مختار عباس نقوی اور ظفر سریش والا میں سیاسی رسہ کشی

مرکزی وزیر نقوی کاامسال حج کی قیادت نہ کرنا جبکہ بیشتر معاملات میں ظفر سریش والا کی رسائی بھی شیعہ رہنما کی ناراضگی کا سبب بنی ہوئی ہے
نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
نئی دہلی:(معیشت نیوز)ہندوستان سے ہر برس حج امور کی نگرانی اور خیر سگالی وفد کی قیادت عموماً مرکزی وزراء کرتے رہےہیں لیکن نریندر مودی کے دست راست ظفر سریش والا وزارت میں نہ رہتے ہوئے بھی خیر سگالی وفد کی قیادت کرکے کئی ایک کے کان کھڑے کرچکے ہیں۔خیر سگالی وفد کی قیادت نہ کرنا بلکہ شرکت سے بھی معذور رہنا اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختارعباس نقوی کو سب سے زیادہ کھٹک رہا ہے۔ آر ایس ایس کے تربیت یافتہ شیعہ رہنما نقوی یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ انہیں اس بار حج امور کی قیادت کا موقع ملے گا لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کی دور اندیشی اور ایران سعودی عرب تنازع کے پیش نظر انہوں نے کسی شیعہ رہنما کو سعودی عرب خیر سگالی وفد میں بھیجنا مناسب نہ سمجھا اور فال نیک ظفر سریش والا کے نام نکلا۔
ذرائع کے مطابق مختار عباس نقوی کی گرفت اقلیتی امور کی وزارت پر ڈھیلی پڑتی جارہی ہے انہوں نے اب تک کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جو اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو خوش کر سکے۔نجمہ ہپت اللہ نے اقلیتوں کے لئے مختص رقم واپس کرکے جہاں مودی کی ناراضگی مول لی تھی وہیں مختار عباس نقوی آر ایس ایس کا چہیتا ہوتے ہوئے بھی اپنی کشتی کو منجدھار میں دیکھ رہے ہیںجس کا واضح ثبوت حج خیر سگالی وفد میںشامل نہ کیا جانا ہے۔

ظفر سریش والا نے سعودی عرب میں پریس کانفرنس کرکے حج امور کو وزارت خارجہ سے وزارت اقلیتی امور میں منتقل کرنےکی جو مخالفت کی ہے وہ اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اقلیتوں میں دن بہ دن پائی جانے والی ناراضگی میں نقوی کے کردار کو بھی اہم سمجھا جارہا ہےجبکہ ظفر سریش والا مودی کی چھوی بہتر بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
مرکزی حج کمیٹی کی طرف سے فریضہ حج ادا کرنے والے حجاج بھی ظفر سریش والاکی خبر گیری سے خوش نظر آرہے ہیں اور یہی بات مختار عباس نقوی کو کھائے جارہی ہے حالانکہ ظفر سریش والا ان تمام ناراضگیوں سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں ۔معیشت ڈاٹ اِن سے گفتگو کرتے ہوئے ظفر کہتے ہیں’’حج امور کو وازارت خارجہ سے اقلیتی امور میں منتقل کرنے کی سفارش من موہن سنگھ کی حکومت میں کی گئی تھی لیکن جب میںنے بذات خود پورے معاملے کا جائزہ لیا تو محسوس ہوا کہ اگر کچھ ایسا ہو ا تو اس سے صرف اور صرف حجاج کرام کو نقصان پہنچے گا۔یہی وجہ ہے کہ میں نے اس کی مخالفت کی ہے اب اگر اس سے مختار عباس نقوی صاحب کو تکلیف پہنچی ہے تو مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے۔‘‘ سریش والا کہتے ہیں’’وزارت اقلیتی امور کے پاس کوئی انفراسٹرکچر نہیں ہے کیونکہ یہ صرف مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ مرحوم اے آر انتولے کو خوش کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔جبکہ وزارت خارجہ کے پاس ایسے افسران کی ٹیم ہے جو ہمہ وقت خدمت کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں۔امسال بھی ریاستی ومرکزی سطح کے ۶۴۰سرکاری افسران حجاج کی خدمت پر مامور تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ دوسرے تمام ممالک کے بالمقابل ہندوستانی وفد زیادہ آرام سے تھا۔‘‘
ظفر کہتے ہیں ’’اقلیتی امور کی وزارت کا بجٹ من موہن سنگھ کی حکومت میں محض ۳۲ سو کروڑ تھا جسے نریندر مودی حکومت نے ۳۹سو کروڑ کیا ہے حالانکہ ملک کا بجٹ ۱۲لاکھ کروڑ ہے ۔ہمیں تو اس بجٹ سے استفادہ کرنا چاہئے جس سے کہ تمام لوگ مستفید ہو رہے ہیں ناکہ اقلیتی امور کے جھانسے میں آنا چاہئے‘‘۔نقوی کی ناراضگی سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے ظفر کہتے ہیں ’’مجھے کسی وزارت میں شامل نہیں ہونا ہے اور وہ بھی اقلیتی امور جیسی وزارت کو تو میں کسی لائق ہی نہیں سمجھتا لہذا نقوی صاحب کو میری ذات سے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے‘‘۔
واضح رہے کہ مرکزی وزیر مختار عباس نقوی سے جب رابطہ کی کوشش کی گئی تو انہوں نے فون کال ریسیو نہیں کیا۔