
بنگال کے مسلمانوں پر ثقافتی اور ذرائع ابلاغ کی یلغار
نور اللہ جاوید
مغربی بنگال کی28فیصد مسلم آبادی کو مختلف محاذوں پر سخت چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہے، غربت ، پسماندگی اورتعلیمی ناخواندگی بنیادی مسائل ہیں ، اس کا احساس یہاں کے مسلمانوں کو شدت سے بھی ہے وہ یہ محسوس بھی کرتے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی کے بعدان کی محرومیاں کم ہونے کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے ۔سچر کمیٹی کی رپورٹ بنگالی مسلمانوں کےلئے سنگ میل ثابت ہوئی، سےاسی بےداری کی وجہ سے باےاں محاذ کے 34سالہ باےاں محاذ حکومت کا خاتمہ ہوا ۔سابقہ اور موجودہ حکومت کو بھی مسلمانوں کے لئے کوئی عملی اقدامات کرنے پڑے۔ان حالات میں سب سے خوش آئند بات یہ رہی کہ مسلمانوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ پسماندگی کے خاتمے کےلئے انہیں بھی اپنے حصے کا چراغ جلانا ہوگا۔مسلمانوں کا تعلیم یافتہ و خوشحال طبقے نے اجتماعی پسماندگی کے خاتمے کےلئے معیاری تعلیمی ادارے، ٹریننگ اور کوچنگ کلاسیس قائم کیے جس کے بہتر نتائج سامنے آرہے ہیں۔2011کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق بنگالی مسلمانوں میں خواندگی کی شرح میں10فیصد کا اضافہ ہوا ہے گرچہ یہ ابھی بھی مجموعی کم ہے ، اس طرح گزشتہ 6سالوں میں بنگال سروس کمیشن، پولس اور دیگر سرکاری محکمہ میں مسلم امیدواروں کی کامیابی کی شرح 18سے 20فیصد تک پہنچ گئی ہے جب کہ اس سے قبل 5سے 7فیصد سے بھی کم رہتی تھی۔لیکن ان تمام کوشش و تگ دو کے باوجودمغربی بنگال کے مسلمان مجموعی طور پراب بھی پسماندگی کا شکار ہیں۔ اس سے نکلنے کےلئے جہد مسلسل ، عمل پیہم کی ضرورت ہے ۔ نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین کی این جی او پراتیچی کی رپورٹ ان حالات کا بین ثبوت ہے۔
ذرائع ابلاغ اور ثقافتی سطح پرمسلمانوں کو سخت چیلنج اور مشکلات کا سامنا ہے ۔بلکہ یہاں نفرت انگیز مہم چلائی رہی جارہی ہے ۔پوری مسلم آبادی کو احساس جرم میں مبتلاکرنے کےلئے ذرائع ابلاغ سرگرم ہے ۔فلم اور آرٹ کی سطح پر مسلمانوں کی شناخت اور تہذیب و کلچر کو مجروح کرنے کی مسلسل کوشش جاری ہے ۔حالات کی سنگینیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بنگالی میڈیا میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر کے درجے میں ہے ۔کسی بھی بنگالی نیوز چینل پر مسلم اینکر نہیں ہے۔اسی طرح بنگالی سنیماکے دروازے صرف مسلمانوں پر ہی نہیں بلکہ بنگال کے ہندوپسماندہ طبقات ،شیڈول کاسٹ و شیڈول ٹرائب کےلئے بھی بند ہیں۔اسی وجہ ہے کہ ذرائع ابلاغ سے لے کر ٹالی ووڈ کی فلموں تک میں مسلم مخالف مواد کی بھر مار ہے۔
درگا پوجا سے عین قبل ریلیز ہونے والی ٹالی وڈ فلم ”ذوالفقار“مسلم ثقافت و کلچر ، شناخت اور حب الوطنی پر ایک بڑا حملہ ہے ۔فلم کا ٹریلر جاری ہونے کے بعد اردو نیوز ایجنسی یواین آئی اور بنگلہ اخبار قلم میں خبر شائع ہونے کے بعد مسلمانوں میں غم و غصہ کاماحول ہے۔مگرکلکتہ جو احتجاج اور مظاہروں کا شہر کہلاتا تھا مگر ممتا بنرجی کی قیادت میں حکومت کے قیام کے بعد یہ کلچر کا خاتمہ ہوگیا ہے ۔ترنمول کانگریس کی لیڈر شپ اس قدر حاوی ہوچکی ہے ان کی مرضی کے بغیر سیاسی ، سماجی اور دیگر امور میں چاہے وہ ان کے خلاف ہو ےا نہ ہو مگر صدائے احتجاج بلند کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔چناں چہ غم و غصہ اور ناراضگی کے باوجود اس فلم کے خلاف مسلم حلقے جس شدت سے آواز بلند ہونی چاہیے وہ نہیں ہوسکی ہے۔کہنے کو اس فلم کی کہانی شیکسپیئر کی دو کہانی سے استفادہ کرکے بنائی گئی ہے اور اس کے ذریعہ شیپنگ مافیا کو بے نقاب کےا گیا ہے۔مگر فلم کے جو ٹریلر جو اب تک سامنے آئے ہیں اس میں مسلم اکثریتی علاقے کو علاحدگی پسند اور جرائم پیشہ کے طور پر دیکھا گیا ہے۔قومی انعام یافتہ فلم ساز سری جیت مکھرجی کی فلم”ذو الفقار“اگلے مہینے 7اکتوبر بنگال کے سنیما گھروں میں ریلیز ہوگی۔
درگا پوجا کا تہواربنگال کا سب سے بڑانہ صرف مذبہی تہوار ہے بلکہ بنگال قوم کےلئے اپنی ثقافت و کلچر کے اظہار کا سب سے بڑا موقع بھی ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بنگالی قوم سال بھر کہیں بھی ہو مگر وہ درگا پوجا کے موقع پر کلکتہ ضرور آنا چاہتا ہے۔ٹالی ووڈ بھی اس موقع پرکئی فلمیں ریلیز کرتا ہے۔بنگال بالخصوص کلکتہ میں درگا پوجاتہوار کی جو سب سے بڑی خصوصیت ہے شاید وہ کسی دوسری ریاست میں نہیں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے یہ ہے کہ پوجا کمیٹیوں میں مقامی مسلمان بھی شامل ہوتے ہیں وہ برادرن وطن کے اس تہوار میں ہر ممکن تعاون پیش کرتے ہیں ، پنڈال بنانے والے کی اکثریت بھی مسلم ورکروں کی ہے۔گویا بنگال میں درگا پوجا کا تہوار فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مظہر ہے مگر اس موقع پر ”ذوالفقار“ جیسی جارحیت اور مسلم دشمنی پر مبنی فلم کی نمائش اس بات کا ثبوت ہے کہ گرچہ زمینی سطح بنگال میں فرقہ واریت، مذہبی منافرت اور نسلی عصبیت نہیں ہے مگر ریاست کا اشرافیہ عصبیت اور نسلی منافرت اور مسلم فوپیا کے شکار ہیں۔
بالی ووڈ ، ٹالی ووڈ یا پھر تیلگو او رتمل فلموں میں مسلم مخالف ذہنیت کوئی نئی بات نہیں ہے، مسلمانوں کی شبیہ، مسلم ثقافت و کلچر اور مذہبی اقدار پرحملے ہوتے رہیں اور ہر دور میں ایسی فلمیں بنتی رہی ہیں ۔مگر بنگالی فلم ’ذوالفقار“ کے ذریعہ ایک تیر سے دو شکار کیا گیا ہے۔ایک طرف مسلم اکثریتی آبادی کو جرائم پیشہ ، غنڈہ اور مجرموں کے گروہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے وہیں فلم کے ذریعہ مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگایا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ فلم میں ہے کیا؟”ذوالفقار“ کا جو ٹرےلر اب تک سامنے آیا ہے اس کے مطابق فلم کی شروعات ایک بیک گراﺅنڈ آواز سے ہوتی ہے جس میں کلکتہ کو درگااور رابندر ناتھ ٹیگور کی سرزمین بتایا جاتا ہے ۔مگر اچانک رابندر ناتھ ٹیگور کی تصویرخون سے لہو لہان ہوجاتی ہے اور پھر بیک گراﺅنڈ سے آواز آتی ہے ۔کلکتہ میں ایک اور سرزمین ہے جہاں ترنگا نہیں لہرایا جاتا ہے اور نہ ہی قومی ترانے کو گانے کی اجازت ہے ۔پھر اس کے بعدکلکتہ شہرکے مسلم اکثریتی علاقے ’خضر پور، مٹیا برج، گارڈن ریچ کوجو ہگلی ندی کے کنارے آباد ہیں اور یہاں ڈگ قائم ہے جہاز آنے جانے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہے،فلم میں دکھلایا جاتا ہے۔ یہاں کے بچوں کے ہاتھوں میں چاقو ہے جو بے دریغ ایک دوسرے پر حملے کرتے ہیں۔مقامی آبادی کو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث دکھلایا جاتاہے ۔سڑکوں پر لوگوں کو نماز پڑھتے دکھلایا جاتا ہے ۔محرم کا علم جو ہرے کلر کاہوتا ہے اس کو اس طرح سے پیش کیا گیا ہے گویا یہاں کی مقامی آبادی ترنگے کی جگہ پر استعمال کرتے ہیں ۔گرچہ اس فلم کی پوری کہانی اب تک منظر عا م پر نہیں آئی ہے تاہم فلم کے ان ٹریلروں فلم کی پوری کہانی سمجھنے کےلئے کافی ہے۔
مسلم حلقوں کی جانب سے سخت نکتہ چینی اور اعتراض کے بعدفلم کے ڈائریکٹر سری جیت مکھرجی سماجی ویب سائٹ فیس بک کے ذریعہ صفائی پیش کی کہ وہ مسلم فوپیا کے شکار نہیں ہیں نہ ان کا مقصد مسلمانوں کی حب الوطنی کو مشکوک بناناہے بلکہ وہ اس کے ذریعہ ڈگ علاقے میں ہونے والے مجرمانہ سرگرمیاں کو بے نقاب کرنا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ ”کلکتہ میں ایک اور شہر ہے جہاں نہ قومی ترانا گیا جاتاہے اور نہ ترنگالہرانے کی اجازت ہے“ جیسے جملے کا مقصد کیا ہے ؟اس کے ذریعہ کیا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے؟ مسلم بچوں کے ہاتھوں میں چاقوکا کہانی سے کیا سروکار؟ ظاہر ہے کہ مکھرجی کے قول و فعل بڑا فرق ہے ۔یہ معاملہ کلکتہ پولس تک پہنچ چکا ہے اب دیکھنا ہے کہ مسلمانوں کی مسیحا ہونے کی دعویٰ کرنے والی ممتا بنرجی کی قیادت والی حکومت مسلمانوں کی اس ناراضگی کا کیا حل نکالتی ہے ۔
حالیہ برسو میں بنگلہ ذرائع ابلاغ نے بھی مسلمانوں کے تئیں جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے؟ 2014میں بردوان دھماکہ، اس سال کی شروعات میں مالدہ میں پولس اسٹیشن پر حملہ اور ابھی بیر بھوم ضلع کے ایک گاﺅں میں درگا پوجاکا پنڈال لگانے کی اجازت نہیں ملنے کی خبر پر ذرائع ابلاغ نے مسلمانوں کے خلاف جس طریقے سے زبان استعمال کیا ہے اس کی مثالیں ماضی میں نہیں ملتی ہیں۔میڈیا کے تند و تیز حملے کی زد میں ریاست کی نامور مسلم شخصیتیں بھی ۔ان کے تاڑے بنگلہ دیش کی ممنوعہ تنظیم جماعت المجاہدین سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی گئی۔مشہور بنگلہ مسلم صحافی اور راجیہ سبھا کے ممبر پارلیمنٹ احمد حسن عمران کے خلاف جس طریقہ سے میڈیا ٹرائل کیا گیا اس میں ذرائع ابلاغ نے اپنی تمام اخلاقی حدود تک عبور کردیا۔مگر سوال یہ ہے کہ اس ثقافتی اور ذرائع ابلاغ کے اس یلغار کا جواب مسلمانوں کے پاس کیا ہے؟ وہ اس حالات سے کس طریقے سے نمٹیں گے ۔المیہ یہ ہے کہ اس چیلنج سے نمٹنے کےلئے مسلم حلقوں کی جانب سے اب تک کوئی سنجیدہ کوشش شروع نہیں ہوئی ہے۔صرف مذمتی بےانات اور قرارداد سے کیا مسائل حل ہوجائیں گے؟
٭مضمون نگار یواین آئی کے کلکتہ سنٹر میں صحافی ہیں