہے ۔
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
md.nurullhajawaid@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *