نئی نسل کو حلال تجارت سے آگاہ کرنا وقت کی اہم ضرورت:ماہرین

مہاراشٹر کے کو آپریٹیو وزیر سبھاش دیسائی
مہاراشٹر کے کو آپریٹیو وزیر سبھاش دیسائی

ممبئی : (ایجنسی ) ’’ہندوستان میں حلال تجارت کے رجحان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جبکہ اسلامی بینکنگ کی طرف بھی مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلموں کا رجحان بڑھا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم نے ہندوستان میں اسلامک بینکنگ سے متعلق بیداری پروگرام ترتیب دیا ہے‘‘ ان خیالات کا اظہار معیشت میڈیا کے ڈائرکٹر دانش ریاض نے یو این آئی سے اپنی گفتگو میں کیا ۔
واضح رہے کہ مہاراشٹر کے وزیر برائے کو آپریٹیو سبھاش دیشمکھ نے غیر سودی بینک کاری کی پہل کرتے ہوئے بزنس لون دینا شروع کیا ہے جس کی وجہ سے اس میدان میں کام کرنے والوں میں امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے۔ہارورڈ یونیورسٹی کے سابق فیلو مشہور ماہر معاشیات ڈاکٹر شارق نثار کہتے ہیں ’’ہندوستان جیسے ملک میں اسلامک بینکنگ کا آغاز بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا لیکن سیاست نے ایسا زور دکھایا کہ اب تک صرف گفتگو ہی کی جا رہی ہے ۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’سبھاش دیشمکھ صاحب نے جس طرح کے کام کا آغاز کیا ہے اس کی نہ صرف پذیرائی کی جانی چاہئے بلکہ ہر ہر قدم پر ان کا ساتھ دینا چاہئے۔‘‘
دانش ریاض سے جب یہ پوچھا گیا کہ ’’آپ کی خاص پہچان مختلف معاشی پروگراموں کے حوالے سے ہے۔آپ ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں جن پر اردو داں طبقہ بڑی مشکل سے سوچتا ہے ۔؟ معیشت کے ڈائرکٹر دانش کہتے ہیں ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ مجھے مختلف ایسے پروگرام منعقد کرنے کا اعزاز حاصل ہے جس پر اردو داں طبقہ کم کم ہی سوچتا ہے۔ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھو رام راجن کی حمایت میں جب میں نے ’’مونیٹری پالیسی ‘‘پر مباحثہ منعقد کیا تو کئی لوگ اس بات پر حیران تھے کہ ’’مونیٹری پالیسی‘‘کا مسلمانوں سے کیا لینا دینا کہ اردو زبان میں اس پر گفتگو ہو رہی ہے۔لیکن مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے چانسلر اور پارسولی کارپوریشن کے مالک ظفر سریش والا نےجب معیشت کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے وال پوسٹ میں لکھا کہ ’’میں مسلمانوں کے بیچ ان معاملات پر گفتگو ہوتے ہوئے نہیں دیکھتا تھا لیکن ادارہ معیشت جس طرح کی کوششیں کر رہا ہے یہ نہ صرف لائق ستائش ہے بلکہ نئی نسل کو ایجوکیٹ کرنے کا بہترین پلیٹ فارم بھی ہے۔‘‘تو کئی لوگوں نے بعد میں مبارکباد پیش کی ۔ابھی آئندہ ہفتوں میں ہم ’’دی ایکنامکس آف انڈرورلڈ‘‘انڈر ورلڈ کی معیشت پر گفتگو کرنے جا رہے ہیں ۔ یہ بھی ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت کم گفتگو ہوئی ہے اور مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ لوگ اسے پسند کریں گے اور ٹھوس پیغامات لے کر جائیں گے۔‘‘ اس سوال کے جواب میں کہ ’’آخر زمینی سطح پر اس کا کس حد تک فائدہ پہنچا ہے؟‘‘ دانش ریاض کہتے ہیں’’گذشتہ کئی برسوں کی کوششوں کے نتیجہ میں کم از کم معاشی پروگرام کے حوالے سے کمیونیٹی میں بیداری آئی ہے۔مختلف گروپس اب اس پر گفتگو کے بجائے عملی اقدام کرنے لگے ہیں۔ نیٹ ورکنگ کی وجہ سے لوگوں کو بزنس بھی ملا ہے ۔کئی لوگ تو ان کوششوں سے متاثر ہوکر اپنے آپ کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایک صاحب نے اعلانیہ اس بات کا اعتراف کیا کہ اقوام متحدہ کا ہندوستان میں انٹر پرینرشپ سیل پر بحیثیت ڈائرکٹر تقرری صرف اور صرف ’’ادارہ معیشت ‘‘کی مرہون منت ہے۔دراصل ہم نے اپنا سلوگن ہی ’’بریجنگ بزنس ٹو آنٹرپرینرس‘‘رکھا ہے لہذا نئی نسل کو تجارت سے قریب کرنا اور حلال تجارت کو فروغ دینا ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔مارکیٹ کے اتار چڑھائو سے قارئین کو روشناس کرانا اور وقتاً فوقتاً ان کی معاشی رہمنائی کرنا ہم اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ سیکڑوں لوگ اس سے مستفید ہوئے ہیں اگر ہم اسے ڈاٹاکی شکل میں ترتیب دے لیں تو اب تک کی تعداد لاکھوں میں پہنچ جائے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مہاراشٹر میں کاپریٹیو کے وزیر سبھاش دیشمکھ کہتے ہیں کہ ’’ہم ان تمام لوگوں کا ساتھ چاہتے ہیں جو اس فیلڈ میں کام کر رہے ہیں ۔میں نے ایک پہل کی ہے اور جو لوگ بھی اس سے مستفید ہونا چاہتے ہیں ہم ان کا خیر مقدم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *