
سوریہ نمسکار ورزش ہی نہیں‘ سورج کی پوجا بھی ہے

ڈاکٹر سید ظفر محمود
ممبئی کے میونسپل کارپوریشن نے اپنے تحت 1200اسکولوں میںبچوں کے ذریعہ یوگا کے ساتھ سوریہ نمسکار کرنے کو بھی لازمی قرارکر دیا ہے۔ اس حکم کے خلاف مسعود انصاری نے ہائی کورٹ سے اس حکم پر روک لگوانی چاہی تو ہائی کورٹ نے انکار کردیا یہ کہہ کر کہ نام پر مت جائو‘ سوریہ نمسکار توایک طرح کی ورزش ہی ہے جو جسم کے لئے فائدہ مند ہے۔ در اصل جب پیٹیشن داخل ہو رہی تھی تبھی چیف جسٹس منجُلا چِلّور اور جسٹس مہیش سونک کی بِنچ نے سوال اُٹھایا تھا کہ اس میں حرج ہی کیا ہے اگر ممبئی میونسپل کارپوریشن نے سوریہ نمسکار کو لازمی کر دیا۔آئیے ممبئی ہائی کورٹ کے اس بیان پر کچھ تحقیق کریں۔شری شری روی شنکر کی تنظیم آرٹ آف لِوِنگ کی ویب سائٹ پر سوریہ نمسکار کے لئے لکھا ہے کہ یہ ایک طریقہ ہے سورج کا شکریہ ادا کرنے کا کیونکہ وہ زمین پر زندگی کو برقرار رکھتا ہے (Expressing gratitude to the Sun for sustaining life on this planet)۔ سوریہ نمسکار کے چھٹے آسن کی تصویر میںدکھایا گیا ہے کہ انسان زمین پر الٹا لیٹ جاتا ہے ‘ اس کے پنجے‘ گھٹنے‘سینہ‘ کندھے‘ ہاتھ اور ٹھُڈّی سب زمین سے لگ جاتے ہیں اور آنکھیں جھُک جاتی ہیں اور اس آسن کو کہا جاتا ہے ’اشٹنگ نمشکار‘یعنی بدن کے آٹھ اعضا کے ذریعہ سورج کو نمسکار (Salute to sun with eight body parts) ۔ سوریہ نمسکار کا روحانی مقصد یہی ہے کہ انسان دل سے مانے کہ سورج ہی ساری حیات کوچلا رہا ہے۔
ماسٹر موروگن چیلیّہ نے اپنی کتاب ’پرانک اوریجنس آف والمیکی راماین ‘ (Puranic Origins of Valmiki Ramayan)میں لکھا ہے کہ سوریہ نمسکار کی طرح ایک اور قدیم رواج تھا جسے ادِتیہ ہردَیَم (Aditya Hridayam)کہا جاتا تھا یہ سورج کو پرنام کرنے کا وہ طریقہ تھا جو سادھو اگستیا نے رام چندر جی کو لڑائی کے میدان میں سکھایا تھا تاکہ وہ راون سے اچھی طرح لڑ سکیں‘ اس کی تفصیل راماین کے باب ’یُدھ کاندا‘ (کتاب نمبر6‘ نظم 107)میں درج ہے۔ اس میںسورج کے 124 نام دئے ہیں اور پندرہویں دوہے میں سورج کے لئے لکھا ہے کہ’’ وہ سیاروں‘ ستاروں اور ان کے جھرمٹوں کا خدا ہے‘ وہ کائنات کی ہر شئے کا سر چشمہ ہے‘ ائے سورج تمھیں ہمارا پرنام‘‘۔ٹائٹس میوزک نے سوریہ نمسکار پر ایک ایپ(App)تیار کیا ہے جس کے تعارف میں ہی لکھا ہے یہ ورزش صبح کے وقت پورب کی جانب منہ کر کے ہی کی جانی چاہئے کیونکہ اسی وقت اسی سمت سے سورج نکلتا ہے۔نوئڈا میں مقیم تنظیم ہلتھ اینڈ یوگا کی ویب سائٹ healthandyoga.com پر لکھا ہے کہ سوریہ نمسکار کے 12 آسنوں میں سے پہلا ہے’ پرنام آسن‘یعنی سورج کو پرنام کیا جا رہا ہے۔امریکہ و کینڈا کی شری کرشن پرنامی تنظیم کی ویب سائٹ pranami.org پر لکھا ہے کہ پرنام کے مطلب ہیں ’میں آپ کے اندر کے اعلیٰ ترین خدا کے سامنے اپنا سر جھکاتا ہوں‘۔
اتر کاشی مدورائی‘ ترووننتاپورم‘ امریکہ‘ یورپ‘ چین‘جاپان‘ارجنٹائنا‘ ویتنام‘ کمبوڈیا‘وغیرہ میں اپنی شاخیں چلانے والی تنظیم سِوانندایوگ ویدامرکز نے اپنی ویب سائٹ sivananda.org پر لکھا ہے کہ علم دیومالا کے مطابق صحت اور حیات لامحدودکی نشانی کے طور پرسورج دیوتا کی پوجا کی جاتی ہے۔رِگ وید میں لکھا ہے کہ تمام متحرک و غیر متحرک اشیا ء کی روح سورج ہی ہے اور اسی لئے سوریہ نمسکار میں صبح سورج نکلتے وقت اس کو متعدد طرح کے سجدے کئے جاتے ہیں اور سوریہ نمسکار کے 12 آسنوں میں سے ہر ایک میں سورج کی خدائی کا جشن منانے کے لئے الگ الگ منتر پڑھے جاتے ہیں۔ پرنایوگا pranayoga.co.in پر درج ہے کہ سوریہ نمسکار سورج کے طلوع و غروب ہوتے وقت اس کی پوجا کرنے کا قدیمی طریقہ ہے۔پورے ہندوستان میں صبح کے وقت ہندو خواتین و حضرات کھڑے ہو کر سورج کی پوجا کرتے ہوے دِکھتے ہیں۔ دوسری جانب قرآن کریم (6.75-80)میں تحریر ہے کہ حضرت ابراہیم ؑنے ستاروں‘ چاند اور سورج سب کو خدا ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں نے اپنے کو ان سب سے الگ کر لیا ہے اور میں قائل ہو گیا ہوں اﷲکا جس نے ان سب کو اور تمام آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور وہی ان سب کا اور ہم سب کا پالن ہار ہے۔ سورہ النحل کی آیت 12 میں پروردگار نے صاف بیان کیا ہے کہ سورج‘ چاند‘ ستارے‘ دن اور رات اسی کے محکوم ہیں اور ان سب کو اس نے انسان کے کنٹرول میں کر دیا ہے‘ یہ معاملہ سورہ لقمان کی آیت 29 میں پھر صاف کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ 11 مقامات پر قرآن کریم میں بار بار تفصیل بیان کر کے اس حقیقت کو سمجھنے میںکوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی ہے کہ تمام کائنات انسان کے زیر نگوں ہے۔در اصل حضور اقدس ؐ کو تمام کائنات سے اونچا اٹھا کے اپنے پاس دنیاوی زندگی میں ہی بلا کے اﷲنے خود براہ راست گفتگو اسی لئے کی کہ وہ رہتی دنیا تک کے لئے نمونہ بن جائیں کہ بقول علامہ اقبالؔ:
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
یہ بھی نوٹ کرنا ضروری ہے کہ نماز بھی بہترین ورزش ہے‘ اس سے بھی جسم کے لئے بہت فائدے ہیں‘ اس کو بھی عوام بلا تفریق مذہب اپنا سکتے ہیں۔ ہائی کورٹ کو سمجھنا ہو گا کہ سوریہ نمسکار اور نماز میں یہی فرق ہے کہ سوریہ نمسکار میں سورج کو دنیا کا پالن ہار مانا جا رہا ہے جبکہ نماز میں اﷲتعالیٰ کوپالن ہار مانا جا رہا ہے اور یہ بھی کہ اﷲسورج کا بھی مالک ہے۔ اس معاملہ میں مسلمان کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے ہیںکیونکہ اﷲکے سوا کسی اورکو دنیا کا پالن ہار ماننا شرک ہے اور شرک انسان کو اسلام سے خارج کر دیتا ہے ۔ آئین ہند کے آرٹکل 15 میں حکومت پر پابندی لگائی گئی ہے کہ وہ کسی شہری کے خلاف مذہب کی بنیاد پر تعصب نہیں کرے گی۔ آرٹکل 25 میں ہر شہری کو برابر کی آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق اپنے مذہب پر قائم رہے اورعبادت کے متعلقہ طریقہ کار اپنائے۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن اور ممبئی ہائی کورٹ دونوںکے احکامات آئین کے ان دونوں آرٹکلوں کے خلاف ہیں۔حاجی علی درگاہ میں عورتوں کے داخلہ سے متعلق مقدمہ میں ممبئی ہائی کورٹ نے تلکایت شری گووند لال جی مہراج بنام حکومت راجستھان میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوے مانا ہے کہ آرٹکل 25 میں مذہبی روایات کی حفاظت کی گارنٹی دی گئی ہے اور اس کے لئے طے کرنا ضروری ہے کہ کیا مذہبی روایت ہے اور کیا نہیں ہے۔ اس مضمون کے مندرجہ بالا پیرا میںقرآن کریم کے حوالوں سے بتا دیا گیا ہے کہ اﷲکے علاوہ کسی کو بھی دنیا کا پالن ہار ماننا یااس کا کسی بھی طور پر اظہار کرنا شرک ہے اور کفر کے زمرہ میں آ جاتا ہے اور یہ حرکت ایمان کی بنیاد پر ضرب کرتی ہیں۔لہٰذا ممبئی ہائی کورٹ نے سوریہ نمسکار کے مقدمہ میں حاجی علی درگاہ والے اپنے ہی فیصلہ کے خلاف احکامات جاری کئے ہیں۔تاریخ ہند میں کہیں بھی نہیں ہے کہ کسی مسلم بادشاہ نے نماز کو سارے عوام کے لئے لازمی کر دیا ہو‘ اس کے بر خلاف حال میں ہریانہ کے ایک اسکول میں عید منائی گئی ‘ کچھ شر پسند عناصر نے کہہ دیا کہ سب بچوں کو نماز پڑھائی گئی‘ اس پر عوام نے احتجاج کیا کہ اسکول میں بچوں کو نماز کیوں پڑھائی گئی۔سوریہ نمسکار کے معاملہ میںممبئی ہائی کورٹ کے اسٹے دینے سے انکار کو مسلمانوں کو چیلنج کرنا ہی ہو گا‘اس معاملہ میں مسلمان غیر سنجیدہ نہیں رہ سکتے۔علماء کرام و مفتی صاحبان‘ ائما‘ خطبا و دانشورانِ ملت سے میری اپیل ہے کہ مسلمانوں کے اس مدعے کو اور زیادہ مظبوط بنانے کے لئے برائے مہربانی جلد از جلدمزید مواد مہیا فرمائیں۔