کا روباری مسا ئل کو باہمی مشورے سے حل کریں

امریکی صدر بارک حسین اوبامہ ایک عام جگہ پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے  (تصویر انٹر نیٹ)
امریکی صدر بارک حسین اوبامہ ایک عام جگہ پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے (تصویر انٹر نیٹ)

فضل امین،شریعہ بزنس
ہر انسان، ادارے اور معاشرے کو اپنی زندگی میں ایسے مراحل پیش آتے ہیں جب وہ کشمکش کی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے۔یہ کام کروں یا نہ کروں؟ اسی طرح کسی مسئلے کے حل کے لیے یا کسی اہم فیصلے کے وقت ہمارے سامنے ایک سے زائد راستے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کون سا راستہ اختیار کریں اور کسے ترک کر دیں؟ یہ ایک پریشان کُن صورت حال ہوتی ہے۔ ایسی کشمکش اور پریشان کن صورت حال سے نکلنے کے لیے ممکنہ طور پر دو صورتیں ہیں:
ایک یہ کہ ہم خود ہی کوئی فیصلہ کرلیں، لیکن اس میں غلطی کا امکان زیادہ ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ہم اپنے بڑوں،دوستوں یا پھر ماتحتوںسے مشورہ لیں۔ اس سے انسان غلطی اور نقصان سے بچ جاتا ہے، کیونکہ مشورے میں کئی ایک لوگوں کے ذہن مل جاتے ہیں، ہر ایک مختلف زاویے سے مسئلے کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔
تیزی سے بدلتی کاروباری دنیا اور نت نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے کاروبار میں پیچیدگیاں اور مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ کسی مسئلے کو حل کرنا یا کسی اہم کام میں فیصلہ کرنا ایک آدمی کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ آدمی کی ذرا سی غلطی سے کمپنی یا ادارہ تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے موجودہ حالات میں کاروباری دنیا میں مشاورت کی اہمیت مزید دوچند ہو گئی ہے۔
مشورہ کرنے میں حکمت یہ ہے کہ اس سے ایک معاملے کے مختلف رخ سامنے آتے ہیں، نیز ایسی معلومات اور تجاویز بھی سامنے آتی ہیں، جن سے مشکلات کو سمجھنے اورحل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ایک منیجر یا سپروائزر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنے ماتحتوں سے رائے لے۔ وہ آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ تمام ممکنہ اقدامات پر غور کیا جاتا ہے۔ ان میں سے بعض کا چناؤ کیا جاتا ہے۔ شرکا ایک فیصلے پر متفق ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد متعلقہ اشخاص کو ذمے داریاں سونپ دی جاتی ہیں۔
مسائل کاحل معلوم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سربراہ کی طرف سے محتاط منصوبہ بندی اور مکمل نگرانی ہو۔ جبکہ شرکا کی طرف سے معقول تجاویز ہوں۔ پھر مخصوص مسائل کے حل کے لیے خاص کمیٹیاں بنائی جائیں۔ ایسی کمیٹیاں کافی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ وہ شش کاف (کون، کب، کہاں، کیا، کیوں اورکیسے) جیسے سوالات کا جواب ڈھونڈتی ہیں۔ جس سے مسئلے کی تہ تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔
آپ کو ایک مسئلہ پیش آتا ہے۔ آپ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی چیز غلط ہو رہی ہے۔ آپ کے پاس متضاد قسم کے بیانات آتے ہیں۔ آپ الٹی سیدھی کہانیاں سنتے ہیں۔ آپ سمجھ جاتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ ضرور ہے۔ ایسی صورت میں آپ پریشانی، مایوسی اور جذبابیت کو قریب بھی مت پھٹکنے دیں۔ معتبر ساتھیوں کا گروپ بنائیں، ان سے تفصیلی مشاورت کریں کہ کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں ہونا چاہیے۔ حقائق جمع کریں۔ سراغ لگائیں۔ اسباب اور اثرات پہچانیں۔ یہ بھی جاننے کی کوشش کریں کہ دوسری کمپنیوں نے اس مسئلے کا کیا حل نکالا ہے؟ تمام شرکا کو تنقید برائے تنقید سے پاک ماحول فراہم کریں۔ ان کی تمام آرا کی ایک فہرست بنائیں۔ اپنے تجربات اور معلومات کو کام میں لا کر عمدہ اور قابل عمل تجاویز کا چناؤ کریں اور فیصلہ کریں۔
جب مسئلے کاحل نکالیں تو اس کو لکھیں اور اپنے پاس ریکارڈ میں رکھیں، تاکہ آئندہ کے لیے اس سے استفادہ کیا جا سکے۔ ایک بات یاد رکھیں! جو تجویز یا رائے آپ منتخب کریں۔ ذرا سوچیں کہ اس سے نیا مسئلہ کھڑا تو نہیں ہوگا؟ اس کے فوائد زیادہ ہوں گے یا نقصانات؟ کیا اس تجویز سے مسئلے کے سارے اسباب اور عوامل کا خاتمہ ہوگا یا نہیں؟ آنے والے وقت میں اس کا کیا اثر پڑے گا؟ دوسری جگہ اور دوسرے موقع میں کارآمد اور قابل عمل ہوگا یا نہیں؟ پیشہ ورانہ لحاظ سے بھی قابلِ قبول ہوگا یا نہیں؟
تجربہ کار اورعقل مند لوگ باہمی اتفاق رائے سے کوئی حل تجویز کرتے ہیں۔ ترقی کا سفر ایسے ہی لوگ تجویزکرتے ہیں۔ کامیابی انہی کی منتظر رہتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *