شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشن نے ایک نسل کی آبیاری کی ہے

درمیان میں شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس کے سربراہ ڈاکٹر عبد القدیر جبکہ بائیں جانب جاوید جمال الدین اور دائیں جانب فارو ق سید کو دیکھا جا سکتا ہے(تصویر:معیشت)
درمیان میں شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس کے سربراہ ڈاکٹر عبد القدیر جبکہ بائیں جانب جاوید جمال الدین اور دائیں جانب فارو ق سید کو دیکھا جا سکتا ہے(تصویر:معیشت)

عصر ی تعلیم سے نابلد حفاظ کرام کے لئے ایک ڈریم پروجیکٹ ’’حفظ القرآن کورس ‘‘کے ساتھ ڈاکٹر عبدالقدیر اور ان کے تعلیمی ادارے نے مسلم بچے بچیوں کے تعلیمی معیار کوبلند کیا ہے
نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
ممبئی:(معیشت نیوز)یہ حیرت انگیز ہی نہیں تعجب خیز ہے کہ جس کے پاس اپنا ذاتی مکان نہ ہو انہوںنے آخر ۱۲ ہزار طلبہ و طالبات کے لئے ہاسٹلس کا انتظام کیوں کرکررکھا ہے۔ جبکہ ان کے اداروں کا ماحول پاکیزہ، صاف ستھرا، اور تعلیمی نظام ایسا ہے کہ مسلم کے ساتھ غیر مسلم حتیٰ کہ آر ایس ایس اور دوسری ہندتو وادی تنظیموں کے کارکنان بھی التجائیں کرکےاپنے بچوں بالخصوص بچیوں کے داخلہ کی سفارش کرتے ہیں‘‘۔ دراصل ڈاکٹر عبدالقدیر نے یکم دسمبر ۱۹۸۹؁ کو جب ایک کمرے میں پری پرائمری اسکول قائم کیا تھا تو انہیں بھی اس بات کا احساس نہیں تھا کہ وہ مختصر مدت میں تعلیمی نظام کا ایک ایسا جال بچھا دیں گے جو آنے والوں کے لئے سنگ میل کا کام دےگا۔ کرناٹک کے بیدر میں واقع ’شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشن‘ کے روح رواں ڈاکٹر عبدالقدیر نے ۲۷ برس قبل ۱۷ بچوں سے ’شاہین کنڈر گارٹن‘ کی شروعات کی جس نے آج ایک ایسے تناور درخت کی شکل اختیار کرلی ہے کہ اسکولوں و کالجوں کی شکل میںاس کی ۲۵ شاخیں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس ادارے اور ڈاکٹر عبدالقدیر کا ایک کمال ’حفظ القرآن پلس کورس‘ ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر اپنے مذکورہ کورس کو روشناس کرانے کےلئے اِن دنوں ممبئی تشریف رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے کرناٹک کے بیدر میں اُن حفاظ بچوں کےلئے جو عصری تعلیم سے قطعی نابلد ہیں کورس شروع کرکے، ان پر عصری تعلیم اور اس کے ذریعے ڈاکٹر، انجینئرنگ اور مینجمنٹ کے کورسوں کے دروازے کھولے ہیں اسی طرح ممبئی میں بھی حفاظ کو عصری تعلیم سے روشناش کرانے کےلئے ان کے ساتھ لوگ جڑیں۔ ’حفظ القرآن پلس کورس‘ کے بارے میں وہ بتاتے ہیں ’’ہم یہ کورس گزشتہ چار سال سے چلارہے ہیں، پہلے بیچ ہی میں ایک حافظ طالب علم نے ایسی کامیابی حاصل کی کہ اسے ڈاکٹری میں داخلہ مل گیا، آج حافظ ابوسفیان میسور کے گورنمنٹ کالج میں دوسرے سال میں زیر تعلیم ہے، دوسرے بیچ میں چھ حافظ بچے ایسے تھے جنہیں انجینئرنگ کے شعبے میں داخلہ ملا ہے، ہم اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، کئی حافظ بچے ہمارے یہاں سے کامیاب ہوکر اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں‘‘۔ حفاظ کرام کو عصری تعلیم سے جوڑنے کا خیال کیسے آیا، اس تعلق سے وہ بتاتے ہیں کہ ’’ہم نے اپنے ادارے میں ناظرہ قرآن کلاس میں ہی پڑھانے کا انتظام کیا او رکہا کہ بچے نہ مدرسہ بھیجے جائیں اور نہ کسی حافظ صاحب کو گھر پر بلایا جائے، قرآن پڑھانے کا انتظام ادارہ خود کرے گا، پھر ہم نے شعبہ حفظ شروع کیا او رہمارے ان بچوں کے جنہوں نے حفظ کیا تھا تعلیمی نتائج بے حد شاندار آئے،ایک حافظہ رابعہ بصری نے ایسی کامیابی حاصل کی کہ اس کا میڈیکل میں داخلہ ہوگیا آج وہ ایم ڈی کررہی ہے، حافظ شکیل نامی بچے نے سول انجینئرنگ کی آج وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اعلیٰ عہدہ پر ہے۔ حافظ بچوں کی کامیابی کو دیکھ کر ہم نے ڈراپ آئوٹ بچوں پر توجہ دی اور اسی دوران خیال آیا کہ کیو ںنہ یہ کام ملک گیر سطح پر کیا جائے۔ حافظ ذہین اور محنتی ہوتے ہیں، لہذا ہم نے یہ کام شروع کیا، بچے بہار، یوپی اور دوسری جگہوں سے آئے ہم نے پہلے انہیں ’فائونڈیشن کورس‘ میں رکھا اور ان کی ذہنی استعداد کو پروان چڑھانے پر توجہ دی، ہم کو یقین تھا کہ حفظ کرنے والے بچے ذہین اورمحنتی ہوتے ہیں انہیں موقع دیا جائے تو انہیں ترقی کرنے سے کوئی روک نہیں سکے گا‘ اور آج یہ بچے ترقی کررہے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر عبدالقدیر بتاتے ہیں کہ حفاظ کرام جو آتے ہیں وہ ۱۲ سال سے لے کر ۱۷ سال کی عمر تک کے ہوتے ہیں، انہیں پڑھا کر اور تیار کرکے ان سے دسویں بورڈ کے امتحان دلوائے جاتے ہیںنیز۱۱، اور ۱۲ ویں کرائی جاتی ہے۔ اور اسّی فیصد بچے کامیاب ہوکر آگے اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لے لیتے ہیں، ۲۰فیصد بچے کسی وجہ سے تعلیم مکمل نہیں کرپاتے۔ چار سال کاعرصہ ہوا ہے اس کورس کو شروع کئے، دو سو حفاظ زیر تعلیم ہیں، اور چالیس گریجویشن کررہے ہیں، یہی حفاظ آگے چل کر ڈاکٹر، انجینئر، آئی اے ایس، آئی پی ایس وغیرہ بنیں گے۔اور ایک حافظ اور عالم ڈاکٹر، انجینئر یا افسر ایک غیر عالم غیر حافظ ڈاکٹر انجینئر، وغیرہ سے کہیں زیادہ بہتر ہی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔ ڈاکٹر عبدالصمد کا ادارہ ۲۵ اسکول اورکالج چلاتا ہے۔ بچیوں اوربچوں کے لئے علاحدہ علاحدہ کیمپس اور ہوسٹل ہیں۔ ۱۸ ریاستوں سے بچے اور بچیاں آتی ہیں۔ غیر ملکوں سے طلبا آتے ہیں۔ ’حفظ القرآن پلس‘ ڈاکٹر موصوف کا ڈریم پروجیکٹ ہے اسے وہ ملک بھر میں پھیلا ناچاہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کولکاتہ سے یہ کورس شرو ع ہوچکا ہے، جلد ہی علی گڑھ میں شروع ہونے والا ہے اور ممبئی کی بھی اس کی تیاری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *