کیا ترکی کے ساتھ دنیا کے لیے بھی فتح اللہ گولن خطرناک ہیں؟
طارق محمود ہاشم نے لکھا ہے کہ ’’میڈیا معلومات کا اہم ذریعہ ہے۔ مگر ان کا سب سے بڑا استعمال یہ نہیں ہے۔ دراصل ان کے ذریعے ہمارا مقتدر طبقہ، حقائق کی اصل تصویر کو مخفی رکھنے، اور اس کے بجائے ایک مصنوعی تماشا دکھانے کی سعی کرتا ہے۔ اگر انسان اپنی آنکھیں کھلی نہ رکھے اور صرف وہی نہ دیکھنا چاہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے، تو یہ طرزمطالعہ اس کی رسوائی کا سبب بنتا ہے.
ترکی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک صدر طیب اردوان اور حکومتی عہدیداروں نے امریکہ میں مقیم فتح اللہ گولن کو اس بغاوت کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا اور امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ انھیں ترکی کے حوالے کرے۔ اس بغاوت کے بعد گولن اور اس کی تحریک کا کردار ہمارے ہاں بھی بڑے پیمانہ پر زیر بحث آیا۔ متعدد اہل علم نے یہ واضح کیا کہ گولن اور اس کی تحریک کس طرح استعمار کا آلہ کار بنی ہے اور اس کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی مرتکب ہوئی ہے۔ ہمارے استعماری متجددین، لبرلز اور مغرب نواز علماء اور دانشور سامنے آئے، اور گولن اور اس کی تحریک کا زوردار دفاع کرنے میں جُت گئے۔ ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ جو اسلام پسند علماء گولن کو غدار قرار دے رہے ہیں، دراصل حقائق نہیں جانتے، جذبات کے غلام ہیں، اور خدمتِ خلق میں مصروف ایک “صوفی” مسلمان کو، بلاوجہ متشدد، باغی اور مجرم قرار دے رہے ہیں. بعض اوقات فتح اللہ گولن کو مکمل طور پر غیر سیاسی شخصیت قرار دیا جا رہا ہے، حقائق البتہ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ گولن اور اس کی تحریک کے کردار اور کارناموں کے بارے میں بہت سے ناگوار حقائق معلومات عامہ کا حصہ ہیں۔ بالخصوص گولن تحریک کی “سیاسی چندے” کے سلسلے میں اقدامات مسلمہ طور پر معلوم ہیں۔ امریکہ میں سیاسی پارٹیوں کو “چندہ” دینے کا سکینڈل کس کو معلوم نہیں۔ واضح رہے کہ سیاسی “چندہ” دراصل دولت کے ذریعے سیاسی اقتدار میں حصہ دار ہونے کے لیے لطف تعبیر ہے، اور “رشوت” کے لفظ سے وابستہ بدنامی سے بچنے کے لیے اسے “چندہ” کہا جاتا ہے۔
23/نومبر 2015ء کے اخبار یو ایس ٹوڈے (US Today) نے خبر دی کہ “ایک ترک ادارے” نے امریکہ کی ایک سینیٹر کو مشکوک طریقے سے چندہ دیا ہے۔ امریکی سینیٹر کیلے آیاٹ (Senator Kelly Ayotte) نیو ہیمپشائر سے امریکی سینیٹ کی رکن ہیں۔ اس سکینڈل سے گھبرا کر کیلے آیاٹ نے گولن تحریک سے ملنے والے چندے کی رقم واپس کر دی۔ گولن تحریک پر اس بات کا الزام بھی ہے کہ یہ غیرقانونی طور پر تقریبا دو سو امریکی عہدیداروں اور کانگریس کے اراکین کو ترکی کے دورے کرا چکی ہے جس کے اخراجات یہ خود اٹھاتی ہے۔ (گولن تحریک پاکستان سمیت مختلف ممالک کے صحافیوں کو اپنے اخراجات پر ترکی اور دوسرے ممالک کی سیر کرایی ہے۔ یہ تحریک گزشتہ برسوں کے دوران لاکھوں ڈالر امریکی کانگریس اور صدارتی امیدواروں کو چندے میں دے چکی ہے۔ جن لوگوں نے گولین سے اس طرح کے چندے لیے ہیں ان میں موجودہ صدر ابامہ اور موجودہ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن بھی شامل ہیں)۔
گولن تحریک چندہ دینے کا یہ طریقہ اختیار کرتی ہے کہ تحریک کے سکولوں اور دوسرے اداروں کے ملازمین اور متعلقین کے ذریعے رقم جمع کرائی جاتی ہے تاکہ خود تحریک براہ راست سامنے نہ آ ئے۔ گولن تحریک اپنے معاملات کے اخفاء کے لیے بدنام ہے، اور اس معاملے میں اس کی گہری مشابہت ماضی میں اسماعیلی حشیشین اور اِس دور میں قادیانیوں سے پائی جاتی ہے، تاہم اخفا کی اس پالیسی کے باوجود گولن تحریک کے سیاسی چندے کے معاملے طشت از بام ہو گئے ہیں۔ اس طرح کے حیلوں سے چندہ دینے والے کیسے پکڑے جاتے ہیں اور کیلے آیاٹ کو رقم واپس کیوں کرنا پڑی؟ واقعہ یوں ہے کہ کیلے کو ایک بڑی رقم ایک ہی دن (30/اپریل، 2014ء) میں اُنیس افراد کے نام پر موصول ہوئی۔ یہ افراد مالی طور پر کمزور تھے۔ کیلے کی الیکشن مہم کے منتظمین انہیں جانتے تک نہ تھے۔ نہ یہ افراد اپنی ممدوح سینیٹر سے واقف ہی تھے، جسے وہ اس فراخدلی سے چندہ دے رہے تھے۔ نہ ہی وہ اس ریاست میں مقیم تھے جس کے حلقے سے کیلے الیکشن لڑ رہی تھی۔ ان اسباب کی بنا پر متعلقہ تفتیشی اداروں کے کان کھڑے ہوگئے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ سب لوگ کسی نہ کسی طریقہ سے فتح اللہ گولن کی تحریک سے منسلک ہیں۔ چندے کی رقم تینتالیس ہزار ایک سو ڈالر تھی۔ رقم واپس کرنے کا فیصلہ اس لیے ہوا کہ تفتیشی اداروں اور بہی خواہوں نے سینیٹر کو خبردار کیا کہ اس کے نتیجے میں اس کو انتخابات کے لیے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ سینیٹر کیلے آیاٹ کے کیمپین مینیجر جان کوہن نے، یو ایس اے ٹوڈے کے ایک سوال کے جواب میں بتایا: “الیکشن کیمپین نے یہ رقم اس لیے واپس کی کہ ہمیں کثیر تعداد میں ادھر ادھر سے تنبیہات مل رہی تھیں”۔ یہی نہیں بلکہ کیلے آیاٹ نے اپیل کی ہے کہ دوسرے سیاستدانوں کو بھی چاہیے کہ وہ گولن تحریک سے وابستہ اداروں سے وصول ہونے والے سیاسی چندے کی رقوم واپس کر دیں۔
کچھ افراد جن کے ذریعہ یہ رقم دی گئی تھی، اس ریاست سے بھی باہر رہتے تھے جہاں سے کیلے نے منتخب ہونا تھا۔ جب ان افراد میں سے بعض سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے اس امیدوار کو اتنی بڑی رقم چندہ میں کیوں دی؟ تو انہوں نے دلچسپ جوابات دیے۔ ایک جواب یہ تھا: He’s a good guy. He’s doing good so far۔ (وہ بہت اچھا انسان ہے۔ اب تک اس کی کارکردگی اچھی رہی ہے۔”) واضح رہے کہ کیلے ایک خاتون ہیں۔ اس چندہ دینے والے کو سیاسی پالیسیوں کی تو کیا خبر ہوتی، اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ جس سینیٹر کے لیے چندہ دے رہا ہے وہ مرد ہے یا عورت!
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ گولن تحریک نے امریکی سیاستدانوں اور ریاستی عہدہ داروں کو “چندہ” یا “رشوت” دی ہو۔ اخبارات کے مطابق گولن یہ کام پہلے بھی کرتا رہا ہے۔ اس کے ممدوحین میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں جماعتوں کے لوگ شامل رہے ہیں اور اکثر صورتوں میں یہ کام مشکوک طریقہ پر ہی کیا جاتا رہا ہے۔ اخبار نے اس نوعیت کے کچھ معاملات کی تفصیل بتائی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح گولن اپنے سکولوں اور دیگر اداروں کے ذریعہ، اس طرح کی غیر قانونی فنڈنگ مختلف حیلوں سے کرتا ہے۔ لویالا یونیورسٹی میری لینڈ کے پروفیسر، جوشوا ہینڈر کا تبصرہ دلچسپ ہے۔ وہ گولن تحریک کے اس حربہ کو “سٹریٹجک ابہام” قرار دیتے ہیں، کیونکہ اس طرح یہ ممکن نہیں رہتا کہ آپ فنڈنگ کے اصل منبع کو تلاش کر سکیں۔ اس بات کا بھی کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا کہ اس کے بدلہ میں گولن کیا حاصل کرتا ہے۔ البتہ یہ واضح رہے کہ یہ سکول امریکی حکومت سے تعلیمی فنڈز کی مد میں لاکھوں ڈالر لیتے ہیں، ان کی آمدن پر ٹیکس میں چھوٹ ملتی ہے۔
گولن کا اصل حربہ یہ ہے کہ وہ اپنے سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہوں میں سے کچھ رقم تحریک کے لیے (جبراً) واپس وصول کر لیتا ہے۔ چونکہ یہ اساتذہ ایچ ون ویزے پر ترکی سے درآمد کیے جاتے ہیں، لہذا ان کی حالت “غلاموں” سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گولن اور اس کی تحریک اتنی صاحب ثروت ہو گئی ہے۔ تاہم، اگر ہمارے بعض احباب کو گولن کے یہ کارنامے صوفیانہ مجاہدے اور نصرت دین کے نمونے نظر آتے ہیں، اور گولن تحریک بدستور ایک “غیر سیاسی” تحریک ہی قرار پاتی ہے، تو اس پر یہی کہا جا سکتا ہے: بریں عقل و دانش بباید گریست!
مسعود فاروقی لکھتے ہیں’’فتح اللہ گُلن صاحب کی صوفیائے کرام سے فکری وابستگی سر آنکھوں پر لیکن صرف چند گھنٹوں کی برقیاتی جستجو کے بعد جو معلومات جمع ہوپائیں، وہ ہوشربا ہیں. مثال کے طور پر ان کی کلنٹن فاونڈیشن کے ساتھ قریبی تعلقات مغربی میڈیا میں حال ہی میں زیر بحث آئے. سابق صدر امریکہ بل کلنٹن اپنی اور اپنی اہلیہ کے ساتھ حذمت کی دوستی پر شکر گزار ہیں اور ان کی وڈیوحذمت نے خود اپنی ویب سائٹ پر لگا رکھی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے. ویڈیو کو یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔http://hizmetnews.com/11982/bill-clinton-fethullah-gulens-contribution-world/#.V5paPPmSzs7
پھر اس پر مزید یہ کہ گُلن صاحب کی امریکہ میں داخلہ کی سفارش کرنے والے ایک سی آئی اے ایجنٹ تھے. گزشتہ تین دہائیوں سے ان کی تنظیم خفیہ طور پر ترکی اور دیگر ممالک میں اپنے افراد کو اہم سرکاری اداروں میں پلانٹ کر رہی ہے اور اس کی خاطر ذہن سازی کا آغاز اسکول ہی سے کر دیا جاتا ہے. اس غرض سے ترکی، امریکہ، پاکستان، انڈونیشیا کے علاوہ وسطی ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں اسکولوں کا نیٹ ورک قائم ہے جس کی مالیت کئی بلین ڈالرز ہے. انھی وجوہات کی بنیاد پر ٹائم میگزین نے تین برس قبل گلن صاحب کو دنیا کی 100 با اثر ترین شخصیات کی فہرست میں شامل کیا. صرف امریکہ میں حذمت کے 160 سے زائد اسکول کام کر رہے ہیں جو امریکی حکومت سے سالانہ لاکھوں ڈالرز وصول کرتے ہیں. اس طرح حاصل ہونے والی رقم حذمت سے وابستہ افراد اور اداروں کو بزنس کانٹریکٹ کے نام پر لانڈر کی جاتی ہے. ہمارے ہاں کے الطاف حسین صاحب کی طرح گلن صاحب پر بھی منی لانڈرنگ کی انوسٹی گیشن چل رہی ہے. ایف بی آئی کی 2009 سے جاری انوسٹی گیشن کے باوجود حال ہی میں امریکی صدر اوبامہ نے اپنے دستخط شدہ باکسنگ دستانے فنڈ ریزنگ آکشن کے لیے حذمت کو عنایت کیے جن کی مدد سے حذمت نے ایک ہی رات مین ایک ملین ڈالرز جمع کیے۔ _72512020_gulenhousereut بی بی سی کی ویب سائٹ پر درویش صفت صوفی کے امریکی محل کی تصویر بھی ماشاءاللہ عیش نظارہ ہے۔
ذاتی طور پر اس طرح کے الزامات کو میں ثانوی حیثیت میں دیکھتا ہوں کہ بسا اوقات یہ کانسپریسی تھیوری ثابت ہوتے ہیں. مگر جو بات میرے لیے ناقابل معافی ہے، وہ حذمت کی زیر زمین اثرپذیری کی شعوری کوشش ہے. زیر زمین سازش چاہے اسلام کے نام پر ہو { اور پھر اسلاموں میں اسلام سبحان اللہ صوفی اسلام کے نام پر ہی کیوں نہ ہو } اپنی بنیادوں میں خطرناک ہوتی ہے. سب کچھ اچھا ہوتے ہوئے بھی ان تحاریک کے ہائی جیک ہونے کا خدشہ ہمیشہ رہتا ہے. یہ تحاریک اپنا نام القاعدہ رکھیں، تحریکِ طالبان پاکستان رکھیں چاہے حذمت رکھیں. پوری چین آف کمانڈ میں اگر ایک کڑی بھی خفیہ ہوگی تو وہی لے ڈوبے گی۔ حذمت نے ترک سوسائٹی کے ہر شعبہ میں خفیہ پلیسمنٹ کی، اور اب وہ ایک ملٹری بغاوت کا حصہ ہے. تزویراتی طور پر پلیس کیے گئے افراد کو اب نظر انداز کرنا کسی طور ممکن نہیں، چاہے ان افراد کا تعلق سوسائٹی کے کسی بھی شعبہ سے ہو. مثلاً جب پاکستان میں سیاسی جماعتیں اداروں میں سیاسی بھرتیاں کراتی ہیں تو کیا بھرتی ہونے والا ملازم اپنے پارٹی آقائوں کی حکم عدولی کر پاتا ہے؟ عام سیاسی کارکن کے برعکس ایک ایسی تحریک جو بچپن سے ذہن سازی کر رہی ہو، اپنے افراد پر کہیں گہرا اثرو رسوخ رکھتی ہے. ایک سازش کا حصہ بن کر حذمت نے اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی مار لی ہے. چار روز قبل کے برعکس اب یہ خفیہ اور بااثر تحریک عالمی میڈیا کی اسکروٹنی کا شکار ہے. اردوان کے پاس اب حذمت کے معاملے میں کلی صفائی کے سوا کوئی راستہ نہیں.
ہمارے ہاں سیاسی اسلام کی اصطلاح گزشتہ کئی دہائیوں سے منفی مفہوم (نیگیٹو کانوٹیشن) کے ساتھ استعمال ہوتی رہی ہے، اس کے مقابلے میں صوفی اسلام سے بجا طور پر ہمارے خوشگوار احساسات وابستہ ہیں، اور اس پیرائے میں جب کوئی اردوان کو چلڈرن آ ف مودودی کہتا ہے اور مقابلتا گلن صاحب کو سعید نورسی اور پھر رومی سے جوڑ دیتا ہے تو بات اتنی سادہ نہیں رہ جاتی کہ نظر انداز کر دی جائے. خاص طور پر جب مودودی صاحب خود سلسلہَ چشتیہ کے ایک بزرگ کی اولاد ہیں. دوسری جانب خانقاہوں اور درگاہوں پر گدی نشین وہ لوگ جن کے آباء کو1857 کی تحریک آزادی کچلنے اور صلے میں انگریز سرکار سے اراضیاں پانے میں کچھ باک نہ ہوا، ایسے لوگوں کی اولاد آج بھی اپنی نسبت انھی صوفی بزرگوں سے جوڑتی ہے اور غریبوں کی عقیدت کے بدلے دنیا سمیٹتی ہے. کہنے کا مطلب یہ کہ گُلن کے معاملے میں الفاظ سے جڑی فطری خوشگواری سے آگے بڑھ کر مطالعہ کرنا ہوگا۔