جنگ آزادی میں اسلاف کی قربا نیاں: نئی نسل ناواقف
الیاس ثمرؔ قاسمی
آج ہم بڑے زور و شور سے آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں،بڑے دھوم دھام سے آزادی کا جشن مناتے ہیں ،اپنے اسلا ف و اکابر کی قربانیوں پر فخر کر تے ہیں ،برادران وطن اور حکمراں جماعت سے چیخ چیخ کر یہ کہتے ہیں کہ ہم اس ملک کے حصہ دار ہیں کرایہ دار نہیں ۔اور یہ آج سے نہیں بلکہ ۷۰ سال ہونے کو ہے ،ہم ملک سے وفا داری کا نغمہ گارہے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ ہماری بات کوئی سننے کے لئے تیار نہیں ۔ہماری ہر طرح کی چیخ وپکار اور ہماری ہر آواز صدا بصحرا ثابت ہو تی ہے۔آخر کیا وجہ ہے ؟کیوں ہم اپنے برادران وطن اور حکمراں جماعت کو ایک آنکھ نہیں بھا تے ،سر زمین ہند پر ہمارا وجود ہی ان کو کھل رہا ہے اور آئے دن کسی نہ کسی بہا نے ہمیں ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے ۔آخر کیوں ؟؟
س لئے آج ہم ان وجوہات پر غور کرتے ہیں اور ستر سال کا احتساب کرتے ہیں ۔بلا شک اسکے بہت سارے وجوہا ت ہو سکتے ہیں ،اور ہیں بھی !جن کی طرف ہم نے کبھی توجہ نہیں دیا ،لیکن ان وجوہات میں سے ایک اہم وجہ خود مسلما نو ں کا اپنی تاریخ سے بے اعتنا ئی اور ہمارا غیر ذمہ دارا نہ رویہ بھی ہے ،ہم نے اس کتابوں میں محفوظ تو کیا لیکن آنے والی نئی نسلو ں تک منتقل کر نے کے لئے کو ئی مؤثر حکمت عملی نہیں اپنا ئی ۔ہم صرف کتابو ں میں جمع کر نے تک محدود رہے ،وہ بھی ایک ایسی زبان میں جس کے ساتھ آزدی کے بعد سے ہی سوتیلا سلوک کیا گیا اور آج تک کیا جارہا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کی جنگ جو لڑی گئی وہ اسی زبان میں لڑی گئی ہے یعنی اردو زبان میں، مگر افسوس آج ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس زبان کو قومیت کی شکل دیکر صرف مسلم قوم سے جوڑ دیا گیا جبکہ یہ زبان کسی ایک قوم کی میراث نہیں بلکہ مشترکہ ہندوستان گنگا جمنی تہذیب کی علمبردار اور اسکا محافظ ہے ،جب ہماری تاریخ کی یہ حالت ہو تو پھر کیسے ہمارے اسلاف کی قربانیاں محفوظ رہ پائیگی۔
در اصل کسی بھی تاریخ کی حفاظت کا ذریعہ نصاب تعلیم ہو تا ہے ،لیکن بد قسمتی سے آزدی کے بعد جب نصاب تعلیم مرتب کیا گیا تو جان بوجھ کر تاریخ کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ،اور جنگ آزادی میں ہمارے اسلاف کی دی ہو ئی قربانیو ں کو حذف کر دیا گیا ،سوائے چند ان اشخاص کے جو حکو مت کی تشکیل میں کسی نہ کسی حد تک شریک رہے ،مگر ہم خامو ش بیٹھے رہے ،کوئی آواز بلند کی اور نہ ہی ہم اتنی بڑی تعداد میں ہو نے کے باجود الگ سے اپنا نصاب تعلیم مرتب کر سکے ۔اور اسلام دشمن عناصر کے ہاتھوں تیار کئے گئے نصاب پر ہی بھروسہ کر نے میں نجات سمجھا ،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری نئی نسل روز بروز اپنی تاریخ سے کوسوں دور ہورگئی ، الحادو تشکیک ،دینی بیزاری اور اخلاقی قدروں سے عاری ہوتی چلی گئی ،کہ آج ہمیں وہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے کہ اگر ہم اسکول میں پڑھنے والے کسی طالب علم سے سوال کرتے ہیں کہ ذرا بتا ؤکہ جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار کیا تھا؟تو وہ بغلیں جھانک نے لگتا ہے اور اگر کوئی جسارت بھی کرتا ہے تو دوچار ناموں سے آگے نہیں بڑھ پاتا ۔جبکہ حقیقت یہ کہ ملک کو آزاد کرانے میں برادران وطن سے کئی گنا زیادہ ہمارے اسلاف نے قربانیاں دی ہیں ۔اور اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارے اسلاف واکابر نے آزادی کی تحریک ا س وقت شروع کی تھی جب برسوں سے غلامی کی طوق میں جکڑے ہوئے ہندوقوم کے وہم وگمان میں بھی نہی تھا کہ آزادی بھی کوئی چیز ہے ۔برادران وطن میں سے وآج جن مجاہدین کانام لیا جاتاہے اس وقت ان میں سے کسی کا نام ونشان تک نہیں تھا ۔
لہذا آئیے ہم جنگ آزادی میں اپنے اسلاف واکابر کی دی ہوئی قربانیوں پر سرسری نظر ڈالتے ہیں،چنانچہ جب ہم تاریخ کے اوراق کو کھنگالتے ہیں توہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے جس مرد مجاہد نے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلندکیا اورانگریزوں سے باقاعدہ منظم جنگ کی شروعات کی وہ شخص نواب سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان ہے، جنہوں نے 1757میںانگریزوں سے آزادی کی پہلی جنگ لڑی اورشکشت بھی دی واضح رہے کہ کلکتہ کا Dimond harbour اورFortwilliam انگریزوں کا مرکز تھا ،علی وردی خان نے فورٹ ولیم پر حملہ کرکے انگریزوں کو مار بھگایا ۔اس اعتبار سے ہم اس جنگ کو آزادی کی پہلی منظم جنگ قرار دے سکتے ہیں ،علی وردی خان کے بعد ان کے نواسے نواب سراج الدولہ حاکم بنے اور انہوں نے بھی انگریزوں سے خطرہ کو محسوس کیا ،لیکن انکا دربار سازشوں کا اڈہ بن جانے کی وجہ سے ان کو شکشت ہوئی اور 1757میں برٹش فوج نے ان کی دارالسلطنت مرشدآباد پر حملہ کرکے انہیں شہید کردیا۔ان کے بعد فرمانروائے دکن حیدر علی کے فرزند ِ ارجمند فتح علی ٹیپو سلطا ن نے اپنے ہاتھ میں زما م اقتدار سنبھا لا اور 1783میں انگریزوں سے پہلی جنگ کی اور کامیا ب بھی ہوے اس طرح سے صرف دکن ہی نہیں بلکہ انکی بہادری کے چرچے پورے ہندوستان میں ہونے لگا ۔اور مسلسل کئی جنگوں میں انگریزوں کو شکشت فاش دی ۔انگریز اس شکست کو کیسے بھول سکتا تھا اس لئے انتقام کی غرض سے 1799میں ایک مرتبہ پھر انگریزوں نے حملہ کیا لیکن یہ حملہ پہلے کی طرح نہیں تھابلکہ دیگر کئی ریاستو ں کو بھی انگریزوں نے اپنے ساتھ ملا لیا تھا ،خود سلطا ن کے کچھ درباری بھی انگریزوں سے جا ملے تھے لہذا اپنو ں کی بے وفائی کی وجہ سے سلطان کو اس جنگ میں شکشت ہوئی اور 1799میں ہندوستان کے اس شیر ٹیپو سلطان نے میدان جنگ میں انگریزوں سے لڑتے ہوے جام شہا دت نوش کیا ۔
لیکن انگریزوں سے جنگ کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ اب علما ئے کرام میدان میں آئے اور اس بات کو محسوس کیا کہ ملک کو انگریزوں کے نا پاک قبـضہ سے ملک کو آزاد کرا نے کے لئے پو رے ملک کو بیدار کر نا چاہئے اسی غرض سے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ نے انگریزوںکے خلاف وہ تاریخی فتوی دیا جس نے انگریزوں کے تن بدن میں آگ لگا دی اور انگریزوںکی نیند حرام ہو گئی ،اور وہ تاریخی فتوی یہ تھا کہ شاہ صاحب نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیااور انگریزوں سے جہاد کو فرض بتلا یا ۔اور اسی فتوے کو عملی شکل دینے کے لئے سیّد احمد شہید ؒ کوبر ٹش مو مینٹ کا قائد مقرر کیا گیا پھر کیا تھا پورے ہندوستا ن سے لوگ سیّد احمد شہید ؒ کے فوج میں شریک ہو نے لگے ،اور مجاہدین کی ایک بڑی تعداد تیار ہو گئی ،سیّد احمد شہید ؒ ان سب کو منظم کر کے فیصلہ کن جنگ کے لئے روانہ ہو ے لیکن مشیت ایزدی کچھ اور ہی تھی بالآ خر بالا کو ٹ کی پہا ڑی پر انگریزوں سے جنگ کرتے ہوئے1831میں یہ مرد مجاہد شہید ہو گئے ۔لیکن یہ تحریک رکی نہیں بلکہ مسلسل چلتی رہی اور مولانا نصیر دہلوی نے فوج کی قیا دت سنبھا لی 1840میں انکی وفات ہو گئی انکے بعد مولانا ولایت علی عظیم آباد ی اور ان کے بھائی مولا نا عنات علی عظیم آبادی نے اس تحریک کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ۔انگریزوں نے اسے وہابی تحریک قرار دیا ۔اور آزادی کی جد وجہد کا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا یہاں تک کہ 1857میں وہ تا ریخی جنگ ہو ئی جس میں دو محاذ بنا ئے گئے ایک شاملی کو جس کی قیادت حاجی امداداللہ مہاجر مکی ؒ فر ما ہے تھے ،اور علمائے کرام کی ایک بڑی جماعت ان کے ساتھ تھی جن میں مولانا قاسم نانوتوی ؒ ،حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ اور حافظ ضامن شہید ؒ وغیر ہ تھے ۔اور دوسرا محاذ امبالا میں جس کی قیادت حضرت مولانا جعفر تھانیسری ؒ کر رہے تھے ،لیکن بد قسمتی سے اس جنگ میں علمائے کرام کی ایک بڑی تعداد نے جام شہادت نوش کیا اور شکشت کھا نی پڑی ۔
1857کی نا کامی کے بعد یہ محسوس کیا کہ اب ہمیں ایک ایسے مضبوط قلعہ کی ضرورت ہے جہاں تعلیم و تر بیت کے ساتھ ساتھ نئی نسل میں جذبہ جہاد کو بھی زندہ رکھا جائے ،اسی غرض سے علمائے کرام کی ایک مختصر سی جماعت نے 1866میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی ،جس کو دنیا آج دارالعلوم دیو بند کے نام سے جا نتی ہے ۔جس کے آغوش سے آزادی کے عظیم مجاہد ، ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کے بانی حضرت مولانا محمودالحسن دیو بندی ؒ پیدا ہوئے ، جنہیں دنیا آج شیخ الہند کے نام سے یاد کرتی ہے ۔ان کے علا وہ مولانا عبیداللہ سندھی ؒ او رمولانا حسین احمد مدنی ؒ جن کی قر بانیوں سے آج بھی تاریخ کے صفحات روشن ہیں ۔
یہ ہے ہماری روشن تاریخ جسے ہم نے بھلا دیا ، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی تاریخ کی حفاظت کے لئے اور اسے نئی نسل تک منتقل کر نے کے لئے مؤثر حکمت عملی اپنا ئیں۔ نہیں تووہ دن دور نہیں کہ ہمیں اپنی روشن تاریخ سے ہا تھ دھونا پڑیگا ،اور ہما ری داستا ں بھی نہ باقی رہے گی داستانوں میں ۔
نہ ساتھ دیگی یہ ٹمٹما تی شمعیں
نئے چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے