’’نئی نسل کو تجارت سے قریب کرنا اور حلال تجارت کو فروغ دینا ذمہ داریوں میں شامل ہے‘‘

 معیشت میڈیا کے منیجنگ ڈائرکٹر دانش ریاض
معیشت میڈیا کے منیجنگ ڈائرکٹر دانش ریاض

دانش ریاض کا شمار ملک کے ممتاز نوجوان اردوصحافیوں میں ہوتا ہے۔ملک میں معاشی بیداری لانے کی خاطر آپ نےاردو زبان میں رسالہ بین الاقوامی معیشت اور انگریزی میں ’’معیشت ‘‘جاری کیا ہے اسی کے ساتھ روزانہ معاشی و تجارتی خبروں سے آگاہ کرنے کے لیے پورٹل معیشت ڈاٹ اِن(اردو اور انگریزی) بھی اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔کل ہند سطح پر معاشی اجلاس کے ذریعہ جہاں آپ نے افراد کے ساتھ کئی انجمنوں کو مستفید کیا ہے وہیں سماجی سطح پرغیر مسلم صحافیوں سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے لیے مائناریٹی میڈیا کانفرنس آپ ہی کے ذہن کی اختراع ہےجس کے ذریعہ دہلی اور ممبئی میں اہم پروگرام منعقد کئے جاتے رہے ہیں۔موصوف کی خدمات کو دیکھتے ہوئے یو این آئی کے نمائندےاعجاز احمدنے خصوصی انٹرویو کیا جو قارئین کی نظر ہے۔
سوال : صحافت کا شوق کب پروان چڑھا اور اس سنگلاخ زمین میں کیوں کرقدم ر کھا؟
جواب: غالباً ۱۹۹۲؁ کے اوائل کی بات ہے کہ میں درجہ نہم کا طالب علم تھا اور ہاسٹل میں قیام پذیر تھاجہاں طلبہ پڑھائی کے فوری بعد سو جایا کرتے تھے۔ان دنوں بابری مسجد کا قضیہ زور و شور سے چل رہا تھا لہذا بیشتر افراد بی بی سی ریڈیو کی جانب سے رات کے گیارہ بجے نشر ہونے والی خبر سننا چاہتے تھے ۔ طلبہ کے ساتھ اساتذہ اور قرب و جوار کے لوگوں کی یہ خواہش کئی بار کانوں میںپڑی کہ کاش کوئی ان خبروں کو صبح صبح ہم تک پہنچا دیتا تو بڑا بہتر ہوتا۔معاً میرے ذہن میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ میں رات کے وقت خبر سن کر اسے کاغذ پر منتقل کردوں اور صبح لوگوں تک پہنچا دوں ،لہذا ترکیب یہ نکالی کہ رات کو خبر سنتا اور خبروں کی سرخی کے ساتھ دو تین لائن کی تشریح کے ساتھ مکمل بلیٹن وال پیپر پر منتقل کرکے وال پیپر مسجد کے باہر آویزاں کر دیتا ،پہلے ہی دن مجھے حیرت انگیز خوشی ہوئی کہ بیشتر نمازی فجر کی نماز کے بعد جب باہر نکلے توانہوں نے ایک نظر وال پیپر پر ضرور ڈالی جبکہ کئی لوگوں نے مکمل پڑھا۔یہ صحافت کے میدان میں میرا پہلا دن تھا اور پہلی خوشی بھی،اس کے بعد تو یہ سلسلہ شروع ہوگیا اور روزانہ جاگ کر میں اس فریضے کو انجام دینے لگا۔ اسی دوران میں نے ایک مضمون بابری مسجد کی تاریخ پر ہندی زبان میں تحریر کیااور اپنے رفیق درس کو پڑھنے کے لئے دیا ،موصوف نےیہ کہہ کر مضمون اپنے پاس رکھ لیا کہ تحریر بہتر نہیں ہے لہذا اسے میرے پاس ہی رہنے دومیں درست کر دوں گا ۔کئی روز بعد میری نظر ایک رسالے پر پڑی تو معلوم ہوا کہ موصوف نے میری تحریر اپنے نام چھپوالی ہے۔اس دوران یہ احساس ہوا کہ مجھے لکھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس میدان میں آگے بڑھنا چاہئے۔
دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ میری ایک غزل جمعیۃ طلبہ کی سالانہ میگزین ’’الفلاح‘‘میں شائع ہوئی ،میرے کرم فرما جناب اکرام الرحمن صاحب جو ان دنوں ابوظہبی الہلال بینک کے جنرل منیجر ہیں، انہوں نے شام کی چائے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’تم شعر و شاعری ،نظم و غزل کے چکر میں کیوں پڑے ہوئے ہو ،نثر میں اپنی قسمت آزمائو۔ مضامین لکھو،تحقیقی مقالات پیش کرو،چھوٹے موٹے واقعات پر تبصرہ کیا کرو،میں سمجھتا ہوں یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہوگا‘‘۔یہ بات دل میں بیٹھ گئی اور میں نے تحریر کا سہارا لیا۔
سوال:آپ کی پہلی رپورٹنگ جس کا کہ عوام پر خاص اثر پڑا ہو اور آپ کو بھی میدان صحافت میں جمے رہنے کا حوصلہ ملا ہو؟
جواب: بی بی سی کی خبروں کو عوام تک پہنچا کر یک گونہ سکون تو حاصل ہو ہی رہا تھا کہ اچانک ایک خبر موصول ہوئی کہ اعظم گڈھ کے قریب اشرف پور جو خالص پور کے قریب واقع ہے وہاںفرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا ہے اور تین دنوں سے گائوں میں کیا ہو رہا ہے اس کی خبر کسی کو نہیں ہے۔میں نے اپنے رفیق درس سیف الدین اظہر ہلالی کو اس بات پر آمادہ کیا کہ ہمیں گائوں کا دورہ کرنا چاہئے اور وہاں کے حالات سے اہلیان اعظم گڈھ کو مطلع کرنا چاہئے۔اس وقت اشرف پور جانے کے دو راستے تھےیا تو جیگہاں سے ہوتے ہوئے خالص پور کے راستے اشرف پور پہنچیں یا پھر اعظم گڈھ سےجو راستہ(ہندو بستی سے ہوتے ہوئے) جاتا ہے اس کا انتخاب کریں چونکہ دونوں جانب پی اے سی تعینات تھی اور کسی کو بھی گائوں میں جانے کی اجازت نہیں تھی لہذا ہم نے اعظم گڈھ کے راستے کھیتوں سے ہوکر گائوں میں داخلے کی کوشش کی ۔کسی طرح چھپتے چھپاتے گائوں کے اندر داخل ہوگئے۔ وہاں جانے کے بعد جو نظارہ دیکھا تو آنکھوں سے آنسو ابل پڑے۔بیشتر گھر خالی پڑے تھے ۔چند ایک لوگ جان ہتھیلی پر لیے گائوں میں ضرور موجود تھے لیکن پولس کے خوف سے گائوں میں ہی دبکے پڑے تھے۔پی اے سی کے اہلکاروں نے مختلف گھروں میں گھس کر نہ صرف اناج کی کوٹھیوں کو توڑ کر پورا گھر تہس نہس کردیا تھا بلکہ بیشتر گھروں میں پانی کے نل تک کو توڑ دیا گیا تھا کہ کوئی پانی بھی نہ پی سکے۔کئی لوگوں نے تو یہاں تک الزام لگایا کہ جو زیورات یا قیمتی سامان تھے وہ بھی پولس والے لوٹ کرلے گئے تھے۔اس صورتحال نے مجھے آزردہ کردیا اور میں نے ایک تفصیلی رپورٹ اپنے وال پیپر میں شائع کی ،شاید وہ رپورٹ کہیں اور بھی شائع ہوئی لیکن رپورٹ کا خاطر خواہ اثر پڑا ۔مولانا محمد طاہر مدنی مدظلہ عالی(جو ان دنوں راشٹریہ علماء کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں) نے لوگوں کو جمع کرکے وہاں کے حالات اور تفصیلات سے نہ صرف آگاہ کیا بلکہ ان کی امداد کا بھی پروگرام ترتیب دیا ۔اس واقعہ نے بھی مجھے تحقیقی صحافت کی طرف متوجہ کیا اور میں نے بعد میں کئی تحقیقی مقالات نذر قارئین کئے۔

معیشت میڈیا کے منیجنگ ڈائرکٹر دانش ریاض جن سیوا کو آپریٹیو کریڈٹ سوسائٹی ،گیا یونٹ کی طرف سے منعقدہ پروگرام کو خطاب کرتے ہوئے(فائل فوٹو)
معیشت میڈیا کے منیجنگ ڈائرکٹر دانش ریاض جن سیوا کو آپریٹیو کریڈٹ سوسائٹی ،گیا یونٹ کی طرف سے منعقدہ پروگرام کو خطاب کرتے ہوئے(فائل فوٹو)

سوال: اردو میں آپ کی شناخت کارپوریٹ صحافت یا معاشی خبروں کے حوالے سے بن رہی ہے۔ معیشت کا اجراء اور معاشی خبروں کو اردو دوستوں تک پہنچانا آپ نے اپنی ذمہ داریوں میں شامل کر رکھا ہے ۔آخر اس سلسلے میں آپ کن مسائل سے دو چار ہو رہے ہیں؟
جواب: جس وقت میں نے اپنی میگزین’’بین الاقوامی معیشت‘‘اردو زبان میںلانچ کی تھی اس وقت صرف ایک رسالہ ’’ماہنامہ صنعت و تجارت‘‘کلکتہ سے شائع ہورہا تھا ۔یقیناً ’’ماہنامہ صنعت و تجارت‘‘اپنی انفرادی حیثیت کا حامل تھا ۔چھوٹے چھوٹے گھریلو کاروبار کس طرح کئے جا سکتے ہیں ،گھروں کے اندر چھوٹی صنعتیں کیسے لگائی جاسکتی ہیں ، کم پونجی میں کس طرح جائز منافع کمایا جاسکتا ہے اس کا بہترین تذکرہ ’’ماہنامہ صنعت و تجارت‘‘کے پرانے شماروںمیں آپ کو مل جائے گا لیکن کارپوریٹ دنیا کیسے بدل رہی ہے ۔اسٹاک کے کاروبار میں کیسے تبدیلی رونماہورہی ہے ۔انٹر نیشنل مارکیٹ کا مقامی بازار پر کیا اثر پڑ رہا ہے ان چیزوں سے وہ رسالہ خالی نظر آتا تھا۔ لہذا میں نے اسی خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی تھی ۔دوسری اہم وجہ یہ تھی کی کہ ’’ماہنامہ صنعت و تجارت‘‘کی طباعت و اشاعت کی جو کوائیلیٹی تھی وہ موجودہ قارئین کو متاثر نہیں کر پا رہی تھی لہذا میں نے انٹر نیشنل اسٹینڈرڈ کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہ صرف مواد میں کوائیلیٹی پیش کی بلکہ تزئین و طباعت کا بھی خاص خیال رکھا۔دوسری طرف میں نے اسے پرنٹ کے ساتھ آن لائن بھی شائع کرنا شروع کیااور یہی وجہ ہے کہ وہ قبول عام حاصل کرتا گیا اور الحمد لللہ آج لاکھوں قارئین ملک و بیرون ملک اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ ’’رسالہ معیشت ‘‘اور’’معیشت ڈاٹ اِن‘‘ میں شائع ہونے والے ’’معاشی رپورٹس‘‘’’معاشی تجزیہ‘‘’’معاشی انٹرویوز‘‘’’کارپوریٹ خبروں‘‘ سے اردو داں حلقہ استفادہ تو کرتا ہے لیکن یہ ماڈیول جاری و ساری رہے اس کی طرف توجہ نہیں دیتا۔چھوٹی بڑی کمپنیوں کے مختلف ذمہ داران اپنے انٹرویوز کے لیے رابطہ کرتے ہیں ،اپنے پروڈکٹ کی مارکیٹنگ کروانا چاہتے ہیں ،پروڈکٹ کی تشہیر کے لیے پلاننگ کروانے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن جب آپ ان سے اشتہارات کی بات کریں یا پھر مذکورہ کام کی فیس بتائیں تو پھر ناک منھ چڑھالیتے ہیں۔وہ خود بزنس کرنا چاہتے ہیں لیکن بزنس کو پرموٹ کرنے والے اداروں کا تعاون نہیں چاہتے،اور یہ چیز مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے۔جب میں غیر مسلموں سے معاشی معاملات کرتا ہوں تو مجھے یک گونہ سکون حاصل ہوتا ہے۔
سوال : آپ کی ایک خاص پہچان مختلف معاشی پروگراموں کے حوالے سے بھی ہے۔آپ ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں جن پر اردو داں طبقہ بڑی مشکل سے سوچتا ہے ۔آخر ایسا کیوں؟
جواب: یہ ایک حقیقت ہے کہ مجھے مختلف ایسے پروگرام منعقد کرنے کا اعزاز حاصل ہے جس پر اردو داں طبقہ کم کم ہی سوچتا ہے۔ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھو رام راجن کی حمایت میں جب میں نے ’’مونیٹری پالیسی ‘‘پر مباحثہ منعقد کیا تو کئی لوگ اس بات پر حیران تھے کہ ’’مونیٹری پالیسی‘‘کا مسلمانوں سے کیا لینا دینا کہ اردو زبان میں اس پر گفتگو ہو رہی ہے۔لیکن مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے چانسلر اور پارسولی کارپوریشن کے مالک ظفر سریش والا نےجب معیشت کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے وال پوسٹ میں لکھا کہ ’’میں مسلمانوں کے بیچ ان معاملات پر گفتگو ہوتے ہوئے نہیں دیکھتا تھا لیکن ادارہ معیشت جس طرح کی کوششیں کر رہا ہے یہ نہ صرف لائق ستائش ہے بلکہ نئی نسل کو ایجوکیٹ کرنے کا بہترین پلیٹ فارم بھی ہے۔‘‘تو کئی لوگوں نے بعد میں مبارکباد پیش کی ۔ابھی آئندہ ہفتوں میں ہم ’’دی ایکنامکس آف انڈرورلڈ‘‘انڈر ورلڈ کی معیشت پر گفتگو کرنے جا رہے ہیں ۔ یہ بھی ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت کم گفتگو ہوئی ہے اور مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ لوگ اسے پسند کریں گے اور ٹھوس پیغامات لے کر جائیں گے۔
دراصل اہم بات یہ ہے کہ الحمد لللہ مجھے ایسے سنجیدہ دوستوں ،کرم فرمائوں،صاحب علم و عمل خیر اندیشوں کی معیت حاصل ہے جو سنجیدہ کاموں پر یقین رکھتے ہیں ۔کاغذی لیڈروں،وقتی مفادات کے بازیگروںاور سطحی فکر و خیال کے لوگوں سے دوری بنائے رکھنے کی وجہ سے بھی مجھے لوگوں میں اعتبار حاصل ہوا ہے ۔البتہ ان تمام باتوں میں سہی بات تو یہ ہے کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔اللہ کا فضل و کرم ہے کہ اللہ رب العزت نے نیک لوگوں کی صحبت عطا کی ہے جو صالح فکر کے قدردان ہیں۔
سوال: گذشتہ کئی برسوں سے آپ معاشی ترقی،معاشی نشو نما،معاشی تعلیم کے پروگرام پر مختلف کام کر رہے ہیں ۔آخر زمینی سطح پر اس کا کس حد تک فائدہ پہنچا ہے؟
جواب: گذشتہ کئی برسوں کی کوششوں کے نتیجہ میں کم از کم معاشی پروگرام کے حوالے سے کمیونیٹی میں بیداری آئی ہے۔مختلف گروپس اب اس پر گفتگو کے بجائے عملی اقدام کرنے لگے ہیں۔ نیٹ ورکنگ کی وجہ سے لوگوں کو بزنس بھی ملا ہے ۔کئی لوگ تو ان کوششوں سے متاثر ہوکر اپنے آپ کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایک صاحب نے اعلانیہ اس بات کا اعتراف کیا کہ اقوام متحدہ کا ہندوستان میں انٹر پرینرشپ سیل پر بحیثیت ڈائرکٹر تقرری صرف اور صرف ’’ادارہ معیشت ‘‘کی مرہون منت ہے۔دراصل ہم نے اپنا سلوگن ہی ’’بریجنگ بزنس ٹو آنٹرپرینرس‘‘رکھا ہے لہذا نئی نسل کو تجارت سے قریب کرنا اور حلال تجارت کو فروغ دینا ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔مارکیٹ کے اتار چڑھائو سے قارئین کو روشناس کرانا اور وقتاً فوقتاً ان کی معاشی رہمنائی کرنا ہم اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ سیکڑوں لوگ اس سے مستفید ہوئے ہیں اگر ہم اسے ڈاٹاکی شکل میں ترتیب دے لیں تو اب تک کی تعداد لاکھوں میں پہنچ جائے گی۔
سوال: موجودہ دور میں مسلمان معاشی طور پر سب سے زیادہ پریشان نظر آ رہے ہیں۔معاشی طور پر ان کی کمر ٹوٹی جارہی ہے ۔آخر آپ اسے کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟
جواب: یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان معاشی طور پر سب سے زیادہ پریشان ہیں۔اگر حالیہ سروے رپورٹ کی روشنی میں گفتگو کروں تو ہندوستان کا ہر چوتھا مسلمان غریب ہی نہیں بلکہ’’ فقیر ‘‘ہے۔مسلمانوں کے یہاں معاشی پسماندگی کی بہت ساری وجوہات ہیں ۔تقسیم ہند کے بعد جب مسلمانوں کا صاحب ثروت طبقہ ملک سے ہجرت کر گیا تو یہاں مفلوک الحالوں کی بڑی تعداد رہ گئی۔کانگریسی وزیر اعظم آنجہانی اندراگاندھی نے مسلمانوں کی زمین و جائداد پر قبضہ کرنے کے لیے ’’زمینداری ایکٹ‘‘متعارف کرایاتو مسلمانوں کی بیشتر زمینیں ان لوگوں کے پاس چلی گئیں جو مسلمانوں کے یہاں کاشت کاری کا کام کیاکرتے تھے۔جب زمینیں چلی گئیں تو وقار و اختیار بھی چلا گیا ۔جس کے بعد مسلمان چھوٹے چھوٹے کاروبار میں شامل ہونے لگے ۔قالین سازی،چمڑے کی صنعت،کپڑے کی صنعت،پیتل و تانبے کی صنعت کے ساتھ تالا چاقو جیسے کاروبار میں بھی مسلمان ہی نظر آنے لگے تھے ۔لیکن کچھ عرصہ کے اندر ہی اُن علاقوں میں فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا جہاں مسلمان معاشی طور پر مستحکم نظر آرہےتھے۔مسلمانوں کے املاک کی تباہی آئے دن کا معمول قرار پائی تو انہوں نے بیرون ملک ملازمت کر کے اپنی زندگی کو خوشحال بنانے کی کوشش کی لیکن اب معاملہ یہ ہے کہ بیرون ملک کی ملازمتیں بھی ختم ہوتی جارہی ہیں اور معاشی طور پر مسلمان ’’فقیر ‘‘ہی نہیں’’ گداگر‘‘ ہوگیا ہے۔
دراصل مسلمانوں نے معاشی استحکام کے لیے کوئی ایسا ٹھوس کام نہیں کیا جو انہیں حکومتی ریشہ دوانیوں کے علی الرغم بھی مضبوط کئے رکھے۔نہ ہی انہوں نے بدلتے زمانے کے ساتھ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر توجہ دی۔روایتی کاروبار کو بھی ’’پدرم سلطان بود‘‘کی طرح انجام دیتے رہے جبکہ معاشی دینیات کا ذرہ برابر خیال نہیں رکھا جو اسلام کا طرہ امتیاز تھا۔اب جبکہ ’’آگے کنواں پیچھے کھائی‘‘کی صورتحال کا سامنا ہے تو ہم ’’ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا‘‘ ہیں۔ہمارے یہاں تعمیری کام کرنے والے یا تو’’ مخدوش عمارتیں‘‘ بناتے ہیں یا پھر ’’مین پاور‘‘ کا کام کرنے والے ’’کبوتر بازی‘‘میں ملوث نظر آتے ہیں۔صنعت و حرفت کی طرف ہماری توجہ کم کم ہوتی جارہی ہے ۔ہم کارپوریٹ کی ملازمت میں بھی ’’چپراسی ‘‘کے لیول پر ہی رکھے جا رہے ہیں۔اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے بچوں میں صلاحیت کی کمی ہے بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اپنے بڑے یہ نہیں چاہتے کہ قوم کے بچے بھی بڑے بنیں لہذا وہ اپنی دولت ذاتی نمود و نمائش میں لٹانا تو بہتر سمجھتے ہیں لیکن کسی کو صنعت کار و تاجر بنانا وقت و پیسے کا ضیاع شمار کرتے ہیں۔جب بڑے ہی چھوٹوں کی رہنمائی نہیں کریں گے تو پھر کوئی دوسرا آپ کی قدر کیوں کرے گا؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *