Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

اشتعال انگیزی کا مقابلہ صبر اور دانشمندی سے کریں:جسٹس احمدی

by | Sep 4, 2016

جسٹس احمدی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئےجبکہ اسٹیج پر ظفریاب جیلانی،خالد سیف اللہ رحمانی ،پروفیسر اختر الواسع کو بھی دیکھا جاسکتا ہے

جسٹس احمدی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئےجبکہ اسٹیج پر ظفریاب جیلانی،خالد سیف اللہ رحمانی ،پروفیسر اختر الواسع کو بھی دیکھا جاسکتا ہے

جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے شرعی مسائل میں وکلاء کی تربیت کے کورس کا آغاز،اہم سماجی و سیاسی شخصیات کی شرکت
نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
نئی دہلی:(معیشت نیوز) جمعیۃ علماء ہندکے صدر دفتر مدنی ہال میں جسٹس اے ایم احمدی سابق چیف جسٹس آف انڈیا کے ہاتھوں جمعیۃ لاء انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے تیارہ کردہ مسلم عائلی قوانین تربیتی کورس کا افتتاح عمل میں آیا جس میں تقریبا چار سووکلاء اور مقتدر علماء نے شرکت کی ۔اجلاس کی صدارت مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری صدر جمعیۃ علماء ہند نے فرمائی ۔اس موقع پرجسٹس اے ایم احمدی، مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری، مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی ، مولانا سید محمد شاہد، ظفریاب جیلانی ، مفتی محمد سلمان منصورپوری ،پروفیسر اخترالواسع ،شکیل احمد سید اورکمال فاروقی سمیت کئی اہم شخصیات نے خطاب کیا ۔اجلاس درمیان میڈیا کے نمائندے سے گفتگو میں مولانا محمود مدنی جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے اس کورس کی ضرورت وافادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اس میں شریعت قوانین( نکاح ، طلاق، نان ونفقہ، وراثت، ولایت ، وصیت اور اوقاف وغیرہ) سے متعلق معلومات شامل ہیں ، جو موجودہ حالات میں وکلاء کے لیے تیار کیا گیا ہے، انھوں نے کہا کہ گر چہ بہتر وسائل کی کمی ہے تاہم یکساں سوچ رکھنے والے قانونی حلقے کے ممبران اور لیگل دوست حضرات کی مدد سے کامیاب ہونے کی امید ہے ۔
جسٹس احمدی نے اجلا س سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ کی اس کوشش کی ستائش کی اورکہا کہ ہمیں اشتعال انگیزی کے بجائے صبر اور دانشمندی سے حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ ہر قوم کوکبھی نہ کبھی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،اب اسے یہ یکھنا چاہیے کہ ان حالات کے پیدا ہونے کے اسباب و عوامل کیا ہیں ، اگر اس کے اندر کوئی خامی ہے تو اصلاح کرنی چاہیے اوراگر یہ مسائل اس قوم کے خلاف چابک کے طور پر استعمال ہورہے ہیں تو اس پر اشتعال انگیزی کے بجائے سنجیدہ اقدام کیا جائے ،کیوں کہ مخالفین کا مقصدہی مشتعل کرنا اور عوامی مذاق بنانا ہے، اس لیے ان کے مقصد کو ناکام کرنے کے لیے ہوش مندی اور دانشمندی کی راہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔انھوں نے دفعہ44کے سلسلے میں کہا کہ اس کے تحت یکساں سول کوڈ کی بات کی جاتی ہے، اس پرعقل مندی سے سوال اٹھانا چاہیے کہ پہلے کوئی ڈرافٹ پیش کیا جائے ،پھر بحث کے درمیان اس کی خوبیوں اور خامیوں پر گفتگو ہوگی ، یہ حقیقت ہے کثیر تہذیب وثقافت والے ملک میںیکساں سول کوڈ کا مسئلہ مسلمانوں سے زیادہ دوسروں کے لیے درد سر بن جائے گا ، اس لیے ہمیں اس پر زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
جمعےۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری نے اپنے صدارتی خطاب میں مسلم پرسنل لاء کے بارے میں عوامی غلط فہمی کا ازالہ اور شریعت اسلامی کا نقطہ نظر مضبوطی سے پیش کرنے پر زور دیا ۔ انھوں نے ان لوگوں کو بھی متنبہ کیا جوغلط فہمی یا دوسروں کے دباؤ میں شریعت کے خلاف راہ اختیار کررہے ہیں ۔ صدر جمعےۃ نے اس سلسلے میں قرآن پاک سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ’’ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کردے تو مومن مردو عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس کے خلاف جائے‘‘ انھوں نے کہا کہ جو لوگ عدالت جا کر اس طرح کا مطالبہ کررہے ہیں ،ان کو شریعت کا مثبت اور مفید پہلو سے آشنا کرایا جائے ۔مولانا منصورپوری نے وکلاء اور علماء کے مابین ربط وضبط کی کوشش پر امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں جاری مقدمات کے تناظر میں اس سے بہت اچھا اور مثبت فائد ہ ہوگا ۔ انھوں نے کہا کہ جمعےۃ علماء ہند کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ قانونی معاملات میں احتجاج و مظاہرے سے اجتناب کرتے ہوئے عدالتی اور اس کے معاون طریقے اختیار کیے جائیں اور ان وسائل سے آئین میں جوحقوق حاصل ہیں،اسے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔
دارالعلوم دیوبند کے متہمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء کے اندر ۱۴؍ مسائل آتے ہیں ، ان میں نکاح ، طلاق، عدت ، حضانت ، وصیت، حق شفعہ وغیروغیرہ ہیں، لیکن آج کل صرف طلاق کو مرکز بحث بنا کر میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے ، اس سلسلے میں لاعلمی اور شریعت سے ناواقفیت اصل وجہ ہے ۔ مولانا نعمانی اس حساس امر کی طرف توجہ دلائی کہ طلاق کے سلسلے میں وکلاء حضرات کے پاس جو فارمیٹ ہے، اس میں صرف تین طلاق کا ذکر ہے ۔جس سے ظاہر ہو تا ہے کہ صرف تین طلاق سے ہی طلاق واقع ہوتی ہے ،پہلے اس فارمیٹ کو بدلنے کی ضرورت ہے ، طلاق تو ایک دینے سے بھی پڑجاتی ہے۔انھوں نے وکلاء حضرات کو مشورہ دیا کہ اگر ان کے پاس کوئی طلاق کا قضیہ لے کر آئے تو اسے پہلے قرآن میں موجود طرفین سے حکم کے ذریعہ مصالحت کی صورت سے واقف کرائیں اور پھر بھی بات نہ بنے تو طلاق رجعی اور سخت مجبوری کی حالت میں طلاق بائن کا مشور ہ دیں ، انھوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں علماء کی بھی ذمہ داری ہے کہ عوامی بیداری پیدا کریں ۔
اسلامک فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ طلاق دینے کی شکلوں میں سے صرف ایک صورت میں دوسری شادی کی ضرورت پڑتی ہے، سراسر غلط فہمی ہے کہ ہر طلاق میں شرعی حلالہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے طلاق کی قسموں سے عوام ، وکلاء وغیرہ کو واقف کرانا ضروری ہے ۔ مولانا خالد سیف اللہ نے کہا کہ آج پوری دنیامیں مساوات کا نعرہ دیا جاتاہے ، جب کہ یہ فطرت کے خلاف ہے ، اسلام نے فطرت کے عین مطابق عدل کا حکم دیا ہے ، اسی تناظر میں وراثت کے سلسلے میں اسلامی احکام کو بھی دیکھا جانا چاہیے ، وراثت کی تقسیم میں بیٹی کو بیٹا سے نصف دیا جاتا ہے ، اس کی بنیاد عدل ہے ،کیوں کہ بیٹے پر کئی لوگوں کی کفالت عائد ہوتی ہے ، جب کہ بیٹی پر خود کی کفالت بھی نہیں ہوتی۔
مظاہر علوم سہارن پور کے امین عام مولانا سید شاہد نے اس طرح کے پروگرام کے انعقاد کے لیے مولانا محمود مدنی جنرل سکریٹری جمعےۃ علماء ہند کو مبارک باددی اور اس توقع کا اظہار کیا کہ اس سے علماء اور وکلاء کے درمیان نہ صرف تال میل قائم ہو گا بلکہ شریعت فہمی کا جذبہ بھی پیدا ہو گا ۔
مفتی محمد سلمان منصورپوری استاذ حدیث مدرسہ شاہی مرادآباد نے کہا کہ اسلام کے تمام قوانین کا مدار وحی الہی ہے ، اس لیے اس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ہم کوئی محاذ آرائی نہیں بلکہ اپنی شریعت پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں ۔آج لوگ کہتے ہیں کہ نیا زمانہ آچکا ہے ، اس لیے شریعت میں تبدیلی ہو نی چاہیے ، لیکن حقیقت ہے کہ معاشرے میں خرابی آگئی ہے تو قصور شریعت کا نکالا جارہا ہے ، خرابی تین طلاق میں نہیں بلکہ تین طلاق دینے کا جو طریقہ رائج ہے وہ غلط ہے۔ہمیں عدالتوں کی طرف سے جو سوالات ہیں، اس کا جواب بھی دینا ہے اور ساتھ ہی اپنے اندر جو خامی ہے اس کی بھی اصلاح کرنی ہے ۔
پروفیسر محمد افضل وانی ڈین فیکلٹی آف لاء آئی پی یونیورسٹی نے کہاکہ مسلمان کو قرآن سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے ۔ہماری اصلی طاقت قرآن وسنت سے وابستگی ہے ، کچھ لوگ اس کو ختم کردینا چاہتے ہیں ،ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے ، اس کے لیے ہمیں قرآن وحدیث کی روح اور اس کی قانونی حیثیت کو سمجھتے ہوئے جدید طرز استدلال کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔اس موقع پر ان کے علاوہ ظفریاب جیلانی،ایڈوکیٹ جنرل گورنمنٹ آف اترپردیش ، پروفیسر اخترالواسع ،وائس چانسلر مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور، کمال فاروقی سابق چےئرمین دہلی اقلیتی کمیشن، ایڈوکیٹ آئی ایم خاں وغیرہ کابھی خطاب ہو ا۔
نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے ایڈوکیٹ مولانا نیاز احمد فاروقی رکن مجلس عاملہ جمعےۃ علماء ہند نے اپنے افتتاحی خطاب میں آزادی سے قبل شریعت ایپلی کیشن ایکٹ اور انفساخ نکاح ایکٹ ۱۹۳۹ء سمیت مسلم پرسنل لاء کے تحفظ میں جمعیۃعلماء ہند کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی جب کہ شکیل احمد سید صاحب نے آخر میں شرکاء کا شکریہ ادا کیا ۔اجلاس کا آغاز مولانا مفتی عفان منصورپوری کی تلاوت سے اور مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری کی دعاء پر اختتام پذیر ہو ا۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...