ذاکر نائک کا نزلہ رضوان خان پر گرالیکن پیروی کے لیے کوئی تیار نہیں

اپنی گرفتاری کے ڈر سے کروڑوں روپیہ خرچ کرنے والے ڈاکٹر ذاکر او ر ان کے ادارے آئی آر ایف نے بھی رضوان خان کے معاملے سےہاتھ اٹھا لیا
نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
ممبئی (معیشت نیوز) میڈیا کے لوگوں کو جیسے ہی یہ خبر ملی کہ آئی آر ایف سے منسلک رہے رضوان خان کوکلیان سے گرفتار کیا گیا ہے تو انہیں شدید دھچکہ اس وجہ سے لگا کہ وہ لوگ جو خالص انسانیت کا درد لئے لوگوں کی خدمت کرتے ہیں اب ان کا اعتماد بھی بے لوث خدمت سے اٹھ جائے گا۔شاید اے ٹی ایس اور این آئی اے جیسے ادارے کا قیام بھی اسی مقصد سے کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جو ملک میں امن و آشتی کا پیامبر بن کر انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں انہیں اس قدر پریشان کرو کہ جس طرح مغرب میں کوئی کسی کا حامی و مدد گار نہیں بنتا اسی طرح ہندوستان میں بھی ہر آدمی صرف اپنی ذات میں جئے اور اسے سماج و معاشرے کے معاملات سے کوئی سروکار نہ ہو۔
دانش ریاض کہتے ہیں ’’لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کے ساتھ ہارڈ ویئر کےپھیری کا کاروبار کرکے اپنی زندگی گذارنے والے رضوان خان کو میں نے کئی برس قبل کسی ملی اجلاس میں دیکھا تھا جہاں وہ میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کی ضیافت پر معمور تھے۔میڈیا میں ان کی دوستی بھی خوب تھی کیونکہ میڈیا والوں کو اگر کسی ملی شخصیت سے ملاقات یا رابطے کی ضرورت پڑتی تو رضوان خان اپنی خدمات پیش کر دیتے تھے۔کئی برس قبل کی بات ہے کہ رضوان نے مجھے فون پر دھاراوی کے ایک خاندان کی تفصیلات سے آگاہ کیا جسے مالی مدد کی شدید ضرورت تھی اور ایک خبر بنانے کی درخواست کی،دراصل ایک خاتون جس کے پانچ بچے تھے کئی ماہ سے مشکلات میں مبتلا تھی،شوہر کسی الزام میں سلاخوں کے پیچھے تھا اور وہ تنہا گھر کا کاروبار چلا رہی تھی ایک بیٹا پولیوکا شکار تھا جبکہ برسات کے موسم میں جھوپڑا بھی کئی جگہ سے ٹپک رہا تھا۔مذکورہ خاتون کام کرنا چاہتی تھی لیکن کوئی اسے کام دینے پر بھی آمادہ نہیں تھا ۔جب میں نے بذات خود مذکورہ خاندان کا جائزہ لیا تو آنکھیں اشکبار ہوگئیں کہ ایک ا چھے گھر کی عورت کس طرح سماج کی بے اعتنائی کا شکار بن کر کسمپرسی کی زندگی گذار رہی ہے۔‘‘ دانش کہتے ہیں’’میں نے خبر کے ساتھ ہی لوگوں سے تعاون کی اپیل کی اور الحمد للہ کچھ لوگوں نے اس خاندان کو بہتر ماحول فراہم کیا۔اس کے بعد سےمیں رضوان کو مجبور و بے سہارا لوگوں کا خاموش کارکن شمار کرنے لگا۔دو برس قبل ہی جب انہوں نے شادی کی تو معلوم ہوا کہ شادی سے زیادہ انہوں نے کسی بیوہ عورت کوجس کے دو بچے تھے سہارا دیا ہے‘‘۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ کے رکن ہارون موزہ والا کہتے ہیں’’رضوان نے ہمیشہ غریبوں ،بے سہارا لوگوں کی مدد کی ہے،پولس نے جو الزام عائد کیا ہے وہ سراسر جھوٹا اسلئے ہے کہ کسی بھی آدمی کو متاثر کرنے کے لیے تین چیزیں چاہئیںیا تو آدمی اتنا دولت مند ہو کہ وہ اپنی دولت کے اثر سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کر لے یا پھر اتنا پڑھا لکھا ہو کہ اپنے علم کا جادو دکھا کر لوگوں کا قائل کر لے یا ایسا ڈان ہو جو خوف دلا کر کسی کو اپنا بنا لے ،رضوان میں مذکورہ تمام چیزیں نہیں ہیںلہذا اس کی گرفتاری نہ صرف ناجائز ہے بلکہ انصاف کا قتل ہے۔‘‘
واضح رہے کہ فی الحال رضوان کو انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے دفعات کےتحت پابند سلاسل کردیا گیا ہے ۔پولس ریمانڈ پر ریمانڈ لیتی جا رہی ہے لیکن ان کے حق میں کوئی گفتگو کرنے والا نہیں ہے۔ممبئی کے پولس اہلکار وں کا کہنا ہے کہ چونکہ معاملہ کیرالہ پولس کے حوالے ہے اس لئے وہ اب کچھ نہیں کر سکتے۔دلچسپ بات آئی آر ایف اور ڈاکٹر ذاکر نائک کی ہےکہ جس ادارے کے نزلے کی بنیاد پر کارروائی کی گئی وہ ادارہ اس سلسلے میں کچھ کرنے کو تیار نہیں ہے۔
جیوتی پنوانی نے ممبئی مرر میں پوری روداد بیان کی ہے ۔میڈیا میں جو لوگ رضوان سے واقف ہیں وہ بھی بے گناہی کی داستان رقم کر رہے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کے حق میں جو آوازیں بلند ہوئی تھیں وہ آوازیں اب خاموش ہوگئی ہیں۔ڈاکٹر ذاکر نے بھی اپنی دفاع کے لیے نہ صرف بہترین وکلاء کی ٹیم تیار کی ہے بلکہ گرفتاری سے بچنے کے لیے کروڑوں روپیہ خرچ کر ڈالا ہے ۔لیکن ایک غریب داعی جس کاجرم صرف یہ ہے کہ جب کیرالہ کے ایک جوڑے نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے ان کے قانونی کاغذات بنوائے اور اس پر بطور گواہ دستخط کیا،ظلم و ستم کا شکار ہیں اور کوئی پیروی کے لیے تیار نہیں ہے۔
المیہ تو یہ ہے کہ دعوت و ارشاد ،تبلیغ اسلام کا بلند بانگ دعویٰ کرنے والے اس غریب گھر والوں کی خبر گیری بھی نہیں کر رہے ہیں جو ان دنوں انتہائی پریشان کن دور سے گذر رہے ہیں۔رضوان خان پولس کا خاموش نشانہ کیوں بنا؟ ہر شخص اس بات سے پریشان ہے ۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ذاکر نائک کے میڈیا ٹرائل کے بعد جب یہ محسوس کیا جارہا تھا کہ ان کے آتے ہی گرفتاری عمل میں آجائے گی اور ہندوستان سے لوگوں نے انہیں نہ آنے کا مشورہ دیا تو پولس کے لیے یہ بڑا چیلنج بن گیا کہ آخر اس مسئلے کو کیسے نمٹا جا ئے لہذا ان غریبوں کو نشانہ بنایا گیا جن کی کوئی پیری بھی نہ کر سکے۔
رضوان خان مسلسل پولس کی ریمانڈ میں ہیں کیرالہ کے بعد ممبئی پولس بھی شاید انہیں اپنی تحویل میں لےلے لیکن اسلامک ریسرچ فائونڈیشن،ڈاکٹر ذاکر نائک اور نہ ہی ان کے اہلکاررضوان کی پیروی کے لیے تیار ہیں۔کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے؟